رات دوبجے اپنی بیوی کوایک اجنبی کی کار سے اترتے اوراپنے
گھرمیں چوروں کی طرح داخل ہوتے ہوئے دیکھا توشوہرآپے سے باہر ہوگیا ۔بچے
سورہے تھے اسلئے شوہر نے قدرے دھیمی آوازمیں اپنی اہلیہ سے کہا میں پچھلے
کئی دنوں سے تمہاری آنیاں جانیاں اورمن مانیاں نوٹ کررہا ہوں۔تمہارے موبائل
فون پراجنبی لوگ" کال" کرتے ہیں اورتم کسی بیچلر "گرل"کی طرح مجھے بتائے
بغیر گھر سے باہر چلی جاتی ہو۔تم نے مجھ سے رقم کاتقاضاکرنابھی چھوڑدیا ہے
لیکن اس کے باوجوداب تمہارا پرس نوٹوں اوربیڈروم سوٹوں سے بھرا رہتا
ہے۔تمہارے پاس زیورات اورقیمتی تحائف کہاں سے آتے ہیں۔شوہرمسلسل بولتا رہا
اوراس نے اپنی اہلیہ کی مجرمانہ خاموشی پراسے پوری طاقت سے جھنجوڑدیا
۔ہمارے پاس اﷲ تعالیٰ کادیا ہواسب کچھ ہے پھرتم نے رسوائی اوربدنامی سے
آراستہ یہ تاریک راستہ کیوں چنا ۔شوہرنے بیوی کوفائنل وارننگ دیتے ہوئے کہا
،آج سے تمہارا گھر سے باہرنکلنا بند اوراگرتم اب بھی میری عزت روندنے سے
باز نہ آئی توپھرزندگی بھر کیلئے طلاق کا طوق تمہارا مقدربنادوں گا۔بیوی نے
کسی اظہارندامت کے بغیر اپنے شوہر سے کہا ،میں ایک شرط پریہ ناپسندیدہ کام
چھوڑسکتی ہوں ۔شوہرنے اپنا شدیدغصہ کنٹرول کرتے ہوئے کہا بے حیاء عورت شرم
سے ڈوب مرنے کی بجائے الٹا تم نے شرط رکھ دی ہے ۔اچھاتوبتاؤتمہاری کیا شرط
ہے ،میں ہرقیمت پر اپنے بچوں کی ماں کوگناہوں کی بندگلی سے باہرنکالنا
چاہتا ہوں ۔بیوی نے کہا ، اگرتم آج سے تین ماہ تک بھیک مانگ کرمیری ضروریات
اورخواہشات پوری کر وتومیں بھی ہربرا کام چھوڑدوں گی۔شوہر نے سوچا یہ توبہت
آسان کام ہے ،وہ اپنی بیوی کی شرط قبول کرتے ہوئے تین ماہ کیلئے بھکاری بن
گیا ۔شوہر دن بھرکی خیرات میں ملی رقوم سے اپنی بیوی کی ضروریات اورخواہشات
پوری کرتا رہا لیکن تین ماہ بعد جب بیوی نے اپنے شوہرسے کہا تم نے میری شرط
پوری کردی ہے سو میں عہد کرتی ہوں آج کے بعد تمہاری عزت پرآنچ نہیں آنے دوں
گی لہٰذاء تم بھی آج سے دوسروں کے آگے اپنے ہاتھ نہ پھیلانے کا وعدہ کرو
تواس پرشوہرنے جھٹ سے جواب دیاتم نے جوکرناہے کرولیکن میں کسی قیمت پر بھیک
مانگنا نہیں چھوڑوں گا۔اگرکوئی ان شوقیہ بھکاریوں کی فنکاریوں کودیکھتے
ہوئے انہیں اس دلدل سے باہر نکالنا بھی چاہے تویہ اس کاہاتھ جھٹک بلکہ اسے
دھتکار دیتے ہیں۔کوئی بھی لت یعنی بری عادت آسانی سے نہیں چھوٹ سکتی ۔
جومردوزن اپنی معیشت یعنی ایزی منی کیلئے جائزاورناجائز شارٹ کٹ استعمال
کرتے ہیں انہیں محنت ومشقت سے فرار کی عادت ہوجاتی ہے۔ آج ہردوسراانسان
اپنے وسائل میں بہتات کاخواہاں ہے ،ہم اپنی روزی اوراپنے رزق میں رحمت
،روحانیت،طمانیت اور برکت کی اہمیت فراموش کر تے جارہے ہیں۔راقم کے نزدیک
ہرچورراستہ بدی اوربرائی تک رسائی سہل بناتا ہے ۔ٹک ٹاک سمیت سوشل میڈیا کی
متعدد" ایپ" سے معاشرے میں بہتان ، جھوٹ، غیبت ، بدزبانی ،بدگمانی ،
بدنگاہی،بدچلنی ،بے حیائی ،عریانی،فحاشی،جسم فروشی اورمنشیات فروشی سمیت
طرح طرح کے" عیب" عام ہورہے ہیں۔اچھے اچھے خاندانوں کی بیٹیوں اوربیٹوں
کوسوشل میڈیا پر" شہرت" کیلئے اپنے باپ دادا کی" عزت" روندتے ہوئے صاف
دیکھاجاسکتا ہے۔میں پھر کہتا ہوں "شہرت" کی ہوس" شہوت" سے بدتر ہے، شہرت
کیلئے معاشرت اوراخلاقیات کی حدودسے تجاوزکرنا اوراپنے ہاتھوں سے اپنی
اوراپنوں کی عزت روندنا اسلامیت اورانسانیت کیلئے زہرقاتل ہے۔جب تک نجی
اورناجائزخواہشات کیلئے باپ دادا کی غیرت کاقتل عام ہوتا رہے گااس وقت تک
غیرت کے نام پرمردوزن قتل ہوتے رہیں گے ۔بظاہر تعلیم یافتہ مردوزن بھی شہرت
کیلئے اپنے ہاتھوں سے اخلاقیات کادامن چھوڑرہے ہیں اوربدقسمتی سے ہرعمر
کاانسان اس دوڑمیں شریک ہے۔"سوشل" میڈیا ہماری قومی حمیت اورہمارے اجتماعی
اعصاب کوبری طرح سے"شل"کررہا ہے ۔مٹھی بھر مخصوص بلکہ منحوس" کنجر" ہماری
اسلامی نظریاتی ریاست کو"بنجر " نہیں بناسکتے،ورلڈکالمسٹ کلب کے کالم نگار
اپنے اپنے قلم سے ان فتنوں کے سرقلم کرتے رہیں گے۔ اب شوبز کے چھچھورے
مردوزن نجی تقریبات میں کھلم کھلا آپس میں معانقہ کرتے ہیں لیکن ہمارے
سرکاری حکام ، قانون دان اورعلماء ان کامحاسبہ کرنا تودرکنار اس پربات تک
نہیں کرتے۔ اب کسی بھی نجی ٹی وی چینل کا کوئی ڈرامہ تودرکنار کمرشل بھی
ماؤں،بہنوں اوربیٹیوں کے ساتھ نہیں دیکھی جاسکتی ۔ کوئی عزت دار ناظر اپنے
بیوی بچوں کے ساتھ یہ بیہودہ مناظر نہیں دیکھ سکتا ۔بے حیائی کاطوفان یقینا
مہنگائی سے بڑا بحران ہے، اس سیلاب کے آگے فوری بندباندھنا ہوگا۔قومی میڈیا
پر کنجروں کوپروموٹ کرتے وقت اسلامی ریاست کی رِٹ کیوں ماند یا معدوم
پڑجاتی ہے، جوکنجروں اوربھانڈوں کی پذیرائی کررہے ہیں وہ یادرکھیں یہ گناہ
جاریہ کے سوا کچھ نہیں۔
پچھلے دنوں اسلام آبادمیں سوشل میڈیا پرمتحرک ثناء یوسف نامی طالبہ کو اس
کے بیڈروم میں قتل کردیا گیا، اس دلخراش اوراندوہناک واقعہ پر معاشرے کے
مختلف طبقات کی طرف سے اپنے اپنے انداز میں اظہارخیال کیا گیا ۔عبرت مارچ
کی حامی مٹھی بھر عورتیں بھی پوائنٹ سکورنگ کیلئے ایک جلوس کی صورت میں
منظرعام پرآئی تھیں تاہم معاشرے کی باوفا،باصفا اورباحیاء عورتوں نے اس بار
بھی انہیں مسترد کردیا۔کسی نے اس واقعہ کو"آنر کلنگ" کہا توکسی نے اس قتل
کو قاتل سے انکار برداشت نہ ہونے کاشاخسانہ قراردیا۔ایک طبقہ سمجھتا ہے
ثناء یوسف بھی قوم کی مخصوص گمراہ بیٹیوں میں سے ایک اورشہرت کی اسیر تھی
جبکہ اس کابہیمانہ قتل آبیل مجھے مار کانتیجہ تھا۔یادرکھیں اگرہماری زندگی
میں" زیادہ لوگ" ہوں توہمیں "زیادہ روگ" ملتے ہیں۔سوشل میڈیا پر شہرت ملنے
کے بعد اجنبی افراد کواپنی زندگی میں" داخل" کرنا اورانہیں "دخل" دینے کی
اجازت دینا خطرات سے خالی نہیں، سوشل میڈیا ایک آدم خور بھوت کی مانند
ہمارے بچوں کی صلاحیتوں کونگل رہا ہے ،اب ہمارے نوجوان اپنازیادہ وقت
مادرعلمی کی بجائے سوشل میڈیا پرگزارتے اورمایا کیلئے شارٹ کٹ تلاش کرتے
ہیں جہاں آپ کوئی بھی ویڈیو گیم کھیلتے ہوئے ڈھیروں پیسے بناسکتے ہیں یعنی
اب باعزت روزگار کیلئے تعلیمی اسناد نہیں بلکہ سوشل میڈیا پروائرل ہونے کی
ضرورت ہے ۔فالورزاورڈالرز کی دوڑمیں بڑے بڑے قدآورکردار بری طرح بے نقاب
اوربرباد ہورہے ہیں۔ہر دوسرا فرد "مایا "اور"سرمایہ" ڈھونڈ جبکہ اپنے شانوں
پرگنا ہوں کابھاری بوجھ ڈھو رہا ہے۔ثناء یوسف کاقاتل بروقت قانون کی گرفت
میں آگیا کیونکہ وہ کوئی عادی یاپیشہ ور مجرم نہیں تھا سو اس کی باآسانی
گرفتاری اٹل تھی ۔معاشرے کے زیادہ تر لوگ تصویرکاایک رخ دیکھتے ہوئے
اورسچائی تک رسائی یقینی بنائے بغیر محض اپنی جانبدارانہ رائے نہیں بناتے
بلکہ اپنے جذبات اورتعصبات کی بنیاد پر اپنا فیصلہ بھی سنادیتے ہیں۔ ثناء
یوسف کے قتل کومحض انکار کانتیجہ قراردینا کافی نہیں کیونکہ جائے واردات سے
تفتیشی کوکسی فورس انٹر ی کے نشانات نہیں ملے،قاتل میزبان کی مرضی سے گھر
میں داخل ہواتھا ۔فیصل آباد میں مقیم قاتل کے پاس اسلام آباد کی ثناء یوسف
کاسیل نمبر اورہوم ایڈریس کہاں سے اورکیوں آیا، اگر پیشہ ورانہ انداز سے
تحقیقات کی گئی تو تفتیشی کوبہت کچھ ملے گا۔قاتل اورمقتول کے درمیان جس طرح
کابھی رابطہ تھا ،کوئی انسان محض اپنی انا کیلئے کسی دوسرے کی زندگی کوفنا
نہیں کرسکتا۔جس قاتل نے کسی بھی انسان کی ناحق جان لی وہ ہرگزقابل رحم نہیں
،معاشرے میں پائیدار امن برقرار رہے اس کیلئے ہرقاتل کوکیفرکردار اورتختہ
دارتک پہنچاناہوگا۔یادرکھیں بروقت اورسخت سزاؤں کے بغیر خطاؤں کاباب
بندنہیں ہوگا۔
سوشل میڈیا پرمتحرک مخصوص خواتین اجنبی افرادیا نام نہاد فیس بک فرینڈزکے
ساتھ اپنے راز ،نجی سیل نمبرزاورفوٹوز کیوں شیئر کرتی ہیں،کیا ان کیلئے
سوشل میڈیا پراداؤں کے نام پرنامحرم افراد سے رقوم بٹورنا اور قیمتی تحائف
وصول کرناجائز ہے ۔ معذرت کے ساتھ ماضی میں کئی فلمی اداکاراؤں کو ان کے
عہدشباب میں نام نہادعشاق کے درمیان رقابت اورعداوت کی بنیاد پرقتل کیا گیا
،یہ مقتول ہیروئنز ایک وقت میں ایک سے زیادہ امراء اوربااثرافراد کے ساتھ
ناجائزمراسم استوارکرتیں،ان سے نقدرقوم سمیت کئی طرح کے مالی فائدے حاصل
کرتیں لیکن متعدد معاشقوں کا راز فاش ہونے پران کے عشاق میں سے کوئی نہ
کوئی انہیں ہمیشہ کیلئے خاموش کردیتاتھا ۔میں اسلامی ریاست کے ارباب
اقتدارواختیار سے پوچھتا ہوں ٹک ٹاک پرشہرت اورشہوت کیلئے باہمی رضامندی سے
اپنی عزت نیلام اور "بدنام ہوں گے توکیا نام نہ ہوگا"کی مجرمانہ سوچ کے تحت
دانستہ ویڈیولیک کرکے اپنا اوراپنے آشنا کانام بدنام کرنیوالی مخصوص خواتین
میں کسی کوآج تک سزا کیوں نہیں ملی ۔بدقسمتی سے نازیبا ویڈیولیک اوربدنام
ہونے کے بعد ان مخصوص ٹک ٹاکرز کے فالورزاورڈالرز کی گنتی بڑھ جاناایک
بڑاسوالیہ نشان ہے۔ابھی تک انہیں ان فرینڈ کرنے کاکوئی ٹرینڈ نہیں دیکھا
گیا ۔میں کوئی مفتی نہیں ہوں لیکن راقم کی بات یاد رکھیں سوشل میڈیا پراپنی
اوراپنوں کی عزت کی قیمت پر شہرت کی عارضی بلندیوں کوچھونے والے اوچھے
کرداروں کوطرح طرح کے القابات سے نوازنا اورانہیں پروموٹ کرنایقینا گناہ بے
لذت کے زمرے میں آتا ہے۔یادرکھیں جہاں عزت دار خاندان بھی محض شہرت کی
بنیادپرخودساختہ علامہ ناصر ، چاہت فتح علی خان اورباتھ روم فیم سہیل وڑائچ
کواپنی تقریبات میں مدعوکرنا شروع کردیں وہاں سے اجتماعی حمیت اوراخلاقیات
کاجنازہ اٹھ جاتا ہے۔
|