پاکستان میں بڑھتی ہوئی ڈیجیٹل فحاشی: ایک سنگین سماجی المیہ

ڈیجیٹل فحاشی

پاکستان میں ڈیجیٹل ترقی نے جہاں کئی نئے مواقع پیدا کیے ہیں، وہیں ایک نہایت تشویشناک مسئلہ بھی جنم لے چکا ہے: انٹرنیٹ کے ذریعے فحاشی کا بڑھتا ہوا رجحان (ڈیجیٹل فحاشی)۔ سوشل میڈیا، اسٹریمنگ ایپس، اور دیگر آن لائن ذرائع سے نازیبا مواد کا پھیلاؤ ایک سنگین معاشرتی اور اخلاقی چیلنج بنتا جا رہا ہے۔ فحش تصاویر، ویڈیوز، نازیبا گفتگو، اور بلیک میلنگ جیسے عناصر ڈیجیٹل دنیا میں اس تیزی سے عام ہو رہے ہیں کہ اب ان کے اثرات گھروں، تعلیمی اداروں، اور حتیٰ کہ عبادت گاہوں تک محسوس کیے جا سکتے ہیں۔

اس خطرناک رجحان کی جڑیں کئی عوامل میں پیوستہ ہیں۔ ایک طرف انٹرنیٹ اور اسمارٹ فونز کی آسان دستیابی نے نوجوان نسل کو بلا روک ٹوک ڈیجیٹل دنیا سے جوڑ دیا ہے، تو دوسری جانب والدین، اساتذہ اور ریاستی ادارے بچوں اور نوجوانوں کو اس دنیا کے اخلاقی استعمال کے بارے میں تربیت دینے میں ناکام رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز جیسے ٹک ٹاک، انسٹاگرام، اور بیگو لائیو پر شہرت اور لائکس کے حصول کے لیے نوجوانوں کے درمیان نازیبا حرکات اور ویڈیوز شیئر کرنا ایک عام سی بات بن چکی ہے، جس کی نہ صرف حوصلہ شکنی نہیں کی جاتی بلکہ بعض اوقات انہیں "کامیاب" سمجھا جاتا ہے۔

دوسری طرف ہمارا تعلیمی نظام بھی اس سنگینی کو سمجھنے اور اس کا مؤثر سدِباب کرنے سے قاصر ہے۔ اخلاقیات اور کردار سازی محض نصابی عنوانات کی حد تک محدود رہ گئی ہے، جبکہ عملی تربیت اور شعور بیداری کا فقدان ہے۔ معاشی مسائل، بے روزگاری، اور فرسٹریشن بھی نوجوانوں کو ایسے راستوں کی طرف دھکیل رہے ہیں جہاں انہیں وقتی توجہ، تسکین، یا آمدنی کا جھانسہ ملتا ہے، چاہے اس کے لیے انہیں اپنی عزت، وقار یا مستقبل ہی کیوں نہ داؤ پر لگانا پڑے۔

یہ سب کچھ صرف فرد کا مسئلہ نہیں رہا، بلکہ پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔ اخلاقی اقدار تیزی سے زوال پذیر ہو رہی ہیں۔ خاندانی نظام، جو ہمارے معاشرتی ڈھانچے کی بنیاد ہے، عدم اعتماد، شک اور بدگمانی کا شکار ہو رہا ہے۔ سب سے زیادہ متاثر ہونے والوں میں خواتین شامل ہیں، جو آئے روز ڈیجیٹل ہراسگی، بلیک میلنگ اور کردار کشی کا سامنا کرتی ہیں۔

ڈیجیٹل فحاشی صرف ایک اخلاقی یا سماجی مسئلہ نہیں، بلکہ یہ سائبر کرائم کی ایک شکل بھی ہے، جس میں بہت سے افراد بلیک میلنگ، دھمکیوں، اور بعض اوقات خودکشی جیسے خطرناک نتائج کا سامنا کرتے ہیں۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ادارے، خاص طور پر سائبر کرائم ونگ، اپنی محدود صلاحیتوں کی وجہ سے اس سیلاب کے سامنے بند باندھنے میں ناکام ہیں۔ بیشتر کیسز یا تو رپورٹ ہی نہیں ہوتے، یا اگر ہوتے بھی ہیں تو انصاف کی راہ میں سستی، سیاسی دباؤ یا قانونی کمزوری حائل ہو جاتی ہے۔

ایسی صورت حال میں ہمیں بطور قوم سنجیدگی سے سوچنا ہوگا۔ صرف ٹیکنالوجی کو ترقی کا نشان سمجھنا کافی نہیں، ہمیں اس کی اخلاقی قیمت کو بھی پہچاننا ہوگا۔ والدین، اساتذہ، مذہبی و سماجی رہنما، اور ریاستی ادارے اگر اپنا کردار دیانتداری سے ادا کریں تو ہم اس خطرناک رجحان کو کم کر سکتے ہیں۔ ہمیں نوجوانوں کے لیے مثبت، تخلیقی، اور اخلاقی متبادل فراہم کرنے ہوں گے، جیسے کہ کھیل، فنونِ لطیفہ، اور سوشل میڈیا پر اخلاقی تربیت کے پروگرام۔ ہمیں اپنے تعلیمی نظام میں حقیقی اخلاقی اور روحانی تربیت کو دوبارہ شامل کرنا ہوگا، نہ کہ صرف رسمی طریقے سے۔

پاکستان ایک اسلامی جمہوریہ ہے، جہاں اقدار، شرم و حیا، اور خاندانی نظام کو ہمیشہ مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے۔ لیکن اگر ہم نے ڈیجیٹل فحاشی جیسے مسائل پر بروقت اور ٹھوس اقدامات نہ کیے، تو ہماری نسلیں صرف سکرین کی روشنی میں اندھیرے کی طرف بڑھتی رہیں گی۔ اب وقت آ چکا ہے کہ ہم انفرادی اور اجتماعی سطح پر جاگیں، ورنہ یہ خاموش تباہی ہمارے معاشرے کو اندر سے کھوکھلا کر دے گی۔

یقیناً، اس مسئلے کی سنگینی محض ایک عارضی رجحان نہیں بلکہ ایک بڑھتا ہوا سماجی المیہ ہے جو وقت کے ساتھ مزید گہرا ہوتا جا رہا ہے۔ ڈیجیٹل فحاشی نہ صرف نوجوان نسل کی اخلاقی اور ذہنی تربیت کو متاثر کر رہی ہے بلکہ مجموعی طور پر معاشرے میں بے حسی، عدم برداشت اور بے راہ روی کو فروغ دے رہی ہے۔ جو قومیں اپنے نوجوانوں کی ذہنی ساخت، کردار سازی اور اخلاقی بنیادوں پر توجہ نہیں دیتیں، وہ صرف ٹیکنالوجی سے ترقی یافتہ تو ہو سکتی ہیں مگر تہذیب و تمدن کے میدان میں پستی کی طرف گامزن ہو جاتی ہیں، اور یہی کچھ ہمیں آج اپنی آنکھوں کے سامنے ہوتا نظر آ رہا ہے۔

ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کو دیکھیں تو ایک واضح دوڑ لگی ہوئی ہے: کون زیادہ "وائرل" ہوتا ہے، کون زیادہ فالوورز حاصل کرتا ہے، اور کون کتنی شہرت کماتا ہے۔ اس دوڑ میں معیار، اخلاقیات، اور عزت نفس سب قربان ہو چکے ہیں۔ کئی نوجوان لڑکیاں اور لڑکے چند لمحوں کی شہرت یا وقتی مالی فائدے کے لیے اپنی ذاتی زندگی کو پبلک کر رہے ہیں، کبھی غیر اخلاقی ویڈیوز کے ذریعے، تو کبھی خود کو ایک جنس کی صورت میں پیش کر کے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ ان مواد پر لاکھوں لوگ تبصرے کرتے ہیں، شیئر کرتے ہیں، اور بعض تو ان ہی کو رول ماڈل تصور کرتے ہیں۔ یہ ہمارے معاشرتی زوال کی سب سے خطرناک علامت ہے کہ ہم فحاشی کو مزاح یا تفریح کا درجہ دینے لگے ہیں۔

انٹرنیٹ کا استعمال ہر گز برا نہیں، بلکہ یہ ایک عظیم ذریعہ ہے علم، تجارت، ربط، اور ترقی کا۔ مگر یہ اسی صورت میں فائدہ مند ہوتا ہے جب اس کے ساتھ تربیت، آگہی، اور اخلاقی ذمہ داری بھی ہو۔ بدقسمتی سے پاکستان میں ڈیجیٹل لٹریسی کے نام پر صرف ٹیکنیکل معلومات دی جاتی ہیں، اخلاقی یا قانونی حدود کی آگہی بہت کم ہے۔ بچے، جنہیں ابھی خود شعور حاصل نہیں ہوا، وہ سوشل میڈیا پر گھنٹوں مصروف رہتے ہیں، اور ان کے والدین اکثر لاعلم یا غفلت میں مبتلا ہوتے ہیں۔ یہ خلا صرف قانون سے نہیں، تربیت سے پُر کیا جا سکتا ہے۔

ایک اور خطرناک پہلو جو ہمیں نظر انداز نہیں کرنا چاہیے وہ ہے "ڈیجیٹل غلامی"۔ ہم دن بھر موبائل اسکرینز سے چمٹے رہتے ہیں، اور لاشعوری طور پر ان ایپلیکیشنز اور الگورِدھمز کے تابع ہو چکے ہیں جو ہمیں وہی دکھاتے ہیں جو ہمیں مزید اسکرین پر روکے رکھے۔ اگر ہماری دلچسپی نازیبا مواد میں ہے، تو ہمیں وہی مزید دکھایا جاتا ہے۔ یہ ایک خودکار شیطانی چکر ہے جو رفتہ رفتہ انسان کے ذوق، سوچ اور اقدار کو بدل دیتا ہے۔

پاکستان جیسے معاشرے میں جہاں دین، ثقافت اور روایات کو خاص مقام حاصل ہے، وہاں فحاشی کا یہ کھلا پھیلاؤ صرف ایک اخلاقی چیلنج نہیں بلکہ سماجی بگاڑ اور معاشرتی انتشار کی علامت بھی ہے۔ ہم اگر بروقت بیدار نہ ہوئے، تو آنے والے وقت میں ہمیں ایسی نسلیں ملیں گی جو نہ اپنے والدین کی عزت کریں گی، نہ اپنے رشتوں کا احترام، نہ دین کا فہم، اور نہ انسانیت کا شعور۔ ایسے معاشرے صرف بیرونی طور پر آباد ہوتے ہیں، مگر اندر سے مر چکے ہوتے ہیں۔

لہٰذا اس وقت ضرورت ہے کہ ہم قومی سطح پر اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیں۔ یہ صرف ایک سوشل میڈیا کا مسئلہ نہیں بلکہ ہمارے وجود، ہماری تہذیب، اور ہمارے آنے والے کل کا مسئلہ ہے۔ میڈیا ہاؤسز، اسکولوں، مساجد، اور پارلیمنٹ تک سب کو مل کر کام کرنا ہو گا۔ ہمیں فوری ایسے اصلاحی پروگرام متعارف کروانے ہوں گے جو انٹرنیٹ کے اخلاقی استعمال، سائبر ہراسگی سے بچاؤ، اور ذمہ دار ڈیجیٹل رویے کو فروغ دیں۔ والدین کے لیے تربیتی ورکشاپس ہوں، نوجوانوں کے لیے اخلاقی رول ماڈلز سامنے لائے جائیں، اور ریاست کی طرف سے فحش مواد کے خلاف زیرو ٹالرنس کی پالیسی اختیار کی جائے۔

آج اگر ہم نے اس فحاشی کے سیلاب کو نہ روکا تو کل یہ ہمیں بہا لے جائے گا۔ ہم صرف عمارتیں، سڑکیں، یا ٹیکنالوجی سے نہیں، بلکہ کردار، علم، اور تہذیب سے ترقی یافتہ قوم بن سکتے ہیں۔ یہی وہ راستہ ہے جو ہمیں تباہی سے بچا سکتا ہے اور ہماری آنے والی نسلوں کو ایک محفوظ، باوقار اور بااخلاق پاکستان دے سکتا ہے۔
 

Mirza Abdul Aleem Baig
About the Author: Mirza Abdul Aleem Baig Read More Articles by Mirza Abdul Aleem Baig: 2 Articles with 1151 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.