حج کا سفر - پہلے کتنی صعوبتیں -- اب کتنی سہولتیں ( قسط نمبر 2 )
(Munir Bin Bashir, Karachi)
اس سے پہلے کی قسط میں مختلف زمانے میں کءے جانے والے حجوں کا ذکر کیا تھا کہ کتنی تکالیف پیش آتی تھیں -- بھوپال کی شہزادی حج کے بعد مدینہ جا ہی نہیں سکیں - ایک حج کا سفر 1949 کا تھا - سعودی عرب کا ہوائی اڈہ پاکستان کے کسی دیہات کے ریلوے اسٹیشن کی طرح تھا - اب مشہور شاعر شیفتہ کا سفر نامہ پڑھیں - 186 سال پہلے کے حالات اور دشواریوں کا تذکرہ ہے |
|
نواب مصطفی خان شیفتہ (زمانہ 1809--1869) اردو کے مشہور شاعر ہیں - انہوں نے سال 1839 عیسوی یعنی 186 سال پہلے حج کیا اور واپس آنے کے بعد ایک سفر نامہ تحریر کیا - یہ سفر نامہ اس زماے کے تاریخ ، حالات اور سفر کی دشواریوں پر خوب روشنی ڈالتا ہے - - اپنے سفر نامے میں لکھتے ہیں کہ جب حج کے لئے اپنی والدہ اور نانی کے ہمراہ دہلی سے بمبئی پہنچے توبمبئی میں چار ماہ انتظار کر نا پڑا کیونکہ بحری سفرکے لئے موسم سازگار نہیں تھا-- انہوں نے دہلی سے بمبئ پہنچنے کے حالات کا بحی جائزہ بھی لیا ہے -کہتے ہیں کہ مختلف مقامات پر مختلف قسم کے سکے رواج پذیر تھے -ایک جگہ کا سکہ دوسری جگ نہیں چلتا تھا - اسی طرح پیمائش کے پیمانے بھی الگ الگ تھے - ایک جگہ کی پیمائش کا پیمانہ دوسری جگہ کے پیمانے کے برابر نہیں تھا -- 15 شعبان 1255 ہجری یعنی 1839 سال عیسوی میں نواب مصطفی خان شیفتہ بمبِئی سے بذریعہ بادبانی جہاز حج کے لئے روانہ ہوئے اوربیس دن کی مسافت کے بعد 5 رمضان کو عدن پہنچے - انگریزوں نے سات ماہ قبل ہی عدن پر قبضہ کیا تھا - عدن پر قبضہ کی کہانی کچھ اس طرح ہے کہ انگریزوں نے عدن کے حکمرانوں سے کہا کہ جو آمدنی آپ کو عدن سے ہورہی ہے اس سے زاید ہم آپ کو ادا کر تے ہیں اور بندرگاہ ہمارے سپرد کردو - خیر 8 یا 9 رمضان کو حدیدہ کے مقام پر پہنچے - اس زمانے میں یہ علاقہ بادشاہ مصر محمد پاشا کے زیر انتظام تھا - اس زمانے میں یورپ میں بھاپ کی طاقت سے چلنے والے جہاز بن چکے تھے لیکن ہندوستان میں بادبانی جہا ز ہی ہوتے تھے - حدیدہ سے روانگی ہوئی - راستے میں ناخدا کو علم نہ ہو سکا اوررات کے وقت جہاز ایک سمندر میں چھپی ہوئی چٹان سے ٹکرا گیا - یہ ٹکرکافی زوردار تھی - - شیفتہ کا بادبانی جہاز ڈولنے لگا اور جلدی ڈولنے سے ڈوبنے کی حالت کو پہنچ گیا - موجوں کی طغیانی جہاز کو بار بار اس چٹان سے ٹکرا رہی تھی - اونچی لہروں کے سبب سمندری پانی بار بار ان کی بادبانی جہاز میں داخل ہو جاتا تھا - کسی کو علم نہیں تھا کہ یہ کون سی جگہ ہے- صبح ہوئی روشنی پھیلی -- ادھر ادھر نگا ہ کی تو تو پتہ چلا کہ دور دور تک ساحل کا نشان نہیں تھا البتہ قریب ہی ایک چھوٹا سا جزیرہ دکھائی دیا -دلوں کو ڈھارس ہوئی - تھپیڑوں کی شدت دیکھتے ہوئے اور لہروں کی بلندی کا اندازہ کرتے ہوئے سب اس بات پر متفق ہوئے کہ جہاز انہیں زیادہ دیر اپنے اندر سمو نہیں سکے گا بہتر یہی کہ پہلے جزیرے پہنچا جائے پھر آگے کی منصوبہ بندی کی جائے - جہاز کے اندر ایک کشتی ابھی سلامت تھی - فیصلہ ہوا کہ سب اسی کشتی میں سوار ہو کر اس جزیرے پر پہنچتے ہیں -- جو سامان پانی سے محفوظ تھا اسے سمندر میں ڈال دیا گیا کہ مقدر ہو تو مل جائے گا - اسی طرح پینے کے پانی کے ڈرم بھی سمندر میں پھینک دئے گئے کہ نصیب ہوا دوبارہ تیر تے ہوئے جزیرے کی طرف آجائیں گے - کچھ پانی کے ڈرم رکھ لئے گئے -- اور جہاز کو الوداع کر کے جزیرے کی طرف کشتی کا رخ موڑ دیا - اس وقت سمندر میں طغیانی آئی ہوئی تھی اور سمندر سرکشی کے عالم میں تھا - اونچی نیچی لہروں میں کشتی اخروٹ کی طرح ہچکولے کھا رہی تھی - ایسے لگتا تھا کہ درخت کا ایک پتہ آندھی طوفان میں اڑتا پھر رہا ہے- سمندر کی لہریں کشتی کو بار بار ہوا میں اچھال دیتی تھیں- آخر بہزار دقت اس جزیرے کو پہنچ ہی گئے یہ عجب جزیرہ تھا - پورے جزیرے میں ایک بھی درخت نہیں تھا کہ اس کے پھل کھا سکیں یا اس کے سائے میں بیٹھ کر گرمی کی شدت سے بچ سکیں - جزیرے میں دو سو کے قریب افراد تھے پینے کے پانی کے صرف آٹھ ڈرم تھے - صرف چند روز ہی یہ پانی چل سکتا تھا - پینے کے پانی کے ڈرموں میں پانی کم ہوتا جارہا تھا - صبح شام ایک پیالہ پانی ملا کرتا تھا اور یہ صورتحال نہایت تشویش ناک تھی اور فوری توجہ کی طالب تھی - یہی سوچا گیا کہ جزیرے میں رہیں گے تو کچھ بھی حاصل نہ ہو گا چنانچہ بہتر ہے کہ کچھ لوگ جان پر کھیل کر چھوٹی کشتی میں بیٹھ جائیں - امید نہیں تھی کہ یہ کشتی سمندر کی تند و تیزتھپیڑوں اور اونچی لہروں کا مقابلہ کر سکے گی لیکن اس کے علاوہ کوئی اور چارہ نہ تھا - چنانچہ چار دن بعد چار شوال کو دس افراد کشتی میں سوار ہوئے - دعائیں لیتے ہوئے اور دعائیں پڑھتے ہوئے کھلے سمندرمیں روانہ ہو گئے- مقصد یہ تھا کہ کہیں کوئی مدد یا ساحل نظر آئے تو مدد حاصل کریں - جانے والوں میں پنجاب کے ایک صاحب مولوی برہان الدین صاحب بھی تھے - پہلے دو حج کر چکے تھے - ان کا یہ تیسرا حج تھآ لیکن اب مستقل مکہ میں سکونت کے ارادے سے جا رےہے تھے - جہاز کو ٹوٹے سولہ دن اور اور جزیرے میں قیام کئے ہو ئے بارہ دن گزر چکے تھے لیکن کہیں سے کوئی مدد نہیں پہنچی -------- پینے کا پانی کم سے کم ہوتا جارہا تھا - یہ پریشانی الگ تھی - اللہ رب الکریم نے کرم کیا اور ایک دن بارش ہوئی - سب کے چہرے کھل اٹھے - جلدی جلدی خالی ڈرم بھرنے کی کوشش کی - اس کے علاوہ بڑے بڑے گڑہے کھود لئے اور اس میں بھی پانی بھر لیا - دیگر خالی برتن بھی کھلی فضا میں رکھ دئے - یہ بارش ان کے لئے باعث رحمت ثابت ہوئی---- آخر بارہویں دن دو کشتیاں نظر آئیں - خیال تھا کہ جو افراد مدد کی تلاش میں نکلے وہ مدد لیکر پہنچے ہوں گے لیکن ان کشتیوں میں تو وہ نہیں تھے - جزیرے والوں کے چہروں پر تاریکی سی پھیل گئی - ایک ہی وقت میں طرح طرح کے وسوسے آئے - کشتی والوں نے بتا یا کہ مدد کی طالب کشتی کے افراد ایک چھوٹی سی ساحلی بستی قنفذہ پہنچ گئے تھے اور وہاں کے حاکم نے امدادی کشتیاں روانہ کی تھیں - یہ دو کشتی والے اپنے طور پر ان کی تلاش میں نکلے تھے- ان دو کشتی والوں کے تعاون اور قنفذہ کے حکمران کی مدد سے یہ سب افراد مکہ المکرمہ پہنچ گئے مکہ مکرمہ کا حال بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ موسم حج میں جمع ہونے والے افراد کی تعداد کا اندازہ سوائے حق تعالٰی کے کوئی نہیں کر سکتا - ان کے اوصاف -اقسام شمار نہیں کر سکتے - رسمیں الگ الگ --- طرز زندگی جدا جدا - زبانیں یکسرمختلف -- ہند -سندھ - عجم -- بخارا -- کابل --کشمیر-- روم -- حبشہ -ہر ملک کے باشندے موجود ہیں - اہل جادہ اور ترک بھی بہت ہیں - مصر کے افراد بھی کثرت سے ملتے ہیں --- اس زمانے کے مکہ شہر کے بازار کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ سبحان اللہ - باوجودیکہ یہاں کوئی چیز نہیں پیدا ہوتی مگر کوئی ایسی چیز نہیں جو یہاں ناپید ہو -- -- لکھتے ہیں کہ یہاں پر ہر شہر اور دیار کا کپڑا دستیاب تھا- یہاں اللہ کی کرم نوازیاں دیدنی ہیں شنیدنی نہیں - جو یہاں آکر ٹھہرے وہی ان روحانی فیوض سے آشنا ہو سکتا ہے - یہ سب (ثمرات) حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کے طفیل ہیں -قران مجید میں سورہ ابراہیم -آیت 37 --- کے اندر یہ سارا واقعہ لکھا ہوا ہے-- جب حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی بیوی حضرت ہاجرہ اور بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو مکہ کے نواح کے بے آب و گیاہ ، تپتے علاقے میں اللہ کے حکم کے مطابق چھوڑ رہے تھے تو انہوں نے اللہ رب الکریم سے دعا کی تھی کہ اے ہما رے رب میں نے اپنی اولاد کو تیرے حرمت والے گھر کے پاس ایسے میدان میں بسایا ہے جہاں کھیتی نہیں پے ------ تو ایسا کر کہ لوگوں میں سے بعض کے دل ان کی طرف مائل (راغب ) ہوں اور انہیں اس کے ثمرات ملیں - جناب شیفتہ اس زمانے کے مذہبی اطوار پر بھی روشنی ڈالتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ فلسفے اور ریاضی کارواج نہیں - --- ولا حاجۃالیہ ---- نماز فجر کے سوا باقی تمام نمازوں میں حنفی امام سب سے پہلے نماز پڑھاتے ہیں - پھر شافعی امام کی باری آتی ہے اور اس کے بعد مالکی -حنبلی امام -- مدینہ المنورہ -- کے سفر کی بابت لکھتے ہیں کہ مدینہ کا سفر راہزنی کے واقعات کے سبب غیر محفوظ اور بے امن تھا - قافلے نہیں چلتے تھے اور چلتے بھی تو سلامت کم ہی رہ پاتے - بدو ٔوں کے سبب زیارت کر نے والے بہت خوار ہوتے تھے - مصر کے حکمران نے اس علاقے کے سربراہ شریف محمد بن اعوان کو تہدیدا چند سالوں کے لئے مصر لے جا کر نظر بند کر دیا -پھر اس شرط پر رہائی دی اور انتظام مدینہ ان کے سپرد کیا کہ یہ ساری وارداتیں ختم کرائیں گے اور راستے کو پر امن و پرسکون بنائِں گے کہ ایک بڑھیا بھی خوفزدہ نہ ہو - چنانچہ محمد بن عون نے مختلف افراد سے ملاقاتیں کیں - معاہدات کئے اور قتل و غارت گری کا خاتمہ ہوا - |