واٹر کولر کے ساتھ زنجیر سے بندھا اسٹیل کا گلاس ہمارے
معاشرے میں کئی برسوں سے بحث کا موضوع ہے۔ یہ ایک معمولی سی چیز ہے، مگر
کچھ افراد نے اسے اخلاقی، تہذیبی اور معاشرتی زوال کی علامت بنا رکھا ہے۔
آئے دن بیرونِ ملک مقیم ’’باشعور‘‘ پاکستانیوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر اس
گلاس کے سہارے پورے معاشرے پر تنقید کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں۔ تازہ ترین
تنقید ایک صاحب نے فرمائی، جنہوں نے صرف پاکستانیوں کو نہیں، مسلمانوں کو
بھی آڑے ہاتھوں لیا اور معاشرتی زوال پر خوب دل کا غبار نکالا۔
یہ رویہ نیا نہیں۔ ہمارے ہاں ایک مکتبہ فکر ہمیشہ سے موجود رہا ہے جسے میں
’’ملامتی پاکستانی‘‘ کہوں گا۔ یہ لوگ اپنی شناخت پر شرمندہ ہوتے ہیں،
پاکستانی ہونے پر خود کو ملامت کرتے ہیں، اور دوسروں کو بھی اس احساسِ جرم
میں شریک کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ ہم میں کوئی خوبی نہیں،
ہم بحیثیت قوم ناقابلِ اصلاح ہیں، اور جو کچھ بھی ہمیں میسر ہے، وہ کسی
’’اتفاقی حادثے‘‘ کا نتیجہ ہے، ہماری محنت کا نہیں۔
ایسا نہیں کہ پاکستان خامیوں سے پاک ملک ہے۔ ہر باشعور شہری اصلاحِ احوال
کا خواہش مند ہوتا ہے۔ لیکن مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب تنقید کا انداز
تعمیری نہیں، محض تحقیر آمیز ہو۔ ایسے ناقدین کی سوچ یہیں ختم نہیں ہوتی؛
یہ کسی فلاحی عمل کو بھی طنز کا نشانہ بنا لیتے ہیں۔
میرے علاقے کا ایک واقعہ اس رویے کی واضح مثال ہے۔ ایک صاحب نے اپنے گھر کے
باہر واٹر کولر نصب کیا۔ ساتھ ایک اسٹیل کا گلاس زنجیر سے باندھ دیا تاکہ
وہ گم نہ ہو۔ دوسرے با شعور ہمسائے نے گلاس کی زنجیر کو دیکھ کر تبصرہ
فرمایا:
"یہ ہے ہمارا پاکستان جہاں گلاس کو بھی زنجیر سے باندھ کر رکھنا پرتا ہے ۔
دنیا کے کسی اور ملک میں تو ایسا
نہیں ہوتا"
مجھے معلوم تھا اس نے دنیا تو کیا کراچی بھی نہیں دیکھا ہوا
کولر لگانے والے نے بڑی نرمی سے کہا دن کے وقت کولر کے اوپر دھوپ آ جاتی ہے
، کوئی خدا کا بندہ اس پر سایہ ہی کر دے
تنقید کرنے والے کے چہرے پر خاموشی چھا گئی، مگر اگلے ہفتے کولر والے صاحب
نے خود ہی ایک سایہ دار درخت لا کر لگا دیا۔ واٹر کولر اب دھوپ سے محفوظ
ہے، گلاس محفوظ ہے، اور پیاسوں کی دعائیں اُس نیک دل کو نصیب ہو رہی ہیں۔
یہ وہ فرق ہے جو تنقید اور عمل کے درمیان ہوتا ہے۔ ملامتی پاکستانی صرف
زبان سے ملامت کرتے ہیں، مگر جو واقعی بہتری چاہتے ہیں وہ خاموشی سے عمل
کرتے ہیں۔ ایسے لوگ تعداد میں کم ہوں گے، لیکن اثر میں بہت بڑے ہیں۔
ایسا نہیں کہ پاکستان صرف تنقید کا مستحق ہے۔ یہاں بے شمار لوگ ہیں جو اپنی
حیثیت سے بڑھ کر دوسروں کی خدمت کرتے ہیں۔
کہیں لنگر بانٹنے والے ہاتھ ہیں
کہیں خون عطیہ کرنے والے
کہیں تعلیم دینے والی انجمنیں
اور کہیں چھوٹے چھوٹے فلاحی پروجیکٹس
ہمیں اپنی توجہ ان لوگوں پر مرکوز رکھنی چاہیے۔ جو روز کچھ نہ کچھ کر رہے
ہیں—بنا شور، بنا شہرت۔
کالم کے آخر میں، میں بس یہی عرض کروں گا کہ:
زنجیر سے بندھا گلاس اگر آپ کو پریشان کرتا ہے تو زنجیر کھولنے کا عملی حل
بھی پیش کیجیے۔ تنقید کیجیے مگر تعمیری، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنے اندر
سے یہ ملامت کا زہر نکالیے۔
یہ ملک ایک نعمت ہے، اور یہاں کے لوگ—جی ہاں، یہی پاکستانی—اصل میں بڑے
رحمدل اور جفاکش ہیں۔ ضرورت صرف مثبت سوچ اور مسلسل عمل کی ہے، نہ کہ مسلسل
شکایت کی۔
|