تعلق کو نبھاتے ہوئے مرجاتے ہیں


اس سال کے چھٹے مہینے کی شروعات پر یہ محض ہمارا دوسرا کالم ہے۔ یہ جامعہ میں ہماری چار سالہ ڈگری کا آخری برس بھی ہے۔ اس لکھنے کی کم ہوتی استعداد کے دو اہم سبب ہم اب تک سمجھ سکے ہیں۔ پہلا وقت کے ساتھ سیکھتے رہنا اور دوسرا ہماری جامعہ میں نصابی سطح کی مصروفیات! ہمارے پڑھنے والے اکثر دوستوں کی آسانی کے لئے ہم پہلی وجہ کی شرح کئے دیتے ہیں۔ بقول ہمارے اساتذہ کرام کہ کام کے لئے بہترین موقع آپ میدان میں اتر کر اور خاردار راستوں کو عبور کرتے ہوئے ہی حاصل کرسکتے ہیں۔ ہم عوائل ہی میں لکھنے کی طرف آگئے۔ اس جلدبازی کا باقی کچھ معاملات کی نسبت اس معاملے میں مثبت نتیجہ نکلا جو کہ ہمارے لئے قابلِ فخر ہے۔ آج ماضی کو بلکل نہیں کریدنا کہ وہی ہی تو ہے جس کے باعث یہاں تک سفر ہو پایا ہے۔ باقی جو ہم سے نالاں ہیں یا ہمیں اب تک نہ سمجھ پائے انکے لئے ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔ آج موضوع ہمارا ایک لمبے وقت کے لئے آپ سب اپنوں سے اجازت لینا ہے جس میں ہم نے خود کو اس قابل کرنا ہے کہ ہم اپنے ملک میں رہتے ہوئے ایک بہتر انسان بنیں اور معاشرے کے لئے علمی اور فکری سطح پر اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاسکیں۔ بات ہمارے لکھنے لکھانے کی ہورہی تھی تو لمحے کی حرارت اور جلدبازی کا یہاں فائدہ یہ ہوا کہ جو برس یوں ہی بیٹھے بیٹھے گزر جانے تھے وہ سالم تجربات کی حاصلات میں صرف ہوگئے لہذا اس ضمن میں ہمارے لئے دقیق پہلو پھر کم ہی جاکر بچے۔ اب موضوع سے پیراہن، عنوان سے اختتامی موڑ، ذوق سے اسلوب اور تکنیکی نوعیت کے معاملوں سے لیکر معلوماتی اضافے تک کی تمام حرکیات سمجھنے کا سفر شروع کر بیٹھے ہیں جس کے باعث اب لکھنے کے کام کو ذمہ داری سے انجام دینے کے لئے ایک وسیع غور و فکر اور اسے سیکھنے کے لئے سنجیدہ طور پر کوشاں ہیں تاکہ مستقل مزاجی سے تمام ضروری عوامل مدنظر رکھتے ہوئے اس شعبے میں آگے کی جانب بڑھا جاسکے۔ لکھنا اور اس عمل میں بہتری لاتے رہنا' ہماری کوتاہ عمری کے سفر کا ایک واحد لگاؤ ہوگا جسے آگے کی زندگی میں بھی جاری رکھا جاسکے۔ باقی فعل تو جو ہمارے تھے وہ کسی صورت بھی اب قابلِ توجہ نہیں رہے۔ البتہ وہ زندگی کے اہم ترین اور سیکھنے کے لائق اسباق سے بھرپور ہیں۔ ذاتی طور پر اب ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ایسے موڑ ہی شاید انسان کو جسمانی اور نفسیاتی سطح پر ایسے مرحلے میں داخل کرتے ہیں جس میں وہ خود کے اندر جھانک سکے اور نتیجتاً حسبِ توفیق اپنی اصلاح کرسکے۔ ہمیں شاید آسمانوں کی مہربانیوں سے "توفیق" کے معاملے میں خصوصی عنایت ہے کہ سنگ و خشت ایک وقت میں تو حالات کے فوراً بدلتے مستقیم راہ بھی میسر آگئی۔ اب گزرے وقتوں سے مکمل طور پر رجوع کرچکے ہیں کہ زندگی نام ہی سیکھنے اور آگے بڑھنے کا ہے۔

اُردو نثر کو پڑھنا ہمیں ہمیشہ سے لطف دیتا ہے۔ یہ غالباً پانچواں برس ہوگا کہ اب ہم خود سنجیدگی سے لکھنے کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ یونیورسٹی کے دوسرے سال میں تھے تو باقاعدہ طور پر نثری تحریروں کو کالم میں ڈھالنے کی ایک ادنی سی کوشش کی تھی۔ اس سال ہمارا نومولود قلم بہت چلا اور اسکی چکا چوند نے وقت فوقتاً ہمیں بہتری کی جانب دھکیلنے کی سعی بھی کی۔ تیسرے سال میں گزرے سال کی نسبت کالم آدھے تھے کہ کورس اسٹڈی نسبتاً تین گنا بڑھ چکی تھی۔ مگر دلچسپ امر یہ پیش آیا کہ جب بھی طبعیت بھاری محسوس ہوتی یا الفت کے خودساختہ راستے تھکاتے تو قلم اٹھاتے تھے اور ایک ہی نشست میں کچھ نہ کچھ معنیٰ اپنے قلم کی مرہونِ منت پیدا کر ہی لیا کرتے تھے۔ بعد کا مرحلہ اہلِ نظر دوستوں کو اس تحریر کا حتمی مسودہ بھیجنا ہوتا۔ "ہماری ویب" اور اس طرح کے اور ڈیجیٹل پلیٹفارمز کا تو ہمیں بہت بعد میں پتا چلا۔ اس سے آسانی یہ جنم لیتی ہے کہ آپ وہاں کے ضابطے کی رہنمائی سے مضمون شائع ہونے کے لئے جمع کرادیں۔ مضمون کی مجموعی طور پر جانچ کے بعد وہ کچھ وقت میں وہاں چھپ جاتا ہے جسکے بعد اسکی مخصوص لنک کو آپ اپنے سوشل میڈیا ہینڈلز پر شیئر کردیں جسکے بعد وہ مضمون ہمیشہ کے لئے اس خاص ڈیجٹل پلیٹفارم پر آپکے باذوق دوستوں کے ساتھ ساتھ دوسرے پڑھنے والوں کے لئے بھی موجود رہے گا۔ خوشی ہوئی تھی کہ اب ہم چند سے بہت بڑے نمبر تک اپنی بات رکھنے میں کامیاب ہورہے ہیں۔ میرے پڑھنے والوں کی تعداد وہاں کا سسٹم تقریباً تین ہزار کے لگ بھگ بتاتا تھا۔ دلی خوشی ہوتی کہ چلو آگے کو قدم بڑھ ہی رہے ہیں۔ لیکن اس بات کا احساس بھی ساتھ ساتھ ہوتا چلا آرہا تھا کہ کالمز کی مجموعی ساخت تو ٹھیک ہے مگر یہ ہمارے قابلِ احترام اساتذہ کرام جیسے وجاہت مسعود صاحب، ایاز امیر صاحب، خورشید احمد ندیم صاحب اور رؤف کلاسرا صاحب کے معیار پر کچھ پورا نہیں اترتے۔ کوئی نہ کوئی مخصوص موضوع تو ہمارے اساتذہ کی طرح ہمارے ہاں ضرور ہو جس پر ہماری رائے قارئین کو کچھ کارآمد معلومات فراہم کرسکے۔ یہ ہمارے اساتذہ اسوقت اپنی زندگیوں میں لکھنے اور پڑھنے کے روشن استعارے ہیں لہذا ہمیں آسماں ہدایت دے گا لیکن ہم کوئی موازنہ نہیں کررہے اور نہ اس قابل ہیں مگر انکے کام کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی تربیت کو شعار بنائے ہوئے ہیں۔

ان پلیٹفارمز پر موجود وہ ہماری شروعاتی مرحلے کی تحریریں تھیں لہذا کافی دوستوں کا مشورہ تھا کہ لکھتے رہنے میں تو یوں کوئی حرج نہیں ہے مگر پہلے آدمی صآحب مطالعہ بنے، تمام تربیتی مراحل سے گزرے اور وسیع نقطہء نظر سے بات کرنے اور لکھنے کا سلیقہ حاصل کرے تو ہی اسے عام طور پر پبلک کے سامنے اپنی بات رکھنی چاہیے۔ اس سب کو ہم نے بنیادی حیثیت دی اور متفق ہوئے کہ یوں ہی لکھتے رہنے سے تو کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ البتہ اس کے لئے اب واقعتاً ان اساتذہ اور دوستوں کی رائے و مشوروں کے مطابق پہلے ذرا "آدمی کو انسان" بنالیا جائے کی مصداق فکر پیدا ہوئی۔ جو ہم لکھنے پڑھنے، سوچنے سمجھنے، سیکھنے سکھانے اور دنیا کو فکری آنکھ سے دیکھنے کے مرحلے کے بعد اگر میدان میں اترتے تو بھی مضائقہ نہ تھا مگر جیسے ابتداء ہی میں عرض کیا تھا کہ یوں جو لگ پڑے تو اس لگاؤ نے تو ہمیں پھر ہر طرح ہی سے پختگی کی جانب مائل کیا۔ یہی فکر و عمل کی سطح پر متحرک رہنا دراصل انسان کو آہستہ آہستہ غیر ضروری چیزوں سے دور کرتا ہے اور اہم کاموں کے قریب کردیتا ہے۔ ہمارے ساتھ بھی اس سفر میں یہی معاملہ پیش آیا ہے۔ اب تو بس کڑھنا ہے اور واپس آکر پھر اس کام کو سلیقے سے کرنا ہے۔ کچھ پیشہ وارانہ ذمہ داریاں بھی آگے نبھانی ہیں اور کچھ آگے آنے والے وقتوں کے لئے اپنے رخ کو ٹھیک طرح سے متعین بھی کرنا ہے۔ دال دلیہ تو آسمانوں کی جانب سے ہر کسی کا متعین ہے مگر ہم تو ویسے بھی روپوں پیسوں کو نہیں پوجتے۔ بس زندگی کا سارا سفر چلتا رہے، علم و ادب کے لئے معاشی گنجائش نکل آئے اور کسی کے آگے ہاتھ بڑھانا نہ پڑے تو اس سے بہترین "لائف اسٹائل" اور کیا ہوسکتا ہے؟ لیکن یہ تو کم از کم ہم سمجھ چکے کے زندگی امتحان و آزمائش کا دوسرا نام ہے تو یہاں اگر باوقار طریقے سے رہنا ہے تو عقلی بنیادوں پر سوچنا اور وقت کو سانسوں کی مانند قیمتی چیز سمجھنا ہے۔ اختتام عباس تابش کے اس خوبصورت شعر پر کہ:

ہم سوکھے ہوئے تالاب پہ بیٹھے ہوئے ہنس
جو تعلق کو نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں
 

محمد حمزہ ٹالپر
About the Author: محمد حمزہ ٹالپر Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.