جیسے جیسے دنیا موسمیاتی تبدیلی کے فوری حل کی کوششوں میں
مصروف ہے، سمندر کا کاربن جذب کرنے اور ذخیرہ کرنے (کاربن سیکویسٹریشن) میں
کردار توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔
سمندر، زمین پر کاربن کا سب سے بڑا ذخیرہ (کاربن سنک) ہے جو ماحول سے 50
گنا اور زمینی ماحولیاتی نظاموں سے 20 گنا زیادہ کاربن ذخیرہ کرتا ہے۔ یہ
دنیا کی سالانہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کا تقریباً ایک تہائی حصہ جذب
کر لیتا ہے۔ سمندری کاربن جذب، جسے "بلیو کاربن" بھی کہا جاتا ہے اور جو
مینگرووز، سمندری گھاس کے میدانوں اور نمکین دلدلوں جیسے ماحولیاتی نظاموں
پر انحصار کرتی ہے، زمین کے کاربن توازن کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا
کرتی ہے۔
اپنے وسیع سمندری وسائل کے ساتھ بحرالکاہل جزائر ممالک کاربن کے دائرے میں
ایک اسٹریٹجک حیثیت رکھتے ہیں۔ تاہم، اپنے چھوٹے رقبے اور نچلے میدانی
علاقوں کی وجہ سے وہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات، جیسے کہ سمندر کی سطح میں
اضافہ اور شدید موسمی واقعات، کے لیے بھی انتہائی کمزور ہیں۔
اس پس منظر میں، چین اور بحرالکاہل جزائر ممالک سمندری کاربن جذب کے شعبے
میں تعاون کو مضبوط کر رہے ہیں۔ اسی حوالے سے ابھی حال ہی میں منعقدہ "2025
شنگھائی بین الاقوامی کاربن نیوٹرل نمائش"، جس کا موضوع "ایک کاربن نیوٹرل
مستقبل کی جانب" تھا، میں بلیو کاربن کے شعبے میں اہم تعاون کے منصوبوں اور
تکنیکی کامیابیوں کا اعلان کیا گیا۔
شیل فش (سیپیوں) اور سمندری گھاس (میکرو ایلجا) کی آب کاری کے ذریعے کاربن
جذب کا منصوبہ انتہائی انقلابی ہے۔ چین کے ساحلی بلیو کاربن کے تین بڑے
ماحولیاتی نظاموں کی سالانہ کاربن جذب کی صلاحیت تقریباً 12.688 لاکھ سے
30.774 لاکھ ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کے برابر ہے۔ بطور دنیا کا سب سے بڑا
سمندری آب کاری کرنے والا ملک ، جہاں خاص طور پر سمندری گھاس اور شیل فش کی
کاشت غالب ہے ، چین میں شیل فش اور سمندری گھاس کی پیداوار اس کی کل آب
کاری کی پیداوار کا تقریباً 85 فیصد بنتی ہے۔ اندازہ ہے کہ 2030 تک، چین
میں سمندری آب کاری سالانہ پانی کے ذخائر سے تقریباً 23 لاکھ ٹن کاربن
ہٹائے گی، اور یہ مقدار 2050 تک 40 لاکھ ٹن سے تجاوز کرنے کی توقع ہے۔
سمندری گھاس فوٹو سنتھیسس کے ذریعے کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتی ہے اور
کاربن کو سمندر میں ذخیرہ کرتی ہے۔
ماہرین کے نزدیک سمندری کاربن جذب میں چین کے ساتھ تعاون بحرالکاہل جزائر
ممالک کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ یہ نہ صرف انہیں موسمیاتی تبدیلی کے
چیلنجوں سے نمٹنے میں مدد کرتا ہے بلکہ خطے میں پائیدار ترقی کو بھی فروغ
دیتا ہے۔"
منصوبوں پر عمل درآمد سے ہٹ کر، چین سمندری کاربن سنکس کے لیے منڈی پر مبنی
راستے بھی تلاش کر رہا ہے۔ کاربن ٹریڈنگ ایک ممکنہ معاشی ماڈل کے طور پر
سامنے آئی ہے۔ وسیع تناظر میں بلیو کاربن کی ترقیاتی منصوبہ بندی کو پانچ
بنیادی اجزاء میں تقسیم کیا جا سکتا ہے جن میں بلیو کاربن کے وسائل کی
شناخت، بلیو کاربن کی طریقہ کار کی ترقی، بلیو کاربن کی نگرانی اور
اکاؤنٹنگ، بلیو کاربن کی توثیق اور بلیو کاربن کی تجارت ، شامل ہیں۔
مبصرین کے نزدیک بلیو کاربن میں چین اور بحرالکاہل جزائر ممالک کے درمیان
تعاون عالمی بلیو کاربن معیشت کے لیے ایک قابل تقلید نمونہ بن سکتا ہے۔اس
ضمن میں تکنیکی جدت طرازی، پالیسی حمایت اور کمیونٹی کی شرکت کو یکجا کر
کے، ماحول اور معیشت دونوں کے لیے جیت جیت کا ماحول پیدا کیا جا سکتا ہے۔
ہر گزرتے لمحے سمندر کی معاشی اہمیت بھی بڑھ رہی ہے۔ تنظیم برائے معاشی
تعاون و ترقی کی پیش گوئی ہے کہ 2030 تک سمندر کی معاشی قدر 3 ٹریلین ڈالر
سے تجاوز کر جائے گی، جو دنیا کی پانچویں سب سے بڑی معیشت کے برابر ہے۔ یہ
پائیدار سمندری ترقی اور عالمی معیشت میں بلیو کاربن کے کردار کی اہمیت کو
مزید واضح کرتا ہے۔
یہ توقع بھی کی جا رہی ہے کہ سمندری مسائل بشمول سمندری کاربن جذب پر بین
الاقوامی برادری کی توجہ میں مزید اضافہ ہو گا۔ بلیو کاربن میں چین اور
بحرالکاہل جزائر ممالک کے درمیان تعاون نہ صرف ایک علاقائی کوشش ہے بلکہ
عالمی موسمیاتی حکمرانی میں بھی ایک اہم شراکت ہے، جو موسمیاتی تبدیلی کے
خلاف جنگ میں بلیو کاربن کے ایک طاقتور آلے کے طور پر ممکنہ کردار کو واضح
کرتی ہے۔
|