پانی زندگی کی بنیادی ضرورت ہے۔ دنیا کی بیشتر آبادی پانی
کی کمی اور آلودگی کا شکار ہے، اور پاکستان اس بحران سے شدید طور پر متاثر
ہو رہا ہے۔ دنیا بھر میں پانی کی قلت ایک خطرناک شکل اختیار کر چکی ہے اور
پاکستان اُن ممالک میں شامل ہے جہاں یہ مسئلہ روز بروز سنگین تر ہوتا جا
رہا ہے۔ اس بحران کی ایک بڑی وجہ آب و ہوا کی تبدیلی ہے، جس کے اثرات ہمارے
ملک کے تمام شعبہ جات پر ظاہر ہو رہے ہیں۔
پاکستان میں پانی کی قلت
پاکستان میں پانی کی قلت کئی پہلوؤں سے سامنے آ رہی ہے۔ ایک طرف دریاؤں میں
پانی کی سطح کم ہو رہی ہے تو دوسری طرف زیر زمین پانی کی سطح خطرناک حد تک
نیچے گر چکی ہے۔ سندھ، بلوچستان، جنوبی پنجاب اور تھر جیسے علاقوں میں صاف
پانی کی فراہمی ایک خواب بن چکی ہے اور بیشتر آبادی آلودہ پانی پینے پر
مجبور ہے، جس سے صحت کے سنگین مسائل جنم لے رہے ہیں۔
صاف اور قابلِ اعتماد پانی تک رسائی میں مشکلات
پاکستان میں صاف پانی کی فراہمی پہلے ہی محدود تھی، مگر اب یہ مسئلہ ایک
قومی بحران بن چکا ہے۔ شہری علاقوں میں پینے کے پانی میں سیوریج کی آمیزش
کی شکایات عام ہیں، جبکہ دیہی علاقوں میں پانی کے قدرتی ذرائع خشک ہو رہے
ہیں یا زہریلے مادّوں سے آلودہ ہو چکے ہیں۔ آبادی میں اضافہ، ناقص حکومتی
پالیسیاں، اور صنعتی فضلہ بغیر کسی صفائی کے پانی میں شامل ہونے کے باعث
زیر زمین پانی کی سطح کم ہو رہی ہے اور اس میں نائٹریٹ، سنکھیا اور دیگر
مہلک کیمیکل شامل ہو چکے ہیں۔
موسمیاتی تبدیلی اور پانی کی فراہمی
آب و ہوا کی تبدیلی نے پاکستان میں بارشوں کے نظام کو شدید متاثر کیا ہے۔
کہیں بارش بہت کم ہو رہی ہے جس سے خشک سالی پیدا ہو جاتی ہے، اور کہیں غیر
متوقع شدید بارشوں سے سیلاب آتے ہیں۔ گلیشیئرز کے تیزی سے پگھلنے کے باعث
وقتی طور پر پانی کا بہاؤ بڑھ جاتا ہے، مگر طویل المدتی طور پر خطرہ ہے کہ
مستقبل میں دریاؤں کو پانی فراہم کرنے والے یہ ذخائر ختم ہو جائیں گے۔
سیلاب کی وجہ سے نہ صرف فصلیں اور انفراسٹرکچر تباہ ہوتا ہے بلکہ پانی کے
ذخائر بھی آلودہ ہو جاتے ہیں، جس سے صاف پانی کی فراہمی مزید متاثر ہوتی
ہے۔ دوسری طرف خشک سالی کی وجہ سے زراعت کا شعبہ بری طرح متاثر ہوتا ہے، جس
کا اثر خوراک کی کمی، مہنگائی اور غربت کی صورت میں سامنے آتا ہے۔
پنجاب میں نئی نہروں کی تعمیر اور سندھ پر اثرات
حال ہی میں پنجاب میں نئی نہریں تعمیر کی جا رہی ہیں جن کا مقصد مقامی
زراعت کو پانی فراہم کرنا ہے۔ بظاہر یہ ایک ترقیاتی منصوبہ ہے، مگر اس کا
گہرا اثر سندھ کے زیریں علاقوں پر پڑے گا۔ سندھ پہلے ہی دریائے سندھ سے
پانی کی غیر منصفانہ تقسیم کی شکایت کرتا ہے۔ 1991 کے بین الصوبائی پانی کے
معاہدے کے تحت جو پانی صوبہ سندھ کو ملنا تھا، اس میں بھی تقریباً 25 فیصد
کمی دیکھی جا رہی ہے۔ ان نئی نہروں کے قیام سے مزید کمی آئے گی اور دریاؤں
میں پانی کا بہاؤ کم ہو گا، جس کا براہ راست اثر سندھ کی زراعت، پینے کے
پانی کی فراہمی اور دریائی حیات پر پڑے گا۔ کوٹری بیراج کے نیچے کئی علاقے
پہلے ہی پانی کی شدید قلت کا شکار ہیں۔ اگر اس رجحان کو نہ روکا گیا تو
سندھ کے زرخیز علاقے بنجر ہو سکتے ہیں اور کراچی جیسے میٹروپولیٹن شہر کو
سنگین مسائل درپیش ہوں گے۔
کراچی کی آبادی تقریباً 24 ملین نفوس پر مشتمل ہے۔ ایک اندازے کے مطابق شہر
کی فی کس پانی کی ضرورت 54 گیلن یومیہ ہے، یوں مجموعی طلب 1800 ملین گیلن
پر ڈے بنتی ہے۔ موجودہ سپلائی 650 ملین گیلن پر ڈے ہے، جو کہ طلب سے بہت کم
ہے۔ اگر دریائے سندھ سے پانی کی مزید کمی ہوئی تو کراچی میں انسانی بحران
جنم لے سکتا ہے۔
مقامی پہلو: نوشہرو فیروز
نوشہرو فیروز سندھ کا وسطی ضلع اور قومی شاہراہ کے سنگم پر واقع ہے۔ ضلع
نوشہرو فیروز کی کل آبادی 17 لاکھ 70 ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔ ضلع بننے کے
تقریباً 36 سال گزرنے کے باوجود آج تک یہ بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔ اس
رپورٹ میں ضلع کے ہیڈکوارٹر نوشہرو فیروز شہر کے مسائل پر روشنی ڈالی گئی
ہے جن میں پانی کی قلت، نکاسی آب اور صحت کے مسائل سرفہرست ہیں۔
گزشتہ ایک دہائی سے موسموں کی تبدیلی یہاں نمایاں طور پر محسوس کی جا رہی
ہے۔ بارشیں یا تو وقت پر نہیں ہوتیں، یا انتہائی شدت سے ہوتی ہیں۔ کبھی خشک
سالی اور کبھی طوفانی بارش، یہ سب موسمیاتی تبدیلی کی علامات ہیں، جو
کسانوں کے لیے فکر کا باعث بنتی جا رہی ہیں۔ گندم، چاول، کپاس اور سبزیاں
اب صرف فصلیں نہیں بلکہ موسمی قہر کی کہانیاں بن چکی ہیں۔
1984-85 تک نوشہرو فیروز کے کئی دیہی و شہری علاقوں میں حکومت کی جانب سے
واٹر سپلائی اسکیمیں فعال تھیں۔ صاف پانی کے نل ہر محلے اور گھر میں موجود
تھے، مگر وقت کے ساتھ یہ اسکیمیں بند ہو گئیں۔ مرمت اور توجہ کی کمی کے
باعث نظام زنگ آلود ہو کر ناکارہ ہو چکے ہیں۔ لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت
زیر زمین پانی پر انحصار شروع کیا، جو ابتدا میں ایک حل محسوس ہوا، مگر اب
یہ بحران بن چکا ہے۔
شہر کی نہر میں سیوریج کا پانی بغیر کسی ٹریٹمنٹ کے شامل ہو رہا ہے، جو
افسران کے دفاتر کے سامنے سے گزرتا ہے اور ان کی بے حسی کا مذاق اڑاتا ہے۔
اسی پانی سے سبزیاں اگائی جا رہی ہیں جو انسانی صحت کے لیے خطرناک ہیں۔ جب
میونسپل چیئرمین سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے مؤقف دینے سے انکار کر دیا۔
پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کے زیرِ سایہ چلنے والا ڈرینج سسٹم بھی بجٹ کی کمی کا
رونا روتا ہے۔
زیرِ زمین پانی
1984-85 کے بعد جب بورنگ کے ذریعے پانی نکالنا شروع ہوا تو پانی کا TDS
لیول 200 سے 300 ppm تھا۔ کچھ سالوں تک یہ پانی بہتر رہا، لیکن مسلسل نکاسی
سے اب یہ لیول 3000 ppm سے بھی زائد ہو چکا ہے، جو کہ ناقابلِ استعمال ہے۔
بعض علاقوں میں این جی اوز کے ذریعے کرائے گئے ٹیسٹوں میں arsenic (آرسینک)
بھی پایا گیا ہے۔ پانی کی سطح نیچے جانے کی وجہ سے اب 60 سے 80 فٹ کے بجائے
200 فٹ سے زائد گہرائی تک بورنگ کرنا پڑتی ہے، جو اخراجات بڑھا دیتا ہے۔
غریب دیہی آبادی کے لیے صاف پانی تک رسائی اب تقریباً ناممکن ہو چکی ہے۔
اثرات
آلودہ پانی کے استعمال سے ہیضہ، ہیپاٹائٹس، اسہال، گردوں کی خرابی اور
مختلف بیماریوں میں اضافہ ہوا ہے۔ دیہی علاقوں کے بچے روزانہ میلوں پیدل
سفر کر کے ہینڈ پمپ سے پانی لاتے ہیں، جو نہ صرف جسمانی مشقت ہے بلکہ وقت
کا ضیاع بھی ہے۔ اس کا براہ راست اثر بچوں کی تعلیم اور خواتین کی صحت پر
پڑتا ہے۔ نوشہرو فیروز کی 70 فیصد آبادی زراعت سے وابستہ ہے۔ نمکین اور
آلودہ پانی فصلوں کی پیداوار کم کر رہا ہے، جس سے مقامی کسان قرضوں تلے دب
چکے ہیں۔ بدقسمتی سے اس بحران کو سیاسی قیادت، حکومتی ادارے اور بلدیاتی
نمائندے نظر انداز کر رہے
|