اقربا پروری: پاکستان کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ

اقربا پروری کو کرپشن کی سب سے نچلی اور کم عقلانہ قسم کہا جاتا ہے، یہ طاقت کا غلط استعمال ہے جب کوئی اپنے خاندان یا دوستوں کو اہم عہدے دیتا ہے، چاہے وہ اس کے اہل نہ ہوں، پاکستان کی معاشرتی ترقی میں ایک بڑی رکاوٹ اقرباپروری (Nepotism)، دوستی پر مبنی سفارش (Cronyism) اور پسند و ناپسند پر مبنی تقرریاں (Patronage) ہیں۔


کہتے ہیں اپنے ہی اپنوں کو گراتے ہیں لیکن آج کے دور میں ایسا نہیں آج کل اپنے ہی اپنوں کو بناتے ہیں، اور اس عمل کو ہم عام زبان میں اقربا پروری یعنی nepotism کہا جاتا ہے۔

اقربا پروری کو کرپشن کی سب سے نچلی اور کم عقلانہ قسم کہا جاتا ہے، یہ طاقت کا غلط استعمال ہے جب کوئی اپنے خاندان یا دوستوں کو اہم عہدے دیتا ہے، چاہے وہ اس کے اہل نہ ہوں، پاکستان کی معاشرتی ترقی میں ایک بڑی رکاوٹ اقرباپروری (Nepotism)، دوستی پر مبنی سفارش (Cronyism) اور پسند و ناپسند پر مبنی تقرریاں (Patronage) ہیں۔ رشتہ داروں کو ترجیح دینا، دوستوں کو فائدہ مند مواقع پر فائز کرنا، اور قابلیت و اخلاقیات کو نظر انداز کرتے ہوئے من پسند افراد کو نوازنا، ایسے عوامل ہیں جو انسانی ترقی کی راہ میں دیوار بن چکے ہیں۔اکثر پاکستان میں مسائل کا الزام ناقص پالیسیوں کو دیا جاتا ہے، لیکن اقرباپروری جیسے رویے جو ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں، ان پر کم توجہ دی جاتی ہے۔ ان عوامل نے معاشی عدم مساوات کو بڑھایا، میرٹ کی اہمیت کو کم کیا اور عوام کو ترقی کے مساوی مواقع سے محروم رکھا ہے۔
کیا یہ درست ہے کہ کسی کو صرف اس کی ذاتی تعلقات کی بنا پر منتخب کیا جائے؟ سوچیں کہ کیسا محسوس ہوتا ہے جب کوئی ایمانداری اور محنت کے باوجود ترقی حاصل نہیں کر پاتا؟ کیا رشتہ داری قابلیت سے زیادہ اہم ہے؟ اقربا پروری نہ صرف نااہل لوگوں کو مواقع فراہم کر رہی ہے بلکہ ہزاروں باصلاحیت اور قابل لوگوں کے حقوق کو بھی پامال کر رہی ہے۔

اگر ہم پاکستان کی بات کریں، تو یہاں بہت سی مثالیں موجود ہیں جہاں ایک ہی خاندان کے لوگ ایک ہی جگہ پر کام کر رہے ہیں۔ یہ سیاست، کرکٹ، تفریح اور حتیٰ کہ تعلیمی اداروں میں بھی ہوتا ہے۔ پاکستان ایک آزاد ملک ہے جو اسلام کے نام پر قائم ہوا، لیکن یہاں لوگوں کو مساوی حقوق نہیں دیے جاتے، حالانکہ اسلام میں اقربا پروری سختی سے منع ہے۔

پاکستان کی تاریخ میں شروع سے ہی لوگ اقربا پروری کا شکار رہے ہیں۔ سیاست کو ملک کی ترقی کی بجائے ذاتی فائدے کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر، سکندر مرزا کے دور میں انہوں نے تین سال کے عرصے میں پانچ وزرائے اعظم کو برطرف کیا، جس سے ہماری جمہوریت مذاق بن گئی،آج بھی سیاست میں اقربا پروری واضح نظر آتی ہے، جیسے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور مسلم لیگ (ن) میں۔ پی پی پی کو بھٹو خاندان چلاتا ہے، اور مسلم لیگ (ن) کو شریف خاندان، حتیٰ کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے بھی اقربا پروری کی مثال قائم کی جب انہوں نے جہانگیر ترین کے بیٹے کو ضمنی انتخاب میں کھڑا کیا۔

سب لوگ مساوات اور انصاف کی بات کرتے ہیں، لیکن کیا وہ اپنے وعدے پورے کرتے ہیں؟ کیا عوام صحیح طریقے سے اپنا ووٹ کا حق استعمال کرتے ہیں؟ یہ مسئلہ صرف سیاست تک محدود نہیں، کرکٹ میں بھی امتیاز پایا جاتا ہے۔ ستر سالہ کرکٹ تاریخ میں سندھیوں اور بلوچوں کو ٹیم میں شامل نہیں کیا گیا، حالانکہ ان میں بھی ٹیلنٹ موجود ہے۔

بدقسمتی سے، تعلیمی ادارے بھی اس مسئلے سے آزاد نہیں ہیں۔ یونیورسٹیوں میں اثر و رسوخ رکھنے والے لوگ اپنے رشتہ داروں کو ملازمتیں دیتے ہیں یا ان کے لیے نشستیں مخصوص کرتے ہیں، جس سے غریب اور باصلاحیت طلبہ کے لیے مواقع کم ہو جاتے ہیں۔

اسی طرح، پاکستانی شوبز انڈسٹری میں بھی اقرباپروری نے اصلی ٹیلنٹ اور خاندانی پس منظر کے درمیان حد کو مٹا دیا ہے۔ بعض فنکار اپنی محنت سے کامیاب ہوئے ہیں، لیکن خاندانی تعلق رکھنے والوں کو ان پر زیادہ ترجیحی دی جاتی ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق یہ رویے ملک کی معاشی ترقی کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں، اگر ہم معیشت کا جائزہ لیں تو 2022 میں ترقی کی شرح 4 فیصد تھی، لیکن 2023 میں یہ نصف ہو کر محض 2 فیصد رہ گئی۔ جبکہ 2023-24 کے دوران ترقی کی شرح 2.38 فیصد رہی، اور رواں سال 2025 میں معاشی ترقی کی شرح نمو محض 2 فیصد رہنے کا امکان ہے، جو ایک خطرناک حد تک سست روی کی علامت ہے۔

پاکستان کی 60 فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے، لیکن اس کے باوجود سوشل ڈیولپمنٹ انڈیکس میں ہماری درجہ بندی مسلسل گر رہی ہے۔ نوکریاں حاصل کرنے میں میرٹ کے بجائے سفارش واحد معیار بن چکا ہے، خواہ وہ وفاقی ادارے ہوں، بلدیاتی نظام، سیاسی پارٹیاں، نجی شعبہ یا غیر سرکاری تنظیمیں۔

یہ طاقت کے غلط استعمال کا نتیجہ ہے جو ہر شعبے میں تخلیقی سوچ کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے، جو انسانی وسائل کے ضیاع کا باعث بنتا ہے۔ ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق ماہر افرادی قوت کی کمی پاکستان کی صنعتی ترقی میں رکاوٹ ہے۔ بیورو آف امیگریشن کے مطابق صرف 2023 کے ابتدائی دو مہینوں میں 1 لاکھ 27 ہزار 400 پاکستانیوں نے بیرونِ ملک روزگار کے لیے ملک چھوڑا۔ 2024 میں یہ تعداد بڑھ کر تقریباً 7 لاکھ 89 ہزار 837 تک جا پہنچی، جبکہ 2025 کے شروعات میں ہی ایک نیا ریکارڈ قائم ہوا، جب 1 لاکھ 72 ہزار سے زائد پاکستانیوں نے روزگار کے لیے بیرونِ ملک ہجرت کی۔ یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ ملک میں باصلاحیت افراد کے لیے مواقع نہ ہونے کے باعث کس حد تک ذہین افرادی قوت کا انخلا جاری ہے،تحقیقات کے مطابق میرٹ کے بجائے سیاسی وفاداری یا ذاتی تعلقات کی بنیاد پر تقرریاں ذہین افراد کو ملک چھوڑنے پر مجبور کرتی ہیں، اور باصلاحیت افراد کو نظام سے خارج کر دینا ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

لیکن، اقربا پروری (nepotism) صرف یہی نہیں کہ ہم اپنے عزیزوں یا خاندان والوں کو فائدہ پہنچائیں، بلکہ اس کی کئی اقسام اور نام ہوتے ہیں جو مختلف انداز میں معاشرے میں نظر آتے ہیں۔ ان میں سے ایک قسم فیورٹزم (پسندیدگی) ہے، جو ہمیں اکثر دفاتر، اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ مثال کے طور پر، جب کوئی اُستاد اپنے پسندیدہ طالب علم کو بلاوجہ اچھے نمبر دے دیتا ہے، جبکہ کوئی قابل طالب علم پیچھے رہ جاتا ہے، تو یہ بھی اقرباپروری ہی کی ایک شکل ہے۔ اسی طرح، سرکاری ملازمتوں میں بھی اقربا پروری عام ہے۔ اگر کسی ملازم کا انتقال ہو جائے تو اُس کی جگہ اُس کے بیٹے یا بیٹی کو ملازمت دے دی جاتی ہے، چاہے وہ اس کام کے اہل ہوں یا نہ ہوں اور یہ تمام عمل نظام میں ناانصافی پیدا کرتے ہے۔

درحقیقت، ہم سب کسی نہ کسی انداز میں روزمرہ زندگی میں اقرباپروری کا حصہ بن جاتے ہیں۔ مثلاً، اگر ہمیں کوئی شخص اچھا لگتا ہے یا وہ ہم سے خوش اخلاقی سے پیش آتا ہے، تو ہم اُس کا کام فوراً کر دیتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی ذرا سی سختی سے بات کرے تو ہم اُس کا کام ٹال دیتے ہیں۔ یہ رویہ بھی ایک طرح سے نیپوٹزم میں شامل ہے، کیونکہ ہم ذاتی پسند و ناپسند کی بنیاد پر فیصلہ کر رہے ہوتے ہیں نہ کہ انصاف اور اصولوں کی بنیاد پر۔

لہٰذا، ہمیں سب سے پہلے اس مسلئے کو حل کرنے کی شروعات خود سے کرنی چاہیے پھر ہم بطور قوم اقرباپروری، جانبداری اور ذاتی مفادات پر مبنی نظام کو چیلنج کریں اور ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیں جو میرٹ، شفافیت اور انصاف پر مبنی ہو۔ اگر سیاسی جماعتیں داخلی جمہوریت کو فروغ دیں، تمام ادارے تقرریوں میں شفافیت اپنائیں، اور حکومت میرٹ کی بنیاد پر پالیسیوں پر عملدرآمد کو یقینی بنائے، تو نہ صرف ذہین اور باصلاحیت افراد کو ملک میں رہنے کے مواقع میسر آئیں گے بلکہ "ذہانت کے انخلا" جیسے سنگین مسئلے پر بھی قابو پایا جا سکے گا۔ پاکستان کی ترقی صرف اسی وقت ممکن ہے جب ہر فرد کو برابری کی سطح پر آگے بڑھنے کا موقع دیا جائے، اور قابلیت کو ہی اصل معیار تسلیم کیا جائے۔ یہی وہ راستہ ہے جو قوم کو پستی سے نکال کر ترقی، استحکام اور خودداری کی جانب لے جا سکتا ہے۔
 

Warisha Asif
About the Author: Warisha Asif Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.