لاپتہ افراد ڈرامہ! بلوچستان کی ترقی اصل نشانہ

بلوچستان میں فتنہ الہندوستان کی کالعدم تنظیموں بی ایل اے،بی ایل ایف،بی آر پی ودیگر ز کی طرف سے روز بروز ترقیاتی منصوبوں،ان پر کام کرنے والی مشینری،سول ٹھیکیداروں، مقامی اور خصوصاً غیر مقامی مزدوروں اورمواصلاتی ٹاورز کو نقصان پہچانے کی باقاعدہ ذمہ داریاں قبول کی جاتی ہیں جوکہ اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ یہ شدت پسند تنظیمیں بلوچستان کی ترقی وخوشحالی کی سب سے بڑی دشمن ہیں جو بظاہر بلوچ قوم کے حقوق کے علمبردار ہونے کا دعویٰ کرتی ہیں،مگر حقیقت میں بلوچیت کے لبادے میں چھپی وہ خون آشام بلائیں ہیں جو اپنے ذاتی مفادت کے لیے نہتے بیگناہ بلوچوں کا خون بہارہی ہیں۔دوسری جانب ان تنظیموں کے جرائم پر پردہ پوشی کرنے اور دہشت گردوں کو معصوم افراد ثابت کرنے کے لیے نام نہاد بلوچ یکجہتی کمیٹی،ماہ رنگ لانگو،سمی دین بلوچ اورصبیحہ بلوچ جیسے افراد پر مشتمل،فتنہ الہندوستان کے پروردہ غلاموں کا جتھہ بلوچستان میں ”لاپتہ افراد“کا ڈرامہ رچاکر ریاست اور ریاستی اداروں کے خلاف زہر اگل رہاہے۔جبکہ حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں بلوچستان میں کوئی ایک فرد بھی ”جبری گمشدہ“نہیں۔سوچنے والی اہم بات یہ ہے کہ پاکستان میں آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ پنجاب ہے اس کے علاوہ،صوبہ سندھ،صوبہ سرحد اور بشمول گلگت بلتستان میں کوئی ایک فرد بھی جبری گمشدہ نہیں بلوچستان میں ہی مخصوص گروہوں کے افراد ہی ”مسنگ پرسن“کیوں؟اس کا جواب”مسنگ پرسن“کے نام پر ڈالر کمانے والے کبھی نہیں دیں پائیں گے۔کیونکہ لاپتہ افراد ڈرامہ ہے بلوچستان کی ترقی اصل نشانہ ہے۔واضح رہے کہ 2014ء میں سی پیک کا معاہدہ ہونے اور گوادر پورٹ کی تعمیر کے ساتھ بلوچستان میں دہشت گردانہ حملوں میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ازلی دشمن بھارت کو پاک چین تعلقات اور خصوصاً سی پیک میگا پراجیکٹ ہضم نہیں ہورہا،یہی وجہ ہے کہ کبھی چینی انجینئرز کو کو ٹارگٹ کیاگیا تو کبھی چینی سفارتکار اور قونصلیٹ اس کا ہدف بنے۔جب سی پیک کا معاہدہ ہوا توامریکہ او ر بھارت اس پر اپنے شدید تحفظات ظاہر کرتے نظر آئے ہیں۔امریکہ کو یہ معلوم تھا کہ سی پیک کی تکمیل کے بعد پاکستان داخلی طور پر مستحکم ہوگا اور وہ اس پر اپنی دھونس نہیں جماسکے گا تو دوسری جانب چین بڑی اقتصادی قوت بن جائے گا اور امریکہ کی نام نہاد سپر پاور ختم ہوجائے گی جبکہ بھارت کی آنکھ میں سی پیک اس لیے کھٹکتا ہے کہ نیوکلیئر پاور بننے کے بعد دفاعی حوالے سے وہ پاکستان کو چیلنج نہیں کرسکتاتو سی پیک کے پایہ تکمیل کے بعد تو پاکستان ترقی کی دوڑ میں بھارت کو کوسوں پیچھے چھوڑ دے گا۔یہ وجہ ہے کہ امریکی آشیر باد سے بھارت افغانستان کی حمایت اور اس کے راستے بلوچستان میں دہشت گردی اور شدت پسندی کو ہوا دے رہا ہے۔

بھارت پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے بلوچستان میں اپنی پروردہ علیحدگی پسند اور شدت پسند تنظیموں جن میں بی ایل اے،بی ایل ایف،بی آر پی ودیگر زشامل ہیں،کو اسلحہ اور فنڈ فراہم کرتا ہے۔بھارت نے معرکہ حق اور آپریشن بنیان مرصوص میں پاکستانی مسلح افواج کے ہاتھوں ذلت آمیز شکست کھانے کے بعد پاکستان کے خلاف پراکسی وارز کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔بھارتی چینلز پر سانحہ جعفر ایکسپریس کی ویڈیو نشر کرکے دہشت گردوں کی پشت پناہی کی جارہی ہے۔بھارتی ٹی وی چینل میں بی ایل اے کی ویڈیو دکھا کر دہشت گردانہ کاروائیوں کو نہ صرف سپورٹ کیا جارہا ہے بلکہ دہشت گردی کو کھلے عام دکھایا جارہا ہے۔بھارت نے جنگی محاذ پر ہزیمت اٹھانے کے بعد اپنی ہار تسلیم کرنے کے بجائے دہشت گردی کو سہارا بنا لیا ہے،پاکستان کے خلاف نفرت پھیلانے کی نئی چال بھی ناکام ہوچکی ہے۔ریاست نے بلوچستان میں فتنہ الہندوستان کی تنظیموں کے خاتمے کا فیصلہ کرلیا ہے۔سیکیورٹی فورسز کی جانب سے روزانہ انٹیلی جنس بنیادوں پر کاروائیوں کے دوران بھارتی حمایت یافتہ دہشت گردوں کو جہنم رسید کیا جارہا ہے۔ قابل تشویش بات یہ کہ غیر ملکی نشریاتی ادارے جن میں خصوصاً بی بی سی شامل ہے،سمیت بلوچستان میں دہشت گردی کے حقائق کو جاننے کے باوجود جانبدانہ رپورٹنگ کرکے ایک منفی پراپیگنڈا پھیلارہے ہیں۔بی بی سی کی تربت،ڈنک میں دہشت گردوں کی لاشوں اور تدفین کے حوالے سے گمراہ کن رپورٹ نہ صرف غیر ذمہ دارانہ صحافت ہے بلکہ پاکستان کے خلاف منظم میڈیا مہم کا حصہ معلوم ہوتی ہے۔واضح رہے کہ 29اپریل 2025ء کو تربت کے علاقے ڈنک میں سیکیورٹی فورسز نے ایک آپریشن کے دوران تین انتہائی خطرناک دہشت گردوں کو جن میں نبیل احمد عرف علی ولد رسول بخش ہوت،فیروز عرف ساربان ولد اللہ بخش اور محمد عمر ذکا عرف گرو ولد علی سنگھور کو جہنم واصل کیا تھا،یہ تینوں دہشت گرد نہ صرف سیکیورٹی فورسز پر متعدد حملوں میں ملوث تھے بلکہ عام شہریوں کی ٹارگٹ کلنگ،بھتہ خوری اور اغواء برائے تاوان جیسے سنگین جرائم میں بھی شامل تھے۔ان کی دہشت گردانہ سرگرمیاں طویل عرصے سے بلوچستان میں بدامنی اور عدم استحکام کا باعث بنی ہوئی تھیں۔فتنہ الہندوستان کی تنظیم بی ایل اے نے ان افراد کو اپنے کمانڈر ز اور سرمچارکے طور پر تسلیم کرتے ہوئے ان کے مارے جانے کی تصدیق کی تھی۔واضح رہے کہ ان دہشت گردوں کے اہل خانہ کو ان کے کالعدم تنظیم بی ایل اے سے روابط کا بخوبی علم تھا،اس کے باوجود ان کی لاشوں پر بی بی سی کا منفی پراپیگنڈا یہ ثابت کرتا ہے کہ کون دہشت گروں کی ترجمانی کررہا ہے۔جہاں تک ”لاپتہ افراد“کا معاملہ ہے تو اس ڈرامے کا ڈراپ سین کئی بار ہوچکا ہے،گذشتہ سال بیلہ کیمپ خود کش حملہ آور طیب بلوچ بھی لاپتہ افراد کی فہرست میں شامل تھا،جس کے لاپتہ ہونے کی باقاعدہ ایف آئی آر درج کرائی گئی تھی۔اس سے قبل دہشت گرد فضل کریم جان ولد فضل بلوچ جوتربت کا رہائشی تھا کو 25مئی 2022کو لاپتہ بتایا گیا،وہی دہشت گرد کریم جان گوادر حملے میں دہشت گردی کرتے ہوئے مارا گیا۔اس حوالے سے سیکڑوں افراد آن دا ریکارڈ موجود ہیں جن کو بی وائی سی جیسی فتنہ الہندوستان کی پروردہ ایجنٹ تنظیموں نے ”لاپتہ افراد“ظاہر کیا مگر وہ دہشت گردانہ کاروائیوں کو انجام دیتے ہوئے سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں جہنم رسید ہوئے۔واضح رہے کہ بلوچستان میں دہشت گردوں کو ”لاپتہ افراد“کا ٹائٹل دیا جاتا ہے۔
 

نسیم الحق زاہدی
About the Author: نسیم الحق زاہدی Read More Articles by نسیم الحق زاہدی: 227 Articles with 203550 views Alhamdulillah, I have been writing continuously for 28 years. Hundreds of my columns and articles have been published in national newspapers, magazine.. View More