بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) دنیا کے مالیاتی نظام کا ایک اہم
ستون ہے، جسے عالمی تعاون، مالی استحکام، تجارت کی آسانیاں، روزگار کے
مواقع، اور غربت کے خاتمے جیسے نیک مقاصد کے لیے بنایا گیا ہے۔ یہ ادارہ
کسی بھی ملک کو تب مالی امداد دیتا ہے جب وہ ادائیگیوں کے توازن کے سنگین
مسئلے یا مالی بحران کا شکار ہو جائے۔ لیکن یہ امداد اتنی آسانی سے نہیں
ملتی۔ اس کے ساتھ پالیسیوں کی ایک لمبی فہرست منسلک ہوتی ہے، جسے "ساختی
ایڈجسٹمنٹ پروگرام کہتے ہیں۔ یہ پروگرام بنیادی طور پر ملک کی معیشت کو
پٹڑی پر لانے کے لیے ہوتے ہیں، جن میں مالیاتی سختی، نجکاری، اور تجارت کی
آزادی جیسے کڑے فیصلے شامل ہوتے ہیں۔ مگر افسوس، یہ ایڈجسٹمنٹ پروگرام اکثر
غریب عوام کی کمر توڑنے کے لیے بنائے گئے نظر آتے ہیں۔
غریبوں کا بوجھ، حکمرانوں کی موج
آئی ایم ایف کے کفایت شعاری کے اقدامات کا سب سے زیادہ بوجھ قرض لینے والے
ممالک کی غریب اور کمزور آبادیوں پر پڑتا ہے، جبکہ حکمران طبقے کی شاہانہ
زندگی اور ناجائز مراعات پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ معاشی استحکام کسی بھی ملک
کی ترقی اور غربت کے خاتمے کے لیے ضروری ہے۔ جب کوئی ملک آئی ایم ایف کے
دروازے پر دستک دیتا ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ اس کی معیشت بری طرح بگڑ چکی
ہے، جہاں بجٹ خسارہ، بے قابو مہنگائی، قرضوں کا بوجھ، اور گرتی ہوئی کرنسی
عام بات ہوتی ہے۔ اس لیے، آئی ایم ایف کی شرائط کا بنیادی مقصد مالیاتی نظم
و ضبط اور معاشی توازن کو بحال کرنا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر، حکومتی
اخراجات میں کمی، ٹیکسوں میں اضافہ، اور مہنگائی پر قابو پانا ان کے عام
مطالبات ہیں۔ مگر ان سب کا خمیازہ بیچارے غریب کو ہی بھگتنا پڑتا ہے۔
عام آدمی کی جیب پر ڈاکہ
آئی ایم ایف کی یہ پالیسیاں براہ راست عام شہریوں کی روزمرہ زندگی کو متاثر
کرتی ہیں۔ کیا مالی استحکام کے لیے صحت، تعلیم، اور سماجی تحفظ جیسی بنیادی
عوامی خدمات میں کٹوتیاں ہی واحد حل ہیں؟ پھر ایندھن اور خوراک جیسی ضروری
اشیاء پر سبسڈی کا خاتمہ ایسے ضروری بنا دیا جاتا ہے جیسے اس کے بغیر معیشت
کا پہیہ چل ہی نہیں سکتا۔ یہ اقدامات بجٹ خسارے کو کم کرنے کے لیے ہوتے
ہیں، لیکن غریبوں کو سب سے زیادہ متاثر کرتے ہیں، کیونکہ انہی کے خون پسینے
سے آئی ایم ایف کی تجوریاں بھری جاتی ہیں۔ پٹرول، بجلی، اور گیس کی قیمتوں
میں اضافے سے طبقہ خواص کو ذرا بھی فرق نہیں پڑتا، جبکہ غریب اس چکی میں پس
کر رہ جاتا ہے۔ عالمی ناقدین کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف کے یہ اقدامات عدم
مساوات کو بڑھاتے ہیں اور غریبوں کو مزید غربت کی دلدل میں دھکیل دیتے ہیں،
حتیٰ کہ سماجی بے چینی بھی پیدا کرتے ہیں، جس سے وہی استحکام خطرے میں پڑ
جاتا ہے جس کا آئی ایم ایف حصول چاہتا ہے۔
اشرافیہ پر ہاتھ کیوں نہیں ڈالا جاتا؟
یہاں مرکزی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آئی ایم ایف غریبوں پر کفایت شعاری
مسلط کرنے کے بجائے حکمرانوں کی عیاشیوں کو کم کرنے پر توجہ کیوں نہیں
دیتا؟ اس کا جواب آئی ایم ایف کے دائرہ کار، اس کی عملی حدود، اور خودمختار
ریاستوں کی سیاسی معیشت کے عوامل میں پنہاں ہے۔ مگر اصل بات یہ ہے کہ اگر
آئی ایم ایف حکمران طبقے پر ٹیکس لگائے یا ان سے قربانی کا مطالبہ کرے، جو
کہ حق بنتا ہے، تو اسے ڈر ہوتا ہے کہ یہ حکمران چاہے کتنے ہی غریب ملک کے
ہوں، آئی ایم ایف سے معاہدہ نہیں کریں گے اور یوں یہ ملک اس کے جال میں
نہیں آ سکے گا۔ سرمایہ دارانہ سوچ کا تقاضا ہے کہ بس آمدنی آنی چاہیے۔ جیسا
کہ کسی سرمایہ دار نے کہا تھا کہ "کرنسی نوٹ پر نہیں لکھا ہوتا کہ وہ حلال
کی کمائی سے ہے یا حرام کی کمائی سے۔ منافع تو منافع ہوتا ہے اور سرمایہ
دار فرد ہو یا ادارہ، بس منافع ہی چاہتا ہے۔" اس لیے آئی ایم ایف حکمران
طبقے سے اپنی شرائط کو دور رکھتا ہے اور غریب کے گرد ہی شکنجہ کستا رہتا
ہے۔ اسے آئی ایم ایف ایک سیاسی عمل قرار دے کر نظریں چرا لیتا ہے، حالانکہ
دنیا میں سب سے زیادہ سیاست ہی آئی ایم ایف کے ذریعے کی جا رہی ہے۔ نہ صرف
معاشی شرائط قبول کروانا بلکہ امداد لینے والے ملک کو کسی خاص دھڑے میں
شامل ہونے پر مجبور کرنا بھی آئی ایم ایف کے ایجنڈے میں شامل ہوتا ہے۔
عملی مسائل اور دوہرا معیار
جہاں آئی ایم ایف نے سیاست کی بنا پر ایسا نہ کرنا ہو، وہاں یہ دلیل دی
جاتی ہے کہ انفرادی حکمرانوں کے ذاتی اخراجات میں براہ راست مداخلت کرنا یا
مخصوص بجٹ کے معاملات میں دخل دینا اس کے روایتی دائرہ کار سے باہر ہے اور
اسے قومی خودمختاری پر حملہ سمجھا جا سکتا ہے۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ
جب اشرافیہ پر کوئی پابندی لگائی جائے گی تو وہ کیسے آئی ایم ایف کی شرائط
پر عمل کریں گے اور سود کی شکل میں بھاری رقم واپس کر کے اس ادارے کو منافع
پہنچائیں گے؟ اسی لیے آئی ایم ایف کو ڈر ہے کہ اس طرح کے نقطہ نظر سے رکن
ممالک کی طرف سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا اور اس کا کاروبار خسارے
میں چلا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ آئی ایم ایف ہو یا کوئی دوسرا مالیاتی
ادارہ، وہ اشرافیہ کی عیاشی کو ہمیشہ نظر انداز ہی کرتا ہے۔
حکمران طبقے کی شاہانہ طرز زندگی کے خلاف اقدامات کی نگرانی اور نفاذ کو
کسی بیرونی تنظیم کے لیے ناقابل یقین حد تک مشکل قرار دے دیا جاتا ہے، جبکہ
غریب کے استحصال سے نہ کوئی عالمی قانون روکتا ہے اور نہ ہی مقامی اشرافیہ
راستے کی رکاوٹ بنتی ہے۔ اگرچہ بدعنوانی اور غیر قانونی مالیاتی بہاؤ کو
ترقی اور معاشی استحکام میں بڑی رکاوٹیں تسلیم کیا جاتا ہے، لیکن حکمرانوں
کی ذاتی عیاشیوں کا سراغ لگانا اور انہیں محدود کرنا انفرادی مالیات،
اثاثوں کے اعلانات اور اخراجات کے طریقوں کو ان کا ذاتی معاملہ قرار دے دیا
جاتا ہے۔ اگر آئی ایم ایف ان کو اپنے دائرہ کار میں لائے تو اشرافیہ کبھی
بھی اس سے معاہدے کے لیے تیار نہیں ہو گی۔ تبھی تو "میٹھا میٹھا ہپ ہپ اور
کڑوا کڑوا تھو تھو" کی پالیسی چل رہی ہے۔
اصلاحات کی ضرورت اور حکمرانی کی پختگی
آئی ایم ایف عام طور پر ان شعبوں میں ہاتھ ڈالتا ہے جہاں سے وہ رکن ملک کو
اپنے دائرے میں باندھ کر رکھ سکے۔ حکمرانی کے مسائل کو حل کرنا، بدعنوانی
کے خلاف اداروں کو مضبوط کرنا، عوامی مالیاتی انتظام کو بہتر بنانا، شفافیت
کو بڑھانا، اور قانونی ڈھانچے میں اصلاحات لانا جیسے بہانے ہیں جن سے وہ
کسی حد تک حکمران طبقے کو بھی اپنی مٹھی میں رکھتا ہے تاکہ یہ وقت پر منافع
کی قسطیں واپس کرتے رہیں۔ حالانکہ یہ سارے معاملات بھی سیاسی ہی ہیں۔
مزید برآں، آئی ایم ایف اپنے رکن ممالک کے موجودہ سیاسی ڈھانچوں کے اندر
کام کرتا ہے۔ یہ اقتدار میں موجود حکومتوں کے ساتھ مذاکرات کرتا ہے، چاہے
ان کی اندرونی حکمرانی کا معیار یا رہنماؤں کی ذاتی ایمانداری کیسی بھی ہو۔
اس کا اثر و رسوخ ملک کی مالی امداد کی ضرورت سے حاصل ہوتا ہے۔ اگرچہ آئی
ایم ایف نے اچھی حکمرانی کی اہمیت کو تسلیم کیا ہے اور اپنے پروگراموں میں
بدعنوانی کے خلاف اقدامات اور شفافیت کو زیادہ واضح طور پر شامل کیا ہے،
لیکن ایک خودمختار حکومت کو اپنی قیادت کے شاہانہ اخراجات کو خاص طور پر
نشانہ بنانے پر مجبور کرنے کی اس کی صلاحیت محدود ہے۔ ایسے مطالبات کو رجیم
چینج کی کوشش یا غیر ضروری مداخلت سمجھا جا سکتا ہے، جس سے مذاکرات میں
تعطل پیدا ہو سکتا ہے اور ممکنہ طور پر ملک کو مالیات کے دیگر، کم مشروط
ذرائع کی طرف دھکیلا جا سکتا ہے، جس سے آئی ایم ایف کے کاروبار میں رکاوٹ آ
سکتی ہے۔ لہٰذا وہ حکمران طبقے کو کچھ نہیں کہتا۔
ایک حل طلب مسئلہ
آئی ایم ایف کا بجلی، گیس جیسی عام استعمال کی چیزوں میں اضافہ اور تعلیم،
صحت اور دوسرے عوامی مفاد کے شعبوں پر سختی پر توجہ مرکوز کرنا بدعنوان
اشرافیہ کو اپنی شاہانہ طرز زندگی جاری رکھنے کی اجازت دیتا ہے، جبکہ اس
ساری ایڈجسٹمنٹ کا بوجھ عوام پر پڑتا ہے۔ اگر آئی ایم ایف نیک نیتی سے
ملکوں کی معیشت کو درست سمت دینا چاہتا ہے اور واقعی سنجیدہ ہے کہ غریب
عوام خوشحال ہوں، تو اسے ایسا نقطہ نظر اپنانا ہو گا جو مالی امداد کو
حکومتوں کی طرف سے بدعنوانی سے نمٹنے، چوری شدہ اثاثوں کی بازیابی، اور
اشرافیہ کے اخراجات کو کم کرنے کے لیے واضح کوششوں سے جوڑے۔ مگر افسوس کے
ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ایسے اقدامات کے بغیر، آئی ایم ایف نادانستہ طور پر
ایک ایسے نظام کو قانونی جواز فراہم کر رہا ہے اور اسے جاری رکھے ہوئے ہے
جہاں اقتصادی بدانتظامی کے اخراجات غریب لوگوں کو برداشت کرنے پڑتے ہیں،
اور امیر طبقہ اپنی ہی منش پر چلتا رہتا ہے، اسے اس ادارے کی کسی پالیسی سے
کوئی فرق نہیں پڑتا۔
|