اسلامی نظریاتی کونسل ایک آئینی
ادارہ ہے جو مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کو قوانین کے بارے میں بتاتا ہے کہ آیا
یہ قوانین قرآن و سنت سے مطابقت رکھتے ہیں یا نہیں۔اسلامی نظریاتی کونسل
1962کے آئین کی اسلامی دفعات کے نتیجے میں آرٹیکل 204کے تحت بنایا گیا ۔ اس
وقت اس ادارے کا نام ”اسلامی مشاورتی کونسل “ رکھا گیا۔
1973کے آئین کے مطابق اس ادارے کا نام تبدیل کرکے اسلامی نظریاتی کونسل رکھ
دیا گیا۔ 1973کے آئین کے آرٹیکل 228میں اسلامی نظریاتی کونسل کے ڈھانچے کو
بہترین انداز میں بیان کیا گیا ہے۔آئین کے آرٹیکل 228کے مطابق اسلامی
نظریاتی کونسل کے ممبران آٹھ سے کم نہیں ہوں گے اور 20سے زیادہ نہیں ہوں گے۔
ممبران کا تقرر صدر پاکستان کی صوابدید پر ہوگا اور وہ ایسے افراد کو نامزد
کریں گے جو اسلامی قوانین اور فلسفے کو قرآن پاک اور سنت نبوی کے تحت
سمجھتے ہوں اور انھیں پاکستان کے اقتصادی ، معاشی ، معاشرتی ، سیاسی اور
انتظامی معاملات کے زمینی حقائق کے بارے میں مکمل آگاہی ہو۔
اسی طرح 1973کے آئین کے آرٹیکل 229اور آرٹیکل 230میں اسلامی نظریاتی کونسل
کے مقاصد اور اس کی عملداری پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
اسلامی نظریاتی کونسل کو صدر ، صوبے کے گورنر یا وفاقی اور صوبائی اسمبلیوں
کے ممبران کی 2/5اکثریت اگر کسی قانون کی شرعی و غیر شرعی حیثیت کے بارے
میں پوچھے تو اسے متعلقہ ادارے کو پندرہ یوم کے اندر جواب دینا ہوگا۔اگر
صدر ، گورنر یا اسمبلی یہ سمجھے کہ یہ قانون انتہائی اہم نوعیت کا ہے تو
اسلامی نظریاتی کونسل کی طرف سے جواب کا انتظار کیے بغیر بھی اس آئین کو
منظور کیا جاسکتا ہے اور اسلامی نظریاتی کونسل کی طرف سے جواب آنے کے بعد
آئین پر نظر ثانی کی جاسکتی ہے۔
پاکستان کے 1973کے آرٹیکل 230کے کلاز 4میں یہ بات درج ہے کہ اپنے قیام کے
سات سال کے اندر یہ ادارہ مجلس شوریٰ کو اپنی رپورٹ پیش کرے گا اور اس کے
بعد ہر سال دونوں ایوانوں اور صوبائی اسمبلیوں کو اپنی رپورٹ پیش کرے گا۔
اس آرٹیکل کے مطابق دونوں ایوان اور تمام صوبائی اسمبلیاں رپورٹ موصول ہونے
کے چھ ماہ کے اندر اندر اس رپورٹ پر بحث کرنے کی مجاز ہیں۔ رپورٹ کی وصولی
کے دو سال کے دورانیہ میں وفاقی و صوبائی مجالس شوریٰ ان سفارشات کی روشنی
میں آئین سازی کریں گی جو رپورٹ میں پیش کی جائیں گی۔
26ستمبر 1977کو ضیا ءالحق کے دور حکومت میں اس کونسل کی دوبارہ تشکیل دی
گئی۔ ضیا ءالحق کی اس کونسل کی تاریخی اہمیت اس وجہ سے ہے کہ اس کے 17ممبر
ضیا ءالحق کے نامزد کردہ تھے۔11ممبران جو جید علما تھے، کا تعلق مختلف
مسالک سے تھا۔ دو ممبران جج تھے اور دو ممبران قانونی ماہر تھے۔26ستمبر
1977تک کونسل کا دفتر لاہور میں تھا ۔اس کے بعد یہ دفتر اسلام آباد میں
منتقل ہوگیا اور ستمبر 1995میں کونسل کا دفتر اپنی ذاتی عمارت میں منتقل
کردیا گیا۔
1962سے لے کر اب تک کونسل نے 72سے زائد رپورٹیں مجلس ِ شوریٰ کو دی ہیں اور
بہت سے قوانین کے لیے سفارشات کی ہیں ۔ اس ادارے کی اب تک تقریباً
156میٹنگز ہوچکی ہیں۔
29ستمبر 1977سے 20دسمبر1978تک اس کونسل نے اقتصادی ، تعلیمی، معاشی اور
ذرائع ابلاغ سے متعلق قوانین کے ڈرافٹ تیار کیے۔ ان خصوصی شعبہ جات کے
علاوہ کونسل نے عدلیہ کے ساتھ ساتھ عمومی معاملات پر بھی اپنی سفارشات
شوریٰ کو بھجوائیں۔
ان قوانین کی ڈرافٹنگ کے سلسلے میں کونسل نے شام کے سابق وزیر اعظم، ورلڈ
مسلم لیگ کے پریذیڈنٹ اور سعودی شاہ خالد بن عبدالولید کے ایڈوائزر ڈاکٹر
ماروف ال دولبی (Dr.Ma'ruf Al Dawalibi) سے مدد لی گئی ۔ ان قوانین کی
ڈرافٹنگ پہلے عربی زبان میں کی گئی اس کے بعد اردو اور انگریزی میں تراجم
ہوئے۔
بدقسمتی سے اب تک اس شوریٰ کی جانب سے بھیجی گئی کسی رپورٹ کو دونوں ایوان
نمائندگان میں بحث میں نہیں لایا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ادارہ خاطرخواہ
کارکردگی دکھانے میں کامیاب نہیں ہوسکا جس کی اس سے امیدکی جارہی تھی۔
اسلامی نظریاتی کونسل پر ایک اعتراض یہ بھی کیا جاتا ہے کہ یہ ادارہ
اسلامائزیشن کے لیے بنایا گیا تھا مگر اس میں تمام مکاتب فکر کو نمائندگی
نہیں دی جاتی۔اس اعتراض کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ جن لوگوں کو نامزد کیا
جاتا ہے ان مسالک کے افراد ان کو اپنا نمائندہ نہیں سمجھتے اور ان کی
نامزدگی پر اعتراضات کرتے ہیں ۔
حال ہی میں صدر پاکستان جناب آصف علی زرداری نے وزیر اعظم کی سفارش پر آٹھ
اہم شخصیات کو اسلامی نظریاتی کونسل کا رکن منتخب کیا ۔ ان شخصیات میں
علامہ سید افتخار حسین نقوی (پنجاب) ، مولانا زبیر احمد ظہیر (پنجاب) ،
صاحبزادہ پیر خالد سلطان القادر (بلوچستان) ، مفتی محمد اقبال حسین شاہ
فیضی (سندھ) ، سید فیروز جمال شاہ (کے پی کے)، جسٹس (ریٹائرڈ) مشتاق
اے۔میمن (سندھ) اور قاری محمد حنیف جالندھری (پنجاب) شامل ہیں۔
اسلامی نظریاتی کونسل کے ان نامزد ارکان کو دینی مدارس میں بہتری لانا ہوگی
تاکہ ایسے جید علماءپیدا کیے جاسکیں جو دینی و دنیاوی تعلیم میں ماہر ہوں
اور قانون سازی میں اہم کردار ادا کرسکیں۔اس کے ساتھ ساتھ پارلیمان کی یہ
بھاری ذمہ داری ہے کہ وہ کونسل سے قانون سازی کے عمل میں مشاورت کرے اور
اسلامی نظریاتی کونسل کی جانب سے بھیجی جانے والی رپورٹس پر پالیمان کے
سیشن میں بحث کرے اور کونسل کی طرف سے پیش کردہ سفارشات کی روشنی میں آئین
سازی کرے۔ |