اللہ تعالٰی نے سیدالمرسلین ﷺ کی
امت کو دنیا و آخرت میں سرخرو و سرفراز فرمایا۔ چند سالوں میں ایشیا،
افریقہ اور یورپ میں حق کا پرچم لہرا دیا ۔ سسکتی انسانیت کو سہارا دیا۔
مظلوموں کو ان کا حق دلایا۔ یورپ و امریکہ کے صلیبی غریب افریقیوں (کالوں )
کو پکڑ کر لے جاتے اور ان سے انتہا درجہ کی ظالمانہ مشقت لیا کرتے تھے۔
لیکن سرور کون و مکاں ﷺ نے کالے گورے کی تمیز تو کئی سال پہلے ہی ختم کردی
تھی۔ قرآن کی حقانیت سے دشت و جبل جگمگا اٹھے ۔ لوگ حلقہ بگوش اسلام ہونے
لگے تو صلیبیوں کی اجارہ اداری ختم ہوتی نظر آنے لگی۔ یہودی تو تاجدار
انبیاء ﷺ کے ازلی دشمن تھے ہی مگر جن پر میرے آقا ﷺ کی عنایات تھیں وہ
صلیبی یہودیوں سے بڑھ کر دشمن اسلام بنکر سامنے آئے۔ تاریخ شاہد ہے کہ
صلیبیوں(عیسائیوں) نے اسلام کو مٹانے کے لیئے کونسا حربہ استعمال نہیں کیا۔
حرب و ضرب سے لیکر دھوکا، فریب ، چالبازیاں اور حتی کہ لالچ ،رشوت اور عورت
کے فتنے کھڑے کرکے اسلام دشمنی میں پورا پورا حق ادا کیا۔ مسلمانوں سے عام
عیسائیوں کو اپنے حکمرانوں کی نسبت زیادہ سکون اور مراعات ملتی تھیں۔ انہیں
معاشی ترقی اور سماجی انصاف جیسی دولت نصیب ہوتی تھی۔ جبکہ عیسائی حکمران
اپنی ہی ہم مذہب رعایا کا استحصال کرتے تھے۔ بغاوت کے خوف سے سرکردہ افراد
کے بیٹوں اور بیٹیوں کو اپنے یہاں یرغمال بناکررکھ لیتے تھے۔حضور اکرم ﷺ کی
حیات ظاہری میں صلیبیوں نے تبوک کے مقام پر زبردست فوج اکٹھی کی مگر اللہ
کے نبی ﷺ کی آمد کا سن کر بھاگ اٹھے۔ بعد میں غزوہ موتہ میں بھی عیسائیوں
کو شکست ہوئی۔ مسلمانوں نے سپین میں آکر یورپ کو انسانیت کی معراج سے آگاہ
کیا۔ آج کا ترقی یافتہ یورپ اس وقت کا جاہل ترین معاشرہ تھا۔ مسلمانوں نے
انہیں عمدہ زندگی گزارے کے اصول بتائے۔ اندلس کی عظیم مسلم درسگاہوں سے
فرانس، جرمنی اور برطانیہ و دیگر یورپی اقوام نے علوم حاصل کیئے مگر
صلیبیوں کی عادت ہے کہ جس کشتی نے انہیں کنارے لگایا اسی میں انہوں نے چھید
کیا۔ جس پلیٹ میں کھایا اسی میں بول و براز کیا۔ جن کا کھایا انکے ساتھ نمک
حرامی کی۔ میں اپنے پاس سے کچھ نہیں کہ رہا صلیبیوں کا کردار تاریخ کے
صفحات پر مرقوم ہے اور انمٹ حقیقت ہے۔ اندلس میں سازشوں کے ذریعہ آٹھ
سوسالہ مسلم درخشان دور کا خاتمہ صلیبی فوجوں کے ذریعہ نہیں ہوا۔ بلکہ وہاں
مسلم نما مسلم دشمن اور منافقین نے فرانس اور دیگر یورپی حکمرانوں کی طرف
سے دیئے گئے اقتدار کے وعدوں پر اعتماد کرتے ہوئے مسلم اقتدار کا خاتمہ کیا۔
اسکی مثال وہ آخری نامراد مردودابوعبداللہ کہ جسے فرانس کے بادشاہ
فرناڈواور ملکہ نے اپنا فرزند بنا کر وہ کام کرایا کہ ہسپانیہ سے مسلم
اقتدار ہی ختم نہیں ہوا بلکہ وہ خود بھی ذلیل و خوار کرکے اندلس سے نکالا
گیا۔ آٹھ سو سالہ حکومت کے دوران کتنے مسلم قبرستان بنے تھے وہ اب کہاں ہیں؟
ہے کوئی مسلمان جو یورپ کے صلیبیوں سے پوچھے کہ ہماری قبریں کہاں گئیں؟ کیا
یہ اندوہنا ک واقعات آج کی مسلم دنیااور مسلم حکمرانوں کی آنکھیں کھولنے کے
لیئے کافی نہیں؟ ہمارے یہاں یکصد سالہ اقتدار میں رہنے والے گوروں کے
قبرستان توموجود ہیںلیکن آٹھ سوسالہ اقتدار میں رہنے والوں کی ایک بھی قبر
سپین میں موجود نہیں۔ صلیبی خبیثوں نے ہمارے بڑوں کی لاشیں قبروں سے نکال
کر سمندر کی نظر کیں۔
لیبیا ۔ اٹلی نے لیبیا پر حملہ کیا تو تاریخ شاہد ہے کہ اٹلی کے فوجیوں کے
مظالم پڑھ کر انسانیت تھرا اٹھتی ہے۔ لیبیا کے مسلمانوں نے اٹلی کا کیا
بگاڑا تھا۔ دونوں ملکوں کے درمیان سمندر ہے۔ کوئی سرحدی تنازعہ نہ تھا۔ نہ
ہی لیبیا نے اٹلی پر فوج کشی کی تھی۔ ہاں بات یہ تھی کہ یورپ میں صنعتی
انقلاب آچکا تھا اور انہوں نے جدید اسلحہ بنا لیا تھا اور اسکے استعمال کے
لیئے مسلمانوں کو تختہ مشق بنایا گیا۔ خلافت ترکیہ نے دفاعی سامان حرب وضرب
کی طرف توجہ ہی نہ دی کیونکہ وہ ان یورپی اقوام کو کیڑے مکوڑے سے زیادہ
اہمیت نہ دیتے تھے۔ اس غفلت کا نتیجہ لیبیا پر اٹلی کے مظالم کی صورت میں
سامنے آیا۔ لیکن لیبیا کے غیور مسلمان اٹلی کے خلاف برسر پیکار رہے اور
آخرکار صلیبیوں کو لیبیا سے دفع ہونا پڑا۔ ان تمام تر کمزوریوں کے تناظر
میں عظیم مسلم حکمران جناب معمر قذافی نے لیبیا کو ہمہ جہت ترقی دی اور اسے
مضبوط کیا۔ اس نے ایک عام آدمی کی حیثیت سے اپنے ملک کے عوام کے ساتھ شانہ
بشانہ کام کیا۔ لیبیا تیل کی دولت سے مالا مال ملک ہے۔ جناب قذافی نے تیل
سے ملکی آمدن کو بڑھایا۔ امریکہ اور یورپ اس دولت سے یکسر محروم ہیں۔ جناب
قذافی نے بعض اوقات تیل کو بطور ہتھیار بھی استعمال کیا۔ وہ خود فوجی کرنل
تھے انہوں نے لیبیا کی فوج کو مروجہ اسلحہ سے لیس کیا اور مسلم ممالک میں
صف اول کی فوج تیار کی۔ لیبیا کی سرزمین زراعت کے لیئے انتہائی موزوں ہے۔
جناب معمر قذافی نے عوام کی معاشی حالت بہتر بنانے پر بھرپور توجہ دی۔
زراعت کے لیئے لوگوں کو مفت زمین دی ۔ مفت زرعی آلات فراہم کیئے۔ نقد امداد
کی۔ زمینوں تک رسائی اور منڈیوں تک زرعی پیداوار کی سرعت کے ساتھ ترسیل
کرنے کے لیئے بہترین سڑکیں تعمیر کیں۔ اسی طرح اعلٰی تعلیمی اور تحقیقی
ادارے قائم کیئے۔صحت و صفائی اور دیگر عوامی فلاحی کام کیئے۔ فی کس سالانہ
آمدنی جو عام طور پر بتائی جاتی ہے وہ 12000 ہزارڈالر تھی۔ لیکن اصل بات تو
یہ ہے کہ لیبیا کے عوام کی ہرضرورت وافر مقدار میں موجود تھی۔ لیبیا کے
عوام خوشحال تھے۔ مجھے وہاں جانے کا اتفاق تو نہیں ہوا لیکن معتبر دوستوں
سے سنا ہے کہ جناب معمر قذافی بغیر کسی پروٹوکول کے اپنی گاڑی خود چلاکر
نکل جاتے اور دیہاتوں میں جاکر کسی نہ کسی کسان کے ہاں عین کھانے کے وقت
پہنچ جاتے اور انکے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے اور چلے جاتے۔ کیا کسی اور
ملک کے حکمرانوں میں اتنی جرات ہے کہ وہ اس طرح باہر گھومیں پھریں۔ ہمارے
تووزیر داخلہ بھی خیر سے چالیس پچاس گاڑیوں کے جھرمٹ میں دلہن کی طرح نکلتے
ہیں۔اٹلی نے لیبیا میں عیسائی کلچر پھیلانے کی بہت کوشش کی مگر ناکام رہے۔
برعکس انکے ہمارے یہاں انگریز کی خوشنودی کے لیئے دامن مصطفے لوگوں نے چھوڑ
دیا۔ جناب قذافی بھائی نے اسلامی اقدار کو فروغ دیا اور اسکے ساتھ ساتھ
وہاں کے علاقائی طور طریقوں کو بھی اجاگر کیا۔ عشق رسول انکے دل میں کتنا
تھا ؟ اس بارے تو ہمارے ملک کے بے شمار علما کرام گواہ ہیں کہ جناب قذافی
بھائی تمام مسلم ممالک میں سے علما کرام کو جشن ولادت سیدالمرسلین ﷺ میں
شرکت کے لیئے بلاتے اور انکے تمام تر اخراجات ادا کرتے۔ کچھ دوستوں نے
بتایاکہ شب ولادت محبوب رب العالمین ﷺ طرابلس کی جامع مسجد ، پورا طرابلس
ہی کیا لیبیا کے طول عرض میں چراغاں ہوتا ۔ مساجد اور شہر جگمگا رہے ہوتے
تھے۔ طرابلس کی مرکزی جامع مسجد میں مولود شریف کی بڑی عظیم الشان محفل
ہوتی جس میں جناب قذافی بھائی خود شریک ہوتے اور بوقت ولادت سیدالمرسلین ﷺ
توپوں کی گھن گرج سے پورا ملک تھرا اٹھتا۔ یہ سلامی کا نذرانہ ہوتا تھا اور
صلاة و سلام کا قیام ہوتا تو قذافی بھائی قیام کرتے اور سرور عالمین ﷺ کی
بارگاہ میں صلاة و سلام پیش کرتے۔ اس محفل میں پاکستان کے ہرمکتبہ فکر کے
علما کرام اور دنیا بھر سے آئے ہوئے دیگر علما کرام کا جم غفیر ہوتا تھا۔
قرآن کریم کی طباعت سرکاری طور پر کرائی جاتی۔ اسی طرح وہاں کے رسوم و رواج
اور دیگر علاقائی اطوار کے نادر و نایاب لٹریچر پوری دنیا میں پھیلائے گئے۔
آخر امریکہ اور اسکے یورپی ××××× لیبیا کے مسلمانوں کی خوشحالی، تیل کی
دولت اور دفاعی استحکام کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ۔ جہوریت کے نام پر اپنے
ایجنٹ تیار کیئے ۔ امریکہ اور اسکے اتحادیوں نے لیبیا پر کئی ماہ تک بے
تحاشا بمباری کی۔ مسلمانوں کے ازلی اور آمائے ہوئے دشمن فرانس ، اٹلی
برطانیہ اور امریکہ پیش پیش ہیں۔
جب صلیبیوں نے لیبیا پر حملہ کیا تو اس وقت بھی میں نے ایک مضمون لکھا۔
میرے علاوہ بے شمار لوگوں نے اس ظلم اور انسانیت سوز کرار کی بھرپور مذمت
کی۔ کسی مسلمان حکمران کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔ آنے والے خطرناک حالات
سے بے خبر مسلم حکمران خواب غفلت سے بیدار نہ ہوئے۔ ظلم کی چکی چلتی رہی
بالاخر ہمارے پیارے بھائی اور مثالی حکمران، عاشق رسول معمر قذافی شہید
ہوگئے۔
خلافت ترکیہ کے خاتمہ کے بعد صلیبیوں نے مضبوط دور رس منصوبہ بندی کے تحت
مقبوضہ جات کو آزاد کیا۔ علاقائی حدبندیاں تشکیل دے کر مسلمانوں کے درمیان
نفرت کی دیواریں کھڑی کردیں۔ جس طرح برصغیر کو تقسیم کردیا گیا۔ حالانکہ
اصولی طور پر ہونا یہ چاہیئے تھا کہ فرنگی نے جس قوم سے مکاری اور عیاری کے
ذریعہ ملک پر غاصبانہ کیا تھا اسی قوم کو اقتدار حوالے کرتے مگر انہیں
دشمنی صرف مسلمانوں سے ہے۔ اسی دشمنی کے تناظر میں انہوں نے برصغیر کو ٹکڑے
ٹکڑے کردیا۔اپنے وعدوں پر قائم رہتے ہوئے خلافت کے علاقے ترکی کو واپس کیئے
جاتے لیکن صلیبیوں نے کبھی ایفائے عہد کی اخلاقی حدود کی پابندی ہی نہیں کی
اور نہ کریں گے۔ جو ان پر اعتبار کرے گا وہ پرلے درجے کا احمق ہوگا۔برصغیر
کی تحریک خلافت اٹھی مگر بت پرست گاندھی کی شمولیت سے غیر موئثر ہوگئی۔گویا
کہ دودھ میں پیشاب ڈالدیا گیا۔ جس قوم کی تاریخ عظمت و شوکت سے بھری پڑی ہو
اور حضرت علامہ اقبال رحمة اللہ علیہ جیسی نابغہ روزگار ہستیا ں بھی اللہ
تعالٰی بھیج دے کہ جنہوں قوم مسلم کوجگادیا۔ اسلامی کانفرنس کا وجود عمل
میں آیا ۔پہلی کانفرنس ہوئی جب دوسری کی باری آئی تو پاکستان میں مسلم امہ
کا خیرخواہ اور صلیبیوں کا دشمن ذوالفقار علی بھٹو، سعودی بادشاہ ملک
الفیصل اور لیبیا کا حکمران کرنل معمر قذافی تھے۔ یہ تینوں مسلم رہنما
صلیبیوں کے عزائم کو بخوبی جانتے تھے۔ دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس نے
دنیائے کفر کو ہلا کر رکھ دیا۔ تمام مسلم ممالک جناب ذوالفقار علی بھٹو
شہید پر بھرپور اعتماد کرتے تھے، یہ تینوں رہنما دلیر، نڈر اور امت مسلمہ
کی قیادت کے اوصاف سے معمور تھے۔ کرنل قذافی صلیبیوں کے لیئے ننگی تلوار
تھے۔ امریکہ اور اسکے ساتھیوں نے ان تینوں عظیم رہنماﺅں کو اپنے راستے سے
ہٹانے کا منصوبہ بنایا۔ لیکن کچھ نہ کرسکا۔ اور پاکستان و لیبیا میں ایٹمی
ہتھیاروں کا کام شروع ہوگیا۔ پاکستان غریب تھا مگر لیبیا اور ملک الفیصل نے
سرمایہ فراہم کیا۔ اب امریکہ اور اسکے ساتھیوں نے ان تینوں رہنماﺅں کو قتل
کرانے کے لیئے انہی کے ممالک میں منافق اور ایمان باختہ و غیرت و حمیت
باختہ افراد منتخب کیئے گئے۔ شاہ ملک الفیصل کو اسکے بھتیجے کے ہاتھوں شہید
کرایا ۔ جسے امریکہ حسب وعدہ نہ بچا سکا اور وہ قصاص میں قتل ہوا۔ دوسرے
سرمایہ امہ جناب ذوالفقار علی بھٹو کو فوجی جرنیل ضیا ءالحق نے انتہائی
سفاکی کے ساتھ شہید کیا۔ امریکہ کا تیسرا نشانہ جناب معمر قذافی باقی تھا۔
اسی سال سالہ مسلم رہنما مرد آہن بن کر امریکی افواج کا جزیرة العرب سے
انخلا پر زور دے رہا تھا۔ اب امریکہ اور یورپی صلیبیوں نے لیبیا میں سے
اپنے ایجنٹ تلاش کیئے انہیں اقتدار اور دولت کا نشہ آور انجکشن لگایا۔ اور
ساتھ ہی ان خبیثوں نے لیبیا پر ہوائی حملے شروع کردیئے ۔ ایمان باختہ خبیث
صلیبی ایجنٹوں نے ساحلی علاقو ں پر کنترول کرکے اٹلی ، فرانس اور دوسرے
عیسائی کو لیبیا کی سرزمین میں داخل کرکے لیبیا کی افواج پر حملے شروع کیئے۔
کئی ماہ تک صلیبی اور لیبیا کے ×××× نے خود اپنے ہی ملک کو تباہ برباد
کردیا۔ وہ مرد آہن جس نے سارے یورپ کوگھٹنے ٹکوائے تھے اپنو ں کی غداری کا
شکار ہوااور اپنا وعدہ ایفا کیا کہ میں جان قربان کردوں گا لیکن اپنا ملک
نہیں چھوڑوں گا۔ لیبیا کی آزادی سے لیکر اسکے استحکام و خوشحالی تک تاریخ
کے روشن ابواب رہتی دنیا تک مشعل راہ رہیں گے۔ لعنت ہے ان پر جنہوں نے ایسے
عظیم مسلم رہنما اور اپنے باپ کو شہید کردیا ۔ میں سمجھتا ہوں کہ عنقریب یہ
گروہ منافقین بری طرح ذلیل و خوار ہوکر کتے کی موت مرے گا۔
امریکہ اور اسکے صلیبی ساتھی برطانیہ، فرانس ،اٹلی، جرمنی اور سپین ہر جگہ
مسلمان پر حملے رہے ہیں۔ مگر بعض مسلمان ملکوں میں امریکی افواج کے اڈے ہیں
کیا یہ مسلمان قرآن نہیں پڑھتے ۔ انہیں نہیں معلوم کہ اللہ تعالٰی نے سورة
مائدہ کی آیت نمبر 51 میں مسلمانوں کو حکم دیا ہے، (ترجمہ اے ایمان والو!
یہودونصاری کو دوست نہ بناﺅ۔ وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ اور تم میں
جو کوئی انسے دوستی رکھے گاتو وہ انہی میں سے ہے۔ بے شک اللہ تعالٰی بے
انصافوں کو راہ نہیں دیتا۔ اللہ تعالٰی کا فرمان سب سے اوپر ہے۔ ہم اسکے
مقابلے میں کسی کی توجیہ قبول نہیں کرسکتے۔ عرب لیگ کے ایک اجلاس میں جناب
قذافی بھائی نے امریکہ مخالف گفتگو کی اور مسلم ممالک کہ جن میں امریکی
افواج کے اڈے ہیں انکی مذمت کی۔ جس پر سعودی شاہ عبداللہ سے تلخ کلامی بھی
ہوئی اور وہ ناراض ہوکر اجلاس سے چلے گئے۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ
اخرجواالیہود والنصاری من جزیرة العرب کہ یہودیوں اور عیسائیوں کو جزیرہ رب
سے نکال دو۔ لیکن کئی سالوں سے سعودی خاندان نے اپنے تحفظ کے لیئے سعودی
عرب نے گیارہ مقامات پر امریکیوں کو چھاﺅنیاں دے رکھی ہیں اسی طرح خلیج کی
عرب ریاستوں نے امریکی افواج کو یوں آزادی دے رکھی ہے کہ امارات کی اپنی
کوئی حیثیت ہی نظر نہیں آتی۔ خلیج میں امریکی افواج کی موجودگی تمام عالم
اسلام کے لیئے شدید خطرہ ہے۔ امریکہ اسلامی مملکت ایران سے انتہائی خوف زدہ
ہے ۔ امریکہ چاہتا ہے کہ پوری دنیا پر اسکا سکہ چلے۔ وہی سپر پاور بنے۔وہی
ایٹمی پاور ہواور اسکی اجازت بغیر کوئی پتہ بھی حرکت نہ کرے۔ یہ سوچ کس قدر
احمقانہ ہے۔ یہی سوچ امریکہ کی دہشت گردی کی کھلی دلیل ہے۔ بدقسمتی سے مسلم
حکمران امریکہ کے کفش بردار بن گئے ہیں۔ پاکستان امریکہ کی دہشت گردی سے
محفوظ تھا مگر پرویز مشرف نے پاکستان کو بھی اسکی کالونی بنادیا۔ اب
پاکستان میں امریکی کاروائیوں سے ہر خاص وعام واقف ہے۔ موجودہ حکمران نہ
صرف پرویز مشرف کی تقلید کررہے ہیں بلکہ امریکی اشیرباد حاصل کرنے کے لیئے
پرویز مشرف سے کوسوں آگے نکل گئے ہیں۔ ریمنڈ دیوس کا قضیہ ہو یا ایبٹ آباد
کا ڈرامہ ہو، ڈرون حملے ہوں یا پاکستان کی سرحدی خلاف ورزیاں ہوں۔ پارلیمنٹ
کی قراردادیں ردی کی ٹوکری میں ۔ زرداری اور گیلانی ون ٹوون ملاقاتوں میں
کیا کرتے ہیں ؟ بہت جلد منظر عام پر آجائے گا۔۔اس وقت پاکستان میں امریکیوں
کو اڈے اور دیگر سہولتیں انکی مرضی کے مطابق فراہم کرنا حکمرانوں کی اطاعت
گذاری کا فریضہ ہے۔
میں جناب قذافی بھائی کی بات کر رہا تھا کہ ایران کی طرح یہودونصاری سے
نفرت کرتا تھا۔ اس بنا پر لیبیا پر امریکیوں نے حملے کیئے اور اپنے ایجنٹ
وہاں پیدا کیئے جنہوں نے اپنے باپ کے ساتھ غداری کی اور اسے شہید کردیا۔ اب
وہ لوگ فلاح نہ پائیں گے ۔ جس نے یہودو نصاری کی غلامی قبول کرلی وہ دنیا
اور آخرت میں ذلیل ہوگا۔ امریکہ اور اسکے ساتھیوں کی یہی پالیسی ہے کہ جو
بھی اسلامی ملک مستحکم ہو اسکے اندر اپنے ایجنٹ پیدا کرکے غداروں کی فوج
تیارکی جائے اور خانہ جنگی کے ذریعہ ملک کو تباہ کیا جائے۔ اس قبل تو
امریکہ نے افغانستان میں اپنی فوجیں اتاریں پھر عراق میں۔ اب اس کا طریقہ
کار تبدیل ہے۔ اب یمن، شام اور اسکے بعد سعودی عرب کے لیئے تمام منصوبہ
بندی امریکہ کرچکا ہے۔ مسلم حکمرانوں سے کہوں گا میرا نہیں بنتا نہ بن لیکن
اپنا تو بن۔ مسلمان ملکوں کا خلافت کے پرچم تلے متحد ہونا ہی انہیں
یہودونصاری ی سازشوں سے بچا سکتا ہے۔ امریکہ اور اسکے ساتھیوں کو بلاتاخیر
مسلمان ملکوں سے نکالا جائے۔ خلیج عرب سے امریکی افواج کو نکال دیا جائے۔
مسلمانوں کی بقا کے لیئے ضروری ہے کہ اپنے اوپر مسلط امریکی ایجنٹوں کے
خلاف اٹھ کھڑے ہوں ۔
صلیبی جنگ جاری ہے۔ مسلمان اپنا حق ادا کریں۔ میں خود بھی شہادت کی تمنا
رکھتا ہوں۔ اللہ پاک اس سعادت سے بہرہ مند فرمائے۔ آمین۔ |