سوات کی تحصیل خوازہ خیلہ کے علاقے بابو میں ایک کچے چائے
کے ہوٹل ”چنار ہوٹل“ میں لکھا گیا ایک جملہ جس میں ہمارے معاشرے کے رویوں
کے بارے میں پورا فلسفہ سمویا گیا ہے،بابو خوازہ خیلہ میں چھوٹا سا ہوٹل ہے
جس میں گرد آلود میزوں کے اردگر د ہر وقت لوگوںکا جھمگٹا لگا رہتا ہے اور
چائے کا ایک دیگچہ جو نہ رکتا ہے اور نہ ٹھنڈا ہوتا ہے لیکن وہاں چائے کے
شوقینوں کیلئے بہت ہی بامعنی جملے لکھے گئے ہیں جو ہر پڑھنے والے کو کچھ
دیر کیلئے سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔ اس ہوٹل کی چائے کی کوئی انفرادیت ہو
یا نہ ہو، چائے کی خوشبو ہو یا نہ ہو، بلکہ کڑک چائے کے شوقینوں کا شوق
پورا ہوتا ہو یا نا لیکن وہاں چائے کی کڑک اور ذائقہ تبدیل کرنے والا ایک
جملہ لکھا گیاہے جو ہوٹل کی دیوار پر بڑے فخر سے پڑھنے والوں کو سوچ کی
اتھاہ گہرائیوں میں لے جاتا ہے، اس حوالے سے ہمارے ایک بہت ہی مخلص دوست
ڈاکٹر سربلند خان نے تفصیلات فراہم کرتے ہوئے کہا کہ ایک چھوٹے سے ہوٹل میں
چائے پینے کا اتفاق ہوا لیکن اس ہوٹل کے دروازے پر ایک جملہ پڑھا جس نے سوچ
کی گہرائیوں میں پہنچایا۔ سادہ سا ہوٹل جس کا مالک دن بھر لوگوںکی خدمت میں
چائے بناتے بناتے شام کردیتا ہے اور رات کو تھکا مارا گھر جا کر لوٹ جاتا
ہے شائد اسے بھی ان جملوں کی گہرائی کے بارے میں اتنا معلوم نہ ہو لیکن عقل
والوں کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیتا ہے۔وہاں لکھا ہوا ہے کہ !
"چائے کا احترام کیا کریں، یہ تمام مشروبات کا مرشد ہے۔ دھوکے کے بعد چائے
دوسری چیز ہے جو انسان کی آنکھیں کھول دیتی ہے!"
یہ جملہ سن کر قہقہہ بھی آتا ہے اور دل بھی سوچ میں پڑ جاتا ہے۔ یہ صرف ایک
طنزیہ جملہ نہیں بلکہ ہماری سادہ لیکن گہری معاشرتی حقیقتوں کی عکاسی ہے۔
چائے سے محبت ہمارا ایک قومی جذبہ ہے ،پاکستان میں چائے صرف ایک مشروب نہیں،
بلکہ یہ دوستی کا پہلا قدم ہے۔ چاہے کسی دکاندار سے بات کرنی ہو یا دفتر
میں کسی نئے ساتھی کا دل جیتنا ہو، "چائے پئیں گے؟" سے بہتر آغاز کوئی نہیں
ہوتا۔جہاں جائے ہر کوئی آپ کو کوئی اور پیشکش کرے یا نہ کرے لیکن چائے
کیلئے ضرور پوچھے گا، کسی محفل میں اگر کوئی بہت ساری لوازمات رکھے لیکن
کھانے کے بعد اگر چائے نہ ملے تو مجھ سمیت بعض لوگوں کے ہاں اسے دشمنی سے
کم نہیں سمجھا جاتا ۔
چائے ایسی، کہ غم بھی پگھل جائے اس میں
ہر گھونٹ میں جیسے محبت گھلی ہو!
ہمارے ہاں سڑک کے کنارے یہی کھانے کے ہوٹل اور چائے خانے سیاسی گفتگو، شعری
نشست، سماجی تبصروں اور کبھی کبھار رشتے طے ہونے تک کے مراکز ہوتے ہیں۔ یہ
وہ جگہیں ہیں جہاں دن کی تھکن اترتی ہے اور رات کی سکون آور خاموشی چائے کے
چسکیوں میں تحلیل ہو جاتی ہے۔دن بھر پرمشقت محنت میں مصروف رہنے والے اکثر
ان ہوٹلوں اور چائے خانوں میں جمع ہوکر سکون کی تلاش میں گھنٹوں گھنٹوں ایک
ہی موضوع پر گفتگو کرتے رہتے ہیں ، بڑے شہروں میں ڈھابہ ہوٹل تو اس قسم کی
جھمیلوں کیلئے خاص ہوتے ہیں جہاں ہر موضوع پر چاہے کوئی معلومات رکھتا ہو
یا نہ اظہار خیال اپنا پہلا حق سمجھتے ہیں۔
دیواروں کی زبان،سوات ہو یا کراچی، لاہور ہو یا پشاور — ملک بھر میں ہزاروں
چائے ہوٹلوں کی دیواریں انوکھے، دل چسپ اور بعض اوقات فلسفیانہ جملوں سے
مزین ہوتی ہیں۔ یہ جملے نہ صرف ہوٹل کے مزاج کو ظاہر کرتے ہیں بلکہ معاشرتی
سوچ کی جھلک بھی دکھاتے ہیں۔ مثلاً:"ادھار صرف وہی لے، جو بھولنے کا فن
جانتا ہو۔"
"بیوی ناراض ہو تو چائے بنانا سیکھ لو!"
"چائے نہیں پلانی، تو بیٹھنے کیوں دیا؟"
لیکن "چائے تمام مشروبات کا مرشد ہے" والا جملہ کچھ الگ ہی مقام رکھتا ہے۔
یہ چائے کی عزت کا، اس کے روحانی مقام کا ایک اعلان ہے۔
چائے اور دھوکہ: آنکھیں کھولنے والے لمحے
انسان جب دھوکہ کھاتا ہے تو دنیا کی حقیقتیں اچانک اس پر واضح ہو جاتی ہیں۔
وہ سچ جو پہلے نظر انداز کیے گئے، اب چیخنے لگتے ہیں۔ ایسے میں چائے ایک
خاموش ساتھی بنتی ہے۔ ایک کپ ہاتھ میں ہو اور آنکھوں سے دھوکہ کا دھواں نکل
رہا ہو تو چائے اس درد کو سہارا دینے لگتی ہے۔ اس لمحے چائے صرف چائے نہیں
رہتی، وہ ایک ہمدرد بن جاتی ہے۔
ہوٹلوں کی فلاسفی اور عوامی ادب،ہمارے مقامی چائے کے ہوٹل، عوامی ادب کے
اَن لکھے مراکز ہوتے ہیں جہاں نہ کوئی یونیورسٹی کی ڈگری درکار ہوتی ہے، نہ
علمی اصطلاحات کی ضرورت۔ ایک کپ چائے کا آرڈر دیا، ایک دیوار پر لکھا جملہ،
اور اردگرد بیٹھے سادہ لوگ ،یہ سب مل کر زندگی کے بڑے بڑے فلسفے سکھا دیتے
ہیں۔
الغرض بات کا حاصل یہ ہے کہ چائے کا احترام، صرف رسم نہیں بلکہ اس کے پیچھے
برسوں کے کئی طرح کے تجربے ہوتے ہیں ۔
آج جب زندگی کی رفتار بہت تیز ہو چکی ہے، جب لوگ وقت کے پیچھے دوڑتے جا رہے
ہیں، تب بھی ایک کپ چائے وہ موقع فراہم کرتا ہے کہ انسان خود سے مل سکے۔
دیوار پر لکھا جملہ صرف ہنسانے کے لیے نہیں، رکنے اور سوچنے کے لیے بھی ہے۔
اپنے بزرگوں کا ماننا ہے کہ اگر کوئی ہمیں دعوت پر بلائے اور انواع و اقسام
کے کھانے کھلائے لیکن اگر اس میں چائے نہ ہو تو یہ ہمارے ساتھ دُشمنی کے
مترادف ہے ، اور ہمارا ایک بھائی جیسا دوست ہے نام سید شہاب الدین ہے جو
چائے پینے کو اچھا نہیں سمجھتے اور اکثر ہماری ان کے ساتھ اس بات پر تکرار
ہوتی ہے کہ صاحب قہوہ کو پسند کرتے ہیں اور ہم دودھ ملائی والی کڑک چائے کے
عادی ہیں ، اکثر ہمیں کہتے ہیں کہ زیادہ چائے پینے سے صحت کے مسائل کے ساتھ
ساتھ رات کی نیند بھی اُڑتی ہے تو موصوف کو ہمارا جواب شعر کی زبان میں یوں
ہوتا ہے کہ صاحب!چائے کے دیوانے ہیں ہم، یہ نہ پوچھو کیوں،
ہر گھونٹ میں تم ہو، یہی وجہ کافی ہے
رات کو سونے سے پہلے جب تک ہم چائے کی چسکی نہ لیں ہمیں نیند نہیں آتی ،
قصہ مختصر ہمیں چائے کے نقصانات اور فائدوں سے یہاں کوئی غرض نہیں لیکن
خوازہ خیلہ بابوکے ہوٹل میں لکھے گئے چند جملے ہمیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور
کرتے ہیں لیکن! اگلی بار جب کسی چائے کے ہوٹل میں جائیں تو چائے کے کپ کو
صرف ہاتھ میں نہ تھامیں بلکہ دل سے محسوس کریں، کیونکہ یہ واقعی تمام
مشروبات کا مرشد ہے۔ (
|