تلوار، تاج اور تابع داری" نائٹ ہُڈ کا سچ"

حال ہی میں لندن کے میئر صادق خان کو برطانوی حکومت کی جانب سے “نائٹ ہُڈ” کا اعزاز دیا گیا۔ پاکستانی نژاد برطانوی شہری کے لیے یہ بلاشبہ ایک قابلِ فخر لمحہ تھا۔ میڈیا میں جشن کا سا سماں تھا۔ تصویریں وائرل ہوئیں، مبارکبادوں کے ڈھیر لگے، اور سوشل میڈیا پر صادق خان کو اقلیتوں کی کامیابی کی علامت بنا کر پیش کیا گیا۔ مگر ایک تصویر ایسی تھی جس نے پورے منظر کا زاویہ بدل دیا۔

وہ تصویر جس میں صادق خان، گھٹنوں کے بل جھکے ہوئے ہیں، اور ایک سفید فام بادشاہ اپنی تلوار ان کی گردن کے قریب رکھے کھڑا ہے۔ تصویر بظاہر ایک اعزازی لمحہ دکھاتی ہے، لیکن اس کے اندر ایک گہرا پیغام چھپا ہوا ہے، طاقت کی علامت، اطاعت کی رسم، اور نوآبادیاتی ذہنیت کا تسلسل۔

نائٹ ہُڈ کی رسم کوئی نئی بات نہیں۔ یہ قرونِ وسطیٰ کے یورپ کی باقیات میں سے ہے، جب بادشاہ اپنے جنگجوؤں کو ان کی وفاداری کے صلے میں یہ خطاب دیا کرتے تھے۔ اس رسم میں ایک مرکزی عنصر تھا، جھکنا۔ اور جھکنا ہمیشہ اختیار، طاقت اور اطاعت کا اشارہ ہوتا ہے۔ تلوار کا گردن کے قریب ہونا یہ ظاہر کرتا ہے کہ عزت بادشاہ کی مرضی سے ہے، اور موت بھی۔ یہ ایک مکمل "سرنڈر" ہے، ایک فرد کی اپنی آزادی اور خودی کو سلطنت کے قدموں میں ڈالنے کی منظوری۔

اب سوال یہ ہے کہ صادق خان جیسا شخص، جو ایک عوامی مینڈیٹ سے منتخب شدہ میئر ہے، جس کی حیثیت جمہوری اصولوں پر مبنی ہے، وہ اس قدیم شاہی رسم کے تحت جھکنے پر مجبور کیوں ہے؟ کیا یہ واقعی ایک اعزاز ہے، یا طاقت کے پرانے کھیل کی جدید شکل؟

برطانیہ کی تاریخ نوآبادیاتی ہے۔ برصغیر، افریقہ، اور دیگر خطوں میں صدیوں تک برطانوی سامراج نے حکومت کی۔ آج ان ہی نوآبادیاتی خطوں کے افراد جب "نائٹ" بنتے ہیں، تو کیا یہ استعمار کے زخموں پر مرہم ہے یا انہی زخموں کو نمک لگانے کا ایک شائستہ طریقہ؟ ایک ایسا نظام جس نے غلام بنائے، اب انہی غلاموں کی اولاد کو "سر" یا "ڈیم" بنا رہا ہے، لیکن طاقت اب بھی اسی کے ہاتھ میں ہے جس کے پاس تلوار ہے۔

صادق خان کی کامیابی اپنی جگہ، مگر یہ کامیابی اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتی جب تک طاقت کے ڈھانچے میں حقیقی تبدیلی نہ آئے۔ محض چہروں کی تبدیلی، رنگوں کی نمائندگی اور جھکی ہوئی تصویروں سے برابری قائم نہیں ہوتی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ برطانیہ ایک جمہوری ریاست ہے، جہاں ووٹ سے فیصلہ ہوتا ہے۔ مگر بادشاہت اب بھی رسمی طور پر موجود ہے، اور وہی سب سے بڑے "اعزازات" عطا کرتی ہے۔ نائٹ ہُڈ، OBE، MBE جیسے تمام اعزازات کا منبع شاہی نظام ہے، جو اصل میں جمہوری اصولوں کے متوازی چلتا ہے۔ اور یہ وہ تضاد ہے جسے مغرب نہ تسلیم کرتا ہے اور نہ ترک کرنے پر راضی ہوتا ہے ۔
یہ تضاد ہمیں بتاتا ہے کہ دنیا کے نظام میں ظاہری تبدیلی تو آئی ہے، مگر باطنی اصول آج بھی ویسے ہی ہیں جیسے صدیوں پہلے تھے۔ تلوار آج بھی طاقت کی علامت ہے، اور جھکنا آج بھی عزت کا معیار۔

صادق خان کو نائٹ ہُڈ ملنا ایک فرد کی کامیابی ہو سکتی ہے، مگر اجتماعی شعور کے لیے یہ لمحہ ایک سوال بن کر ابھرتا ہے، کیا ہم اب بھی اپنی کامیابی کو انہی نظاموں کے ذریعے ناپتے ہیں جنہوں نے ہمیں غلام بنایا؟ کیا برابری کا مطلب صرف یہی ہے کہ ہم بادشاہ کے سامنے جھکنے کے قابل ہو جائیں؟ یا پھر برابری کا مطلب ہے کہ ہم اس تخت و تاج کے تصور کو ہی چیلنج کریں؟

دنیا بدل چکی ہے، مگر دستورِ زمانہ وہی ہے۔ اور جب تک طاقت کی تلوار گردن کے قریب رہے گی، حقیقی آزادی ایک خواب ہی رہے گی۔
 

Fazal khaliq khan
About the Author: Fazal khaliq khan Read More Articles by Fazal khaliq khan: 75 Articles with 72542 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.