پاکستانی معاشرہ روایات، مذہب، اور قانون کا ایک پیچیدہ امتزاج ہے۔ اس
امتزاج میں ایک ایسا ادارہ بھی شامل ہے جو بظاہر محبت، ہم آہنگی اور رفاقت
کا مرکز سمجھا جاتا ہے — یعنی "شادی"۔ مگر جب اس ادارے کے پردے ہٹتے ہیں تو
ایک تلخ حقیقت سامنے آتی ہے: عورت کو آج بھی ایک مکمل انسان، برابری کے
حقدار فریق اور خودمختار شریکِ حیات تسلیم نہیں کیا جاتا۔
اسلام نے واضح طور پر مرد و عورت دونوں کو برابری کی بنیاد پر مقام دیا۔
قرآن مجید میں بدکاری کے جرم میں مرد و عورت دونوں کے لیے یکساں سزا مقرر
کی گئی ہے:
"الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوْا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ
جَلْدَةٍ"
(سورۃ النور، آیت 2)
لیکن ہمارے ہاں جرم کی تلوار صرف عورت کی گردن پر چلتی ہے۔ اس کی عصمت پر
سوال اٹھتا ہے، اس کی تربیت پر انگلیاں اٹھتی ہیں، اور بدنامی صرف اس کے
حصے میں آتی ہے۔ مرد بچ نکلتا ہے، جیسے وہ اس معاشرتی کھیل کا نگران ہو۔
صدر ایوب کے دور میں جب مسلم فیملی لاز آرڈیننس 1961 نافذ ہوا، تو امید
بندھی کہ شاید اب معاشرہ قانون کی سمت بڑھے گا۔ اس قانون میں 16 سال سے کم
عمر لڑکی کی شادی پر پابندی لگائی گئی اور مرد کو دوسری شادی کے لیے اجازت
نامہ لازم قرار دیا گیا۔ لیکن آج، 60 سال بعد بھی ان قوانین پر مکمل عمل
نہیں ہو سکا۔ گویا رسم و رواج کا راج قانون پر حاوی ہے۔
اکثر سنتے ہیں کہ شادی سے پہلے لڑکے اور لڑکی کو ازدواجی زندگی کی تربیت دی
جانی چاہیے۔ مگر یہ بات صرف تقریروں میں زندہ ہے۔ نہ اسکولوں میں کوئی نصاب
ہے، نہ دینی مدارس میں کوئی شعور۔ مغرب کو ہم کافر کہہ کر رد کر دیتے ہیں،
مگر وہاں شادی سے پہلے تربیت لازمی ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں شادی زندگی کی پہلی
اور آخری بڑی تبدیلی ہے — اور سب کچھ خود سیکھنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے،
جیسے تجربہ گنیہ پگھلا دے گا۔
ایک اور تضاد دیکھیے: مرد کو گھر کا سربراہ کہا جاتا ہے، خواہ وہ مالی طور
پر صفر ہو اور عورت کے ہاتھوں سے ہی چولہا جلتا ہو۔ قرآن کہتا ہے:
"الرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَي النِّسَاءِ بِمَا أَنْفَقُوا..."
(سورۃ النساء، آیت 34)
مگر ہم نے قوامیت کو "حاکمیت" میں بدل دیا۔ مرد کی جنسی، مالی اور نفسیاتی
ضروریات کو اولیت دی جاتی ہے۔ عورت کا وجود صرف اس کی "عفت" سے وابستہ کر
دیا گیا ہے، اور اسے گھر کی عزت کا ستون بنا دیا گیا — چاہے مرد خود بے راہ
روی کا شکار ہو۔
شادی کو بھی دو دلوں کا بندھن نہیں بلکہ دو خاندانوں، ذات برادریوں، اور
سماجی طبقات کا "معاہدہ" بنا دیا گیا ہے۔ جہیز، رسم، رواج، وٹہ سٹہ، خاندان
کی عزت — یہ سب شادی کے اصل مقصد سے زیادہ اہم ہو چکے ہیں۔
کیا عورت مکمل انسان نہیں؟ کیا اس کی خواہشات، رائے، اور خودمختاری بے معنی
ہیں؟ کیا ہم اپنی بیٹیوں کو صرف پردے، حیا اور شرم کے اصولوں سے آراستہ
کریں گے، یا انہیں شعور، تعلیم اور فیصلہ سازی کا حق بھی دیں گے؟
ہمیں طے کرنا ہوگا کہ ہم کس راستے پر چلنا چاہتے ہیں۔ اسلام کی اصل تعلیمات
کے مطابق؟ یا اس سماجی سانچے کے مطابق جو مرد کو خدا اور عورت کو گناہ
سمجھتا ہے؟
یہ سوال صرف عورتوں کے لیے نہیں، بلکہ ایک بہتر معاشرے کے لیے ہے۔
شادی اگر برابری، محبت اور شعور پر مبنی ہو، تو یہ زندگی کا حسین ترین
تجربہ بن سکتی ہے۔ ورنہ یہ ایک جبر کا نظام ہے — جس سے صرف ظالم کو سکون ہے،
مظلوم کو نہیں۔
|