السلام علیکم!
میں آج جس موضوع پہ میں بات کرنے جا رہی ہوں وہ ایک حساس موضوع ہے۔
یہ کوئی فلسفہ نہیں، بلکہ حقیقت ہے — ایک تلخ حقیقت۔
ہم داخل ہو چکے ہیں اکیسویں صدی میں۔
وہ صدی جسے کہا جاتا ہے آن لائن کا دور۔
ہر چیز آن لائن — حتیٰ کے تعلیمی اداروں کی ہر سہولت بھی آن لائن ہو چکی ہے۔
تعلیم ہر کسی کا حق ہے، تعلیم کے لیے آواز اٹھانی چاہیے — یہ آج کل کا
نظریہ ہے۔
نظریہ برا نہیں، لیکن تعلیم حاصل کرنا کیا صرف امیر طبقے کا حق ہے؟
کتنی صدیاں گزریں، کتنے لوگ آئے اور کتنے چلے گئے۔
اکیسویں صدی میں ہم داخل ہو چکے ہیں۔
نہ جانے کتنے خواب ٹوٹے، کتنے بکھرے، اور کتنے صرف آنکھوں میں ہی رہ گئے۔
اس غربت نے نہ جانے کتنے خوابوں کو جلا کے راکھ کر دیا۔
آج میں آپ کو یہ موضوع کہانی کے انداز میں سمجھانے کی کوشش کروں گی۔
یہ کوئی فلسفیانہ بات نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے۔
ایسی حقیقت جسے روز کوئی نہ کوئی دیکھتا ہے۔
اور اس حقیقت کو لوگ نظر انداز کر دیتے ہیں۔
میں یہ نہیں کہوں گی کہ پاکستان میں لوگ ایک دوسرے کی مدد نہیں کرتے۔
نہیں، یہاں کے لوگوں کا دل بڑا ہے۔
بڑے بڑے فنڈز نکالتے ہیں اور این جی اوز کو دیتے ہیں — یہ بہت اچھی بات ہے۔
آج ہم بات کریں گے علی کی۔
علی ایک چھوٹا سا بچہ ہے جو اپنے ابو کے ساتھ ٹائر کی دکان پر پنکچر لگاتا
ہے۔
یہ پنکچر لگانا اس کا شوق نہیں، اس کا خواب نہیں — بلکہ اس کی مجبوری ہے۔
اس نے بھی اس دنیا میں آ کر مختلف خوابوں کو سمجھا تھا۔
ایک خواب اس نے بھی اپنی آنکھوں میں بسایا تھا۔
لیکن ان خوابوں کی بنیاد رکھنے سے پہلے ہی غربت نے ان کو مٹا کر راکھ کر
دیا۔
جب جب اس کی دکان کے پاس سے کوئی ڈاکٹر گزرتا ہے،
کوئی بچہ کتابوں کا بستہ لیے گزرتا ہے،
جب اس کے کانوں میں اسکول کی گھنٹی سنائی دیتی ہے،
جب کسی بچے کے منہ سے "اسکول" کی آواز سنائی دیتی ہے —
تو اس کا دل، اس کا ضمیر، ایک ہی بات پکارتا ہے:
"کیوں؟ خواب دیکھنا جرم ہے؟
میری غربت نے میرے خوابوں کو جلا ڈالا؟
میں بھی تو ان خوابوں کا منتظر تھا..."
جو تو ایک معصوم سا بچہ تھا نا —
اس نے دنیا کے رنگوں کو کہاں سمجھا تھا؟
اس نے غربت کے اصولوں کو ابھی کہاں جانا تھا؟
اس نے تو بس اپنے دل میں کچھ خواب چھپا رکھے تھے۔
اس نے تو بس خوابوں کو گننا شروع کیا تھا۔
لیکن جب خوابوں کو پورا کرنے کا وقت آیا،
جب اس نے خوابوں کی منزل پر قدم رکھنا چاہا —
تو ایک ہی پکار آئی:
"تیری غربت تیرے خوابوں کو جلا رہی ہے، اپنے قدم پیچھے ہٹا — تو غریب ہے!"
کیا آپ نے کبھی اُس بچے کو دیکھا ہے؟
جو گاڑیوں کے پنکچر لگا رہا ہوتا ہے؟
کیا آپ نے کبھی اُس بچے کو دیکھا ہے؟
جو دھوپ میں پھل اور سبزیاں ریڑھی پر بیچ رہا ہوتا ہے؟
کیا آپ نے دیکھا ہے اُس بچے کو جو گاڑیوں کے شیشے صاف کر رہا ہوتا ہے؟
کیا آپ نے سنی ہے وہ صدا جس میں ہوٹل پر "چھوٹو، چھوٹو!" کہہ کر پکارا جاتا
ہے؟
کیا آپ نے دیکھا ہے اُن بچوں کی آنکھوں میں؟
کیا یہ وہ خواب تھے جو وہ پورے کر رہے ہیں؟
نہیں — وہ خواب تو وہ جلا بیٹھے۔
غربت نے ان کے خوابوں کو جلا دیا۔
دو وقت کی روٹی کی فکر نے ان کے خوابوں کو بھلا دیا۔
یہ تحریر لکھنے کا مقصد بس اتنا ہے:
اگر ہم پاکستان کی بات کریں تو ہم دیکھتے ہیں کہ یہاں کے لوگ مدد کرنے سے
پیچھے نہیں ہٹتے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ فلاحی اداروں کو بہت سارے فنڈز دیے جاتے ہیں،
تعلیمی اداروں کو بھی دیے جاتے ہیں —
لیکن کبھی ان بچوں سے بھی تو پوچھیں جو روز کام کر رہے ہوتے ہیں۔
کبھی ان کے حال کو تو جانیں — وہ کیوں ایسا کر رہے ہوتے ہیں؟
بہت سے لوگ ہوتے ہیں جو کسی کے سامنے اپنے دل کا حال بیان نہیں کرتے،
کیونکہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانا نہیں چاہتے۔
میری آپ سب سے التجا ہے —
کبھی اُن کے گھر والوں سے حال تو پوچھئے،
کبھی اُن بچوں کا احوال تو پوچھئے۔
کیوں نہ ہم ایک ایک بچے کی ذمہ داری لیں؟
کیوں نہ ہم اُن کو پڑھائیں؟
تاکہ کبھی غربت کسی بچے کے خوابوں کو نہ جلا سکے۔
کیونکہ تعلیم ان کا بھی حق ہے۔
ہم کہتے ہیں نا:
"پڑھیں گے، لکھیں گے تو ملک آگے بڑھے گا۔"
تو پھر ان بچوں کو بھی پڑھائیے — ان کے مستقبل کو سنواریے۔ |