انسانی معاشرے کی فلاح، امن اور توازن اس وقت ممکن ہے جب
ہر فرد اپنے دائرۂ کار، مقام اور اختیار کے مطابق اپنی ذمہ داری کو نہ صرف
سمجھے بلکہ اُسے بخوبی نبھائے۔ دین اسلام نے ہمیں فرد کی ذاتی زندگی سے لے
کر ریاستی نظام تک، ہر سطح پر ایک ایسا جامع اور متوازن ضابطۂ حیات عطا کیا
ہے، جو محض نظریاتی نہیں بلکہ انتہائی عملی بھی ہے۔ اس ضابطے کا ایک درخشاں
اور بامعنی اصول نبی اکرم ﷺ کے ایک مبارک ارشاد میں یوں جلوہ گر ہوتا ہے۔
عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: أَلَا
كُلُّكُمْ رَاعٍ، وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، فَالْأَمِيرُ
الَّذِي عَلَى النَّاسِ رَاعٍ، وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ،
وَالرَّجُلُ رَاعٍ عَلَى أَهْلِ بَيْتِهِ، وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْهُمْ،
وَالْمَرْأَةُ رَاعِيَةٌ عَلَى بَيْتِ بَعْلِهَا وَوَلَدِهِ، وَهِيَ
مَسْئُولَةٌ عَنْهُمْ، وَالْعَبْدُ رَاعٍ عَلَى مَالِ سَيِّدِهِ وَهُوَ
مَسْئُولٌ عَنْهُ، أَلَا فَكُلُّكُمْ رَاعٍ، وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ
رَعِيَّتِهِ (صحیح مسلم، حدیث نمبر:4734)
ترجمہ:
نبی اکرم ﷺ سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا :’’ سن رکھو ! تم میں سے ہر شخص
حاکم ہے اور ہر شخص سے اس کی رعایا کے متعلق سوال کیا جائے گا ، سو جو امیر
لوگوں پر مقرر ہے وہ راعی ( لوگوں کی بہبود کا ذمہ دار ) ہے اس سے اس کی
رعایا کے متعلق پوچھا جائے گا اور مرد اپنے اہل خانہ پر راعی ( رعایت پر
مامور ) ہے ، اس سے اس کی رعایا کے متعلق سوال ہو گا اور عورت اپنے شوہر کے
گھر اور اس کے بچوں کی راعی ہے ، اس سے ان کے متعلق سوال ہو گا اور غلام
اپنے مالک کے مال میں راعی ہے ، اس سے اس کے متعلق سوال کیا جائے گا ، سن
رکھو ! تم میں سے ہر شخص راعی ہے اور ہر شخص سے اس کی رعایا کے متعلق پوچھا
جائے گا ۔‘‘(صحیح بخاری و مسلم)
یہ حدیث نہایت جامع اور ہمہ گیر ہے۔ یہ ہمیں بتاتی ہے کہ انسان کے ہر
رُتبے، ہر رشتے، اور ہر اختیار کے پیچھے ایک ذمے داری چھپی ہوئی ہے، اور ہر
ذمے داری کے بارے میں ایک دن سوال ضرور ہوگا۔ اس کائناتی اصول کو سمجھنا
اور اپنانا ہر باشعور مسلمان کا فرض ہے۔
حکمران، عدل و شفقت کا امین
معاشرے کا سب سے اعلیٰ منصب کسی ریاست، محکہ یا ادارے کی قیادت کا ہوتا ہے۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ امیر، بادشاہ یا حاکم، رعایا کا نگہبان ہے۔ یعنی
وہ اپنے منصب پر محض حکم چلانے نہیں بلکہ عدل کرنے اور رعایا کے حقوق ادا
کرنے کے لیے بیٹھا ہے۔ اگر کوئی بھوکا سو گیا، مظلوم انصاف سے محروم رہا،
یا کسی کا حق تلف ہوا تو حاکم کو اس کا جواب دینا ہوگا۔ ایک حکمران کی اصل
کامیابی تخت و تاج اور کرسی و اختیار میں نہیں بلکہ انصاف، شفقت اور خدمت
میں ہے۔
شوہر، گھر کا محافظ و معلم
مرد کو گھر کا قوام بنایا گیا ہے، لیکن یہ قوامیت کسی تسلط یا سختی کا نام
نہیں، بلکہ محبت، فہم و فراست اور راہنمائی کا عنوان ہے۔ شوہر کا فرض ہے کہ
وہ اپنی بیویوں اور بچوں کی جسمانی، ذہنی اور روحانی ضروریات کا خیال رکھے۔
ان کی تعلیم و تربیت، کردار سازی اور معاشی کفالت اس کی ذمہ داریوں میں
شامل ہیں۔ اگر وہ خود دین سے غافل ہو، اور اہلِ خانہ کو بھی غفلت میں چھوڑ
دے تو کل اسے اپنے اس طرزِ عمل کا جواب دینا ہوگا۔ وہ عنداللہ ماخوذ ہوگا۔
بیویاں، گھر کی روح و سلیقہ
خاتونِ خانہ کے متعلق نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ وہ اپنے شوہر کے گھر اور
اولاد کی نگہبان ہے۔ گھر صرف اینٹوں اور دیواروں اور عمارت کا نام نہیں،
بلکہ جذبات، رشتوں اور محبتوں کا گہوارہ ہے، اور اس گہوارے کی معمار عورت
ہے۔ اس کا حسنِ سلوک، صبر، تربیت، صفائی اور حسنِ تدبیر پورے گھرانے کو
سنوار دیتا ہے۔ اگر عورت اپنی ذمہ داری کا احساس رکھے تو گھر جنت کا منظر
پیش کرتا ہے۔ اور اگر ایسا نہ ہو تو گھر جہنم کا گڑھ بن جاتا ہے۔ یہ عورتوں
کی ذمہ داری ہے کہ گھر کو اپنے سگھڑ پن اور نگہبانی کے ذریعے جنت کا ٹکڑا
بنا دے نہ کہ جہنم کا گھڑہ۔
ملازم، دیانت کا علمبردار
اگرچہ حدیث میں العبد یعنی "غلام" کا ذکر ہے، لیکن عصرِ حاضر میں اسے
ملازم، کارکن یا ماتحت کے مفہوم میں لیا جا سکتا ہے۔ ایک ملازم اپنے ادارے،
مالک یا افسر کے مال و وسائل کا نگہبان ہوتا ہے۔ اس پر لازم ہے کہ وہ
ایمانداری سے کام کرے، وقت کی قدر کرے، اور ادارے کے مفاد کو ذاتی مفاد پر
ترجیح دے۔ خیانت، سستی، جھوٹ اور بددیانتی وہ بیماریاں ہیں جو نہ صرف روزی
میں بے برکتی کا باعث بنتی ہیں بلکہ آخرت میں گرفت کا سبب بھی بنتی ہیں۔
ایک ذمے دار معاشرے کی تشکیل
اس حدیثِ نبوی ﷺ سے ہمیں یہ سادہ مگر عظیم درس ملتا ہے کہ انسان صرف حقوق
کا طالب نہ ہو بلکہ فرائض کا ادراک بھی کرے۔ ایک مثالی معاشرہ تبھی وجود
میں آتا ہے جب افراد اپنی اپنی جگہ راعی بن کر کردار ادا کریں۔ کوئی بھی
رشتہ، کردار یا عہدہ ذمہ داری سے خالی نہیں۔ والدین، اساتذہ، افسران،
ملازمین، شوہر، بیویاں، اولاد، سب اپنے دائرے میں نگہبان ہیں، اور سب سے
ایک دن سوال کیا جائے گا۔
آئیے، ہم اس حدیثِ نبوی ﷺ کو صرف زبانی نہ پڑھیں بلکہ اپنے دل میں اُتاریں،
اپنے رویّوں میں شامل کریں اور اپنی زندگی کا مرکز و محور بنائیں۔ کیونکہ
یہی شعورِ جواب دہی ہے جو ہمیں ایک مہذب، عدل پرور، اور خدا ترس معاشرہ
بنانے میں مدد دے سکتا ہے۔
اور یاد رکھیے، جو اپنی رعیت کا سچا راعی ہوتا ہے، وہی دنیا و آخرت میں
کامیاب ہوتا ہے۔
اللہ کا فرمان ہے۔
فَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ (الزلزال:7)
ترجمہ:
"جو ذرہ برابر بھی نیکی کرے گا، وہ اس کا بدلہ دیکھے گا۔"
|