بشیر احمد کی مشہور غزل کا مصرعہ، “لوگ ٹوٹ جاتے ہیں ایک
گھر بنانے میں،” پاکستانیوں کے لیے گھر بنانے کی جدوجہد کی جذباتی اور
معاشی کہانی کو بیان کرتا ہے۔ پاکستان میں گھر کی ملکیت صرف رہائش کا ذریعہ
نہیں، بلکہ سیکورٹی، سماجی وقار، اور خاندانی استحکام کی علامت ہے۔ تاہم،
241.5 ملین کی آبادی اور شہری مراکز جیسے کراچی میں ہاؤسنگ کی بڑھتی ہوئی
طلب کے باوجود، گھر بنانا بہت سے پاکستانیوں کے لیے ایک خواب بن کر رہ جاتا
ہے۔ یہ مضمون گھر بنانے کے معاشی، سماجی، اور سسٹمک چیلنجز کا جائزہ لیتا
ہے، ساتھ ہی اس خواب کو حقیقت بنانے کے ممکنہ حل بھی پیش کرتا ہے۔
گھر بنانے کے معاشی چیلنجز
تعمیراتی اخراجات میں اضافہ
پاکستان میں تعمیراتی مواد جیسے سیمنٹ، اسٹیل، اور اینٹوں کی قیمتوں میں
حالیہ برسوں میں 30-40 فیصد اضافہ ہوا ہے، جو کہ افراط زر اور سپلائی چین
کے مسائل کی وجہ سے ہے۔web:9 کم فی کس آمدنی ($5,539) کے باعث درمیانہ اور
کم آمدنی والے خاندانوں کے لیے گھر بنانا مشکل ہو گیا ہے۔ مثال کے طور پر،
کراچی میں ایک چھوٹے سے گھر کی تعمیر کے لیے کم از کم 20-30 لاکھ روپے
درکار ہیں، جو زیادہ تر پاکستانیوں کے لیے ناقابلِ برداشت ہے۔
فنانسنگ تک محدود رسائی
گھر بنانے کے لیے قرضوں کی دستیابی محدود ہے، کیونکہ بینکوں کے سخت تقاضے
اور بلند شرح سود (15-20 فیصد) عام لوگوں کو قرض سے محروم رکھتے ہیں۔ نیا
پاکستان ہاؤسنگ پروگرام، جس کا مقصد 50 لاکھ گھروں کی تعمیر تھا، فنڈنگ اور
تاخیر کے مسائل کی وجہ سے کامیاب نہیں ہو سکا۔ یہ عوامل گھر بنانے کے خواب
کو اور دور کر دیتے ہیں۔
زمین کی قیمتوں اور دستیابی کا بحران
کراچی اور لاہور جیسے شہری مراکز میں زمین کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں،
جہاں ایک چھوٹا پلاٹ کروڑوں روپے میں ملتا ہے۔ زمین پر قبضوں اور قانونی
تنازعات نے بھی عام شہریوں کے لیے جائیداد حاصل کرنا مشکل بنا دیا ہے۔ ایکس
پر عوامی تبصروں سے پتہ چلتا ہے کہ زمین کی خریداری کے لیے خاندان اکثر
اپنی جمع پونجی خرچ کر دیتے ہیں، لیکن پھر بھی تعمیر شروع نہیں کر پاتے۔
معاشی عدم استحکام
پاکستان کی معیشت کو درپیش چیلنجز، جیسے کہ روپے کی قدر میں کمی اور 12-15
فیصد افراط زر، لوگوں کی بچت کو کمزور کرتے ہیں۔ یہ حالات طویل مدتی منصوبہ
بندی، جیسے کہ گھر بنانے کے لیے بچت، کو تقریباً ناممکن بنا دیتے ہیں۔
نتیجتاً، بہت سے خاندان قرضوں یا اثاثوں کی فروخت پر انحصار کرتے ہیں، جو
انہیں مزید معاشی دباؤ میں دھکیل دیتا ہے۔
سماجی اور ثقافتی چیلنجز
مشترکہ خاندانی نظام
پاکستان میں مشترکہ خاندانی نظام عام ہے، جس میں بڑے گھروں کی تعمیر کی
ضرورت ہوتی ہے تاکہ توسیعی خاندان ایک ساتھ رہ سکیں۔ یہ اضافی اخراجات کا
باعث بنتا ہے، کیونکہ بڑے گھر بنانے کے لیے زیادہ وسائل درکار ہوتے ہیں۔
ایکس پر عوامی رائے سے پتہ چلتا ہے کہ خاندانی توقعات گھر بنانے کے عمل کو
جذباتی اور مالی طور پر مزید پیچیدہ کر دیتی ہیں۔
سماجی وقار اور توقعات
گھر کی ملکیت کو پاکستان میں سماجی وقار سے جوڑا جاتا ہے، جس کی وجہ سے
خاندان اپنی مالی حیثیت سے بڑھ کر خرچ کرتے ہیں۔ شادیوں یا رشتہ داروں کے
ساتھ مقابلے کے لیے شاندار گھر بنانے کا دباؤ خاندانوں کو قرضوں میں دھکیل
دیتا ہے۔ ایکس پر کچھ صارفین نے اس رجحان کو “دکھاوے کی دوڑ” قرار دیا ہے،
جو مالی مشکلات کا باعث بنتا ہے۔
جنسی کردار
پاکستانی معاشرے میں مردوں پر گھر بنانے کی بنیادی ذمہ داری عائد ہوتی ہے،
جو ان پر جذباتی اور مالی دباؤ ڈالتی ہے۔ خواتین، خاص طور پر سسرالی رشتوں
کی وجہ سے، اکثر گھر کے ڈیزائن یا بجٹ پر تناؤ کا شکار ہوتی ہیں، جیسا کہ
ریڈٹ پر سسرال کی مداخلت سے متعلق کہانیوں سے ظاہر ہوتا ہے۔
سسٹمک اور ڈھانچہ جاتی مسائل
شہری منصوبہ بندی اور بنیادی ڈھانچہ
کراچی جیسے شہروں میں 60 فیصد آبادی غیر رسمی بستیوں میں رہتی ہے، جو کہ
ہاؤسنگ پروجیکٹس کی کمی اور ناقص شہری منصوبہ بندی کی عکاسی کرتا ہے۔ بجلی
اور پانی کی غیر یقینی فراہمی تعمیراتی اور رہائشی اخراجات کو بڑھاتی ہے۔
یہ مسائل گھر بنانے کے عمل کو مزید مہنگا اور پیچیدہ بناتے ہیں۔
بیوروکریسی اور بدعنوانی
پرمیٹ کے طویل عمل اور میونسپل دفاتر میں رشوت خوری تعمیراتی منصوبوں میں
تاخیر اور اخراجات میں اضافہ کرتی ہے۔ زمین کی تقسیم میں بدعنوانی کی وجہ
سے طاقتور گروہ پرائم رئیل اسٹیٹ پر قابض ہیں، جس سے عام شہریوں کے لیے
اختیارات محدود ہو جاتے ہیں۔
ہنر مند مزدوروں کی کمی
ہنر مند تعمیراتی مزدوروں کی کمی اور غیر رسمی مزدوروں پر انحصار کے نتیجے
میں ناقص معیار کی تعمیرات اور تاخیر ہوتی ہے۔ اس سے پروجیکٹ کے اخراجات
اور وقت دونوں بڑھ جاتے ہیں، جو خاندانوں کے لیے اضافی بوجھ بنتا ہے۔
جذباتی اور نفسیاتی اثرات
گھر بنانے کا عمل صرف مالی نہیں، بلکہ جذباتی اور نفسیاتی طور پر بھی تھکا
دینے والا ہے۔ بشیر احمد کی غزل کا مصرعہ “ٹوٹ جاتے ہیں” اس تناؤ، اضطراب،
اور خاندانی تنازعات کی عکاسی کرتا ہے۔ ایکس پر عوامی کہانیوں سے پتہ چلتا
ہے کہ خاندان اپنی جمع پونجی فروخت کر دیتے ہیں یا قرض لیتے ہیں، جو انہیں
مایوسی کی طرف لے جاتا ہے۔ خاندانی دباؤ اور سماجی توقعات اس عمل کو اور
مشکل بنا دیتی ہیں، جس سے لوگ جذباتی طور پر “ٹوٹ” جاتے ہیں۔
ممکنہ حل اور مستقبل کی امید
حکومت کو تعمیراتی مواد پر سبسڈی، کم شرح سود پر قرض، اور زمین کی تقسیم کے
عمل کو آسان بنانے کی ضرورت ہے۔ پنجاب میں محدود کامیابیوں سے پتہ چلتا ہے
کہ پبلک-پرائیویٹ پارٹنرشپ سستی ہاؤسنگ کے لیے مؤثر ہو سکتی ہے۔ کوآپریٹو
ہاؤسنگ سوسائٹیز وسائل کو جمع کرنے کا ایک حل ہو سکتی ہیں۔ مالی خواندگی کے
پروگرام خاندانوں کو بجٹ بنانے اور قرضوں سے بچنے میں مدد دے سکتے ہیں۔ اگر
پالیسی اصلاحات اور اجتماعی کوششوں پر عمل کیا جائے، تو گھر بنانے کا خواب
قابلِ حصول ہو سکتا ہے۔
پاکستانی لوگ گھر بنانے میں معاشی مشکلات (بلند اخراجات، محدود فنانس)،
سماجی دباؤ (مشترکہ خاندان، وقار)، اور سسٹمک ناکامیوں (ناقص منصوبہ بندی،
بدعنوانی) کی وجہ سے “ٹوٹ جاتے ہیں”۔ گھر کی ملکیت کا خواب پاکستانی ثقافت
میں گہری اہمیت رکھتا ہے، لیکن اس کی تکمیل کے لیے پالیسی سازوں، کمیونٹیز،
اور افراد کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ سستی ہاؤسنگ اور بہتر نظام کے
ذریعے، پاکستانیوں کا یہ خواب حقیقت بن سکتا ہے
|