بچپن میں احمد رشدی صاحب کا گانا "بندر روڈ سے کیماڑی"
سنا تھا اور آج بھی یہ گانا کراچی کی ان پرانی اور بیتی ہوئ داستانوں میں
زندہ ہے، اور جب بندر روڈ سے کیماڑی کا سفر بیت آسان تھا۔
بندر روڈ میں کوئ بندر نہیں رہتے تھے، چونکہ یہ سڑک سیدھی بندرگاہ تک جاتی
ہے اسلیئے اس کا نام بندر روڈ رکھا گیا۔
بھلا ہو انگریزوں کا جنہوں نے یہ سڑک تعمیر کی اور ہمیں بتایا کہ یہ سڑک
بندر گاہ تک جاتی ہے، ورنہ ہم بندروں کی تلاش میں سرکردہ رہتے۔
آج یہ سڑک اور اس کے علاوہ اور تمام کراچی کی سڑکیں کسی نا کسی طرح بندر
روڈ پر پہنچ اختتام پذیر ہوتی ہیں۔
چونکہ آج کے دور میں گھوڑا گاڑی تو ہے نہیں کہ لوگ فٹ پاتھ پر ہو جائیں،
اور آج کل فٹ ہاتھ بھی نہیں ہیں بس صرف ایک سڑک ہے جو چاند کی زمین تاثر دے
رہی ہوتی ہے۔
بقول شاعر "چاند میری زمین" کراچی میں سڑک اور فٹ پاتھ کا حسین امتزاج ہے۔
سڑک چاند کی زمین کی طرح اور فٹ پاتھ پر فٹ "پاوں" رکھنے کی بھی جگہ نہیں۔
ہم بحثیت قوم اپنا حق سمجھتے ہیں کہ کاروبار کو فٹ پاتھ تک وسعت دینا ترقی
کی منازل طے کرنے کے مترادف ہے، جہاں پر بیٹھ کر عوام کو وہ سہولت دی جائے
جن کی ان کو اشد ضرورت ہے۔
اللہ ہمارے فٹ پاتھوں کو سلامت رکھے۔
(فیاض حفیظ - مورخہ8 جون 2025 - کراچی)
|