ایک بڑی آبادی کے حامل ملک کی حیثیت سے ، چین اعلیٰ معیار
کے تعلیمی نظام کے حصول کے لئے جامع اصلاحات کو گہرا کرنے کا عمل جاری رکھے
ہوئے ہے۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ چین نے اعلیٰ معیار کے ساتھ دنیا کا سب سے
بڑا تعلیمی نظام قائم کیا ہے۔ ملک بھر کی 2895 کاؤنٹیوں میں لازمی تعلیم کی
فراہمی کو یقینی بنایا گیا ہے، اور تمام سطحوں پر تعلیم تک رسائی متوسط اور
اعلیٰ آمدنی والے ممالک کی اوسط سطح تک پہنچ گئی ہے یا اس سے تجاوز کر چکی
ہے.چینی حکام کی جانب سے یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ "مقدار" کے تقاضوں کو
پورا کرنے سے لے کر "معیار" کو بہتر بنانے تک ، جامع تعلیمی اصلاحات کو آگے
بڑھانے کے لئے یہ ایک اہم سمت ہے۔
چین کی ان کوششوں کے ثمرات یوں برآمد ہوئے ہیں کہ "سنٹر فار ورلڈ یونیورسٹی
رینکنگز"کی جاری کردہ تازہ ترین گلوبل 2000 یونیورسٹی رینکنگ 2025 میں چین
نے پہلی بار امریکہ کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اس فہرست میں چینی اداروں کی
تعداد گذشتہ سال کے 324 کے مقابلے میں بڑھ کر 346 ہو چکی ہے جو مجموعی
تعداد کا 17 فیصد ہے۔
سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ فہرست میں شامل 98 فیصد چینی جامعات نے اپنی
پوزیشنز بہتر کی ہیں۔ اس غیر معمولی ترقی کی وجوہات میں تحقیقی کارکردگی
میں واضح بہتری اور حکومتی سرمایہ کاری میں مسلسل اضافہ شامل ہیں۔چین کی
نمایاں پیش رفت دکھانے والی جامعات میں سنگھوا یونیورسٹی ، پیکنگ یونیورسٹی
،یونیورسٹی آف چائنیز اکیڈمی آف سائنسز، شنگھائی جیاؤ ٹونگ یونیورسٹی اور
زےجیانگ یونیورسٹی ، شامل ہیں۔
ماہرین کے مطابق،چینی جامعات کی درجہ بندی میں مسلسل بہتری طویل مدت میں
چینی جامعات کو بھرپور فائدہ دے گی ، کیونکہ جو طلبہ بیرون ملک جانے کا
ارادہ رکھتے تھے، وہ اب ملک کی اعلیٰ جامعات میں داخلہ لے سکتے ہیں، جس سے
چین کے علمی اور تحقیقی ماحول کو تقویت ملے گی۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ 2018 کے بعد سے سنگھوا یونیورسٹی کے گریجویٹس کی
بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے کی شرح اور رجحان کم ہوا ہے۔ یہ رجحان ایک زیادہ
کثیر قطبی (ملٹی پولر) اعلیٰ تعلیمی نظام کی جانب اشارہ کرتا ہے جس سے مغرب
کی تاریخی بالادستی کم ہو سکتی ہے۔
چین کی کوشش ہے کہ بنیادی تعلیم کے معیار کو بہتر بنایا جائے۔ مزید
برآں،چین کوشاں ہے کہ ایک جدید پیشہ ورانہ تعلیمی نظام کی ترقی کو تیز کیا
جائے تاکہ مختلف صلاحیتوں اور دلچسپیوں میں ٹیلنٹ کو پروان چڑھایا جا سکے۔
اس کے ساتھ ساتھ چین کا مقصد جدید سائنس اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی میں ہونے
والی پیش رفت سے فائدہ اٹھانا ہے تاکہ بدلتے وقت کے تقاضوں کی روشنی میں
باصلاحیت ٹیلنٹ وسائل سے بھرپور استفادہ کیا جا سکے۔
اگلے مراحل میں توجہ مقامی سطح پر باصلاحیت افراد کو پروان چڑھانے کی
صلاحیت کو جامع طور پر بہتر بنانے، سائنس اور ٹیکنالوجی میں اعلیٰ سطح کی
آزادانہ ترقی کی حمایت کرنے اور اس بات پر زور دینے پر ہوگی کہ کس طرح
سائنسی اور تکنیکی ترقی کی کمرشلائزیشن اور اطلاق قومی اقتصادی اور سماجی
ترقی کی ترجیحات کے ساتھ ہم آہنگ ہوسکتا ہے۔ یہ چین کی اعلیٰ تعلیمی
اصلاحات کے تین اہم ترین پہلو ہوں گے۔
اس ضمن میں چینی حکام کے نزدیک سائنسی اور تکنیکی ترقی کے قوانین اور قومی
اقتصادی اور سماجی ترقی کی فوری ضروریات پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے، متحرک
طور پر ٹیلنٹ ٹریننگ میکانزم کو ایڈجسٹ کیا جائے گا، آرٹس کی تعلیم کے ساتھ
سائنسی اور تکنیکی تعلیم کے انضمام کو مضبوط کیا جائے گا، نوجوانوں سے
متعلق سائنسی اور تکنیکی صلاحیتوں کی تربیت میں اضافہ کیا جائے گا، اور
طویل مدتی پالیسی اسپورٹ اور وسائل کی تقسیم سے بھرپور حمایت فراہم کی جائے
گی۔
چین کی حکومتی سرمایہ کاری اور تحقیق پر توجہ اسے عالمی تعلیمی قوت کے طور
پر ابھار رہی ہے۔ نتیجتاً، دنیا ایک ایسے تعلیمی منظر نامے کی طرف بڑھ رہی
ہے جہاں روایتی مراکز کے ساتھ ساتھ نئے کھلاڑی، بالخصوص چین، زیادہ بااثر
اور متبادل مقامات کے طور پر ابھر رہے ہیں۔
|