آئینۂ ذات

آئینہ جب سچ دکھاتا ہے، تو نظر نہیں، ہمت چاہیے دیکھنے کے لیے۔ — ڈاکٹر شاکرہ نندنی

اے انسان! تو کون ہے؟ اور تیرا رشتہ اس لمحے سے کیا ہے جسے تُو گزرتا ہوا سمجھتا ہے، مگر جو دراصل تجھے گزارتا ہے؟

جب کوئی لمحہ کسی پُرانی یاد کو جگاتا ہے یا کوئی اجنبی صدا تیری روح کو چھو لیتی ہے، تو کیا تُو رُک کر خود سے سوال کرتا ہے؟ یا سب کچھ ایک دھندلا خواب بن کر تیرے اندر دفن ہو جاتا ہے؟

یہ مضمون اُن سطروں کا عکس ہے جو نہ کسی کتاب میں لکھی گئیں، نہ کسی زبان نے انہیں مکمل طور پر ادا کیا۔ یہ اُن لمحوں کی دستاویز ہے جنہیں انسان اکثر بھول جاتا ہے — وہ لمحے جب وہ اپنے سچ سے ٹکراتا ہے۔

تصور کرو کہ ایک وقت تھا جب انسان پر کوئی رنگ، نسل، مذہب یا زمین کا نام نہیں تھا۔ وہ صرف ایک "صدا" تھی ، ایک بے آواز پُکار، جو کائنات کے سکوت میں تحلیل ہوتی جاتی تھی۔ اس صدا میں طلب تھی، جستجو تھی، ایک بےچینی تھی۔ شاید وہی طلب آج بھی باقی ہے، مگر ہم نے اسے لفاظی، نظام، اور پہچان کے چوغوں میں لپیٹ دیا ہے۔

جب ہم کسی آواز کو سن کر چونکتے ہیں، کسی منظر کو دیکھ کر رُک جاتے ہیں، یا کسی اجنبی کے درد میں اپنا عکس پاتے ہیں ، تو کیا یہ محض اتفاق ہوتا ہے؟ یا ہماری روح اُس گہرائی سے ہمیں پکارتی ہے جسے ہم روزمرہ کی دوڑ میں بھول چکے ہیں؟

کبھی تم نے یہ محسوس کیا ہے کہ تم کسی بات پر رو رہے ہو، حالانکہ وہ تمہاری ذاتی زندگی سے تعلق نہیں رکھتی؟ کبھی ایسا ہوا کہ تمہیں کسی کا غم اپنا لگا، کسی اجنبی چہرے میں اپنا عکس نظر آیا؟ اگر ہاں، تو تم اب بھی زندہ ہو ، محض جسمانی طور پر نہیں، بلکہ باطنی سطح پر۔

وقت، ایک ایسا آئینہ ہے، جو ہر لحظہ تمہیں تمہاری اصل صورت دکھاتا ہے۔ مگر یہ آئینہ دھندلا ہے۔ اس پر زمانے کی گرد جمی ہے۔ اسے صاف کرنے کے لیے نہ وضو کی ضرورت ہے، نہ کوئی ورد۔ صرف ایک لمحہ درکار ہے ، سچائی کے ساتھ دیکھنے کا لمحہ۔

کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ جو ہم سمجھتے ہیں وہ "یادیں" ہیں، دراصل وہی ہماری اصل زندگی ہیں؟ باقی سب تو عکس ہے، تمثیل ہے، دھواں ہے۔ وہ بچے جو ذبح ہوئے، وہ عورتیں جو زندہ چھوڑ دی گئیں، وہ سمندر جو چاک ہوا ، یہ سب انسان کی اندرونی دنیا کے استعارے ہیں۔ ہم ہر روز کسی یاد کو ذبح کرتے ہیں، کسی خواب کو زندہ چھوڑتے ہیں، اور کسی احساس کو سمندر میں ڈبو دیتے ہیں۔

اگر آج کوئی تمہارے سامنے آئے اور کہے: "میں تمہارے اندر کی پیاس ہوں" — تو تم کیا جواب دو گے؟ کیا تم اُسے پانی دو گے، یا سوال؟ کیا تم اُسے پہچانو گے؟ یا نظرانداز کر دو گے جیسے خود کو کیا تھا؟

یہ مضمون سوال بن کر تمہارے اندر اترنا چاہتا ہے، جواب نہیں دینا۔
سوال کہ: کیا تم اپنے اندر کی نجات دیکھ پائے ہو؟
کیا تم جانتے ہو کہ تمہارا سب سے بڑا دشمن تمہارا وہ خوف ہے جو تمہیں خود سے ملنے نہیں دیتا؟

وقت اب بھی کھڑا ہے۔
آئینہ اب بھی تھامے ہوئے ہے۔
کیا تم ہمت کرو گے ، اُس میں دیکھنے کی؟
 

Dr. Shakira Nandini
About the Author: Dr. Shakira Nandini Read More Articles by Dr. Shakira Nandini: 411 Articles with 302296 views Shakira Nandini is a talented model and dancer currently residing in Porto, Portugal. Born in Lahore, Pakistan, she has a rich cultural heritage that .. View More