جب سے حنیف عباسی نے پاکستان ریلوے کی وزارت سنبھالی ہے
تب سے اس محکمہ کے افسران نے بھی کچھ ہو ش پکڑی ہے ورنہ تو یہ واحد محکمہ
ہے جوآئے روزتنزلی کا شکار ہو رہا ہے ان کے مقابلہ میں ایک یا دو بسوں سے
کام شروع کرنے والوں نے آج ملک بھر میں اپنا نیٹ ورک بنا رکھا ہے اور ایک
محکمہ ریلوے ہے جس کے اکثر ریلوے اسٹیشنوں کا آج نام ونشان بھی مٹ چکا ہے
یہ کوئی بہت پرانی بات بھی نہیں ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے یہ حال ہوگیاریلوے
میں موجود آج بڑے بڑے عہدوں پر براجمان افسر وں کی پوری سروس کا ریکارڈ
نکلواکر انکے کام چیک کیے جائیں تو کسی کے حصہ میں کوئی قابل فخر کام نہیں
ہوگا بلکہ ریلوے کو بگاڑنے ،لوٹنے اور تباہ وبرباد کرنے میں انہی کا سب سے
زیادہ حصہ نکلے گا بڑی بڑی کوٹھیوں میں نوکروں کی فوج کے ساتھ ساری عمر
عیاشی کرنے والوں کی دم پر حنیف عباسی نے پاؤں رکھا تو ان سب کو مصیبت پڑ
گئی ریلوے پر سفر کرنے والے مسافر خوب جانتے ہونگے کہ جب وہ سفر کے اختتام
پر اپنی منزل پر پہنچتے ہیں تو پہچانے نہیں جاتے مٹی اور دھول میں دبے چہرے
اور بکھرے بالوں کے ساتھ جب مسافر اسٹیشن پر اترتے ہیں تو ان کو لینے والے
پریشان ہو جاتے ہیں ٹرین کے اندر دروان سفر میں مٹی کا طوفان رکنے کا نام
ہی نہیں لیتاباتھ روم کے قریب سے بھی گذرنے کو دل نہیں کرتا کھڑکیاں بند
نہیں ہوتی جبکہ انکے مقابلہ میں پرائیوٹ اے سی بسیں کرایہ میں سستی اور سفر
میں آرام دہ ہیں ریلوے کی یہ حالت ریلوے مزدور نے نہیں کی بلکہ اس کے ذمہ
دار انتظامی عہدوں پر بیٹھے ہوئے سبھی افسران ہیں جنکی تربیت سے ایک عام
ٹکٹ چیکر بھی بدتمیز اور بدمعاش بنا ہوا ہے گذشتہ روز حنیف عباسی نے عید کی
لمبیاں چھٹیاں گذارنے والے کھابے داروں کی ہلکی پھلکی جھاڑ پونچھ کرتے ہوئے
انہیں غیرت دلانے کی کوشش کی ہے کہ جرمن کوچز میں لگانے کے لیے اے سی کے 12
یونٹس آئے ہوئے ہیں جنہیں کوچز میں لگانے کے بجائے آپ لوگ چھٹیوں پر تھے
کوچز کی حالت دیکھیں آپ نے عید کی چھٹیاں کیسے منا لیں اگر ٹرینوں کے اے سی
بند ہوتے رہے تو آپ کے دفاتر میں بھی نہیں چلیں گے اس موقعہ پر حنیف عباسی
نے ایک اور بات بڑے کام کی کہی کہ 69 لوکوموٹیوز اسکریپ میں بیچنے نہیں دوں
گا اور انہیں قابل استعمال بنایا جائے گا یہ وہی لوکو موٹو ہیں جنہیں کبھی
بڑی دھوم دھام سے لایا گیا تھا لیکن پرزوں کی چوری اور بروقت درستگی نہ
ہونے سے آج وہ کباڑ میں پڑے ہوئے ہیں مجھے امید ہے کہ حنیف عباسی آج تک
ریلوے میں آنے والے سبھی وزرا سے مختلف ثابت ہونگے اور انکا دور ریلوے میں
سنہری حروف سے لکھا جائیگا کیونکہ یہ افسران کی بدمعاشیوں سے ڈرتے نہیں اور
نہ ہی اپنے بندوں کو ریلوے میں بھرتی کروائیں گے بلکہ ریلوے ورکشاپس میں
سینکڑوں بوگس بھرتی ہونے والوں کے خلاف بھی ایکشن لیں گے جو مفت میں ریلوے
کو کھا رہے ہیں اور انکے ساتھ ساتھ ایسے افسران کو بھی نشان عبرت بنائیں گے
جنہوں نے گھوسٹ ملازمین بھرتی کررکھے ہیں ریلوے کی زمینوں پر قبضے کروانے
والوں کا بھی محاسبہ کرینگے خواہ اس میں چیئرمین ریلوے ہی ملوث کیوں نہ ہو
ہمارا ریلوے نظام ایک دو برس میں خراب نہیں ہوا بلکہ یہ نصف صدی کا قصہ ہے
ریلوے کے سبھی افسران نے بہت محنت اور مشقت کی ہے کہ ہمارا ریلوے نظام ختم
ہوجائے جو ختم تو نہ ہوا بلکہ ختم ہونے کے قریب قریب ضرور ہے ہمارا یہی
ریلوے نظام جو کبھی ملک کی شہ رگ سمجھا جاتا تھالیکن آج بدعنوانی اور
بدحالی کا شکار ہے ایک ایسا نظام جو لاکھوں افراد کو سستی اور محفوظ سفری
سہولیات فراہم کر سکتا تھا آج خود اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے چھوٹے ریلوے
اسٹیشن نہ صرف بند کردیے گئے ہیں بلکہ انکا نام ونشان بھی ختم کردیا گیا ہے
ٹرینیں اکثر تاخیر کا شکار ہوتی ہیں انجن اور بوگیاں پرانی اور خستہ حال
ہیں پٹریاں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں اسٹیشنوں پر صفائی کا فقدان ہے جہاں
مسافروں کو بنیادی سہولیات بھی میسر نہیں ہیں ریلوے کی رگوں میں دوڑتاہوا
کرپشن کا زہرہی اصل میں ریلوے کی بدحالی کی سب سے بڑی وجہ ہے ماضی اور حال
میں اعلیٰ عہدیداروں سے لے کر نچلے عملے تک بدعنوانی نے اس نظام کو کھوکھلا
کررکھا ہے انجنوں، بوگیوں اور دیگر ساز و سامان کی خریداری میں بڑے پیمانے
پر بے ضابطگیاں اور مبینہ کمیشن خوری کی وجہ سے ٹرینیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار
ہیں ٹھیکوں اور ٹینڈرز کی الاٹمنٹ میں میرٹ کی بجائے ذاتی مفادات کو ترجیح
دی جاتی ہے جس سے ناقص کام،ریلوے کو نقصان اور کارکردگی پر منفی اثر پڑتا
ہے اس کے علاوہ ٹکٹوں کی چوری، مال برداری میں ہیر پھیر اور دیگر طریقوں سے
ریلوے کی آمدنی کو نقصان پہنچایا جاتا ہے کرپشن کے ساتھ ساتھ بدانتظامی اور
لاپرواہی نے بھی ریلوے کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے اس وقت دنیا بھر
میں ریلوے کے نظام جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہو رہے ہیں پاکستان ریلوے اب بھی
پرانے اور فرسودہ طریقوں پر چل رہا ہے ریلوے ملازمین کی مناسب تربیت کا
انتظام نہیں جس سے پیشہ ورانہ اور میرٹ پر مبنی فیصلے نہیں ہو پاتے افسران
کی نااہلی سے ریلوے مسلسل خسارے میں ہے اور اسے چلانے کے لیے حکومت کو
بھاری سبسڈی دینا پڑتی ہے اگر دیکھا جائے توپاکستان ریلوے کو اس دلدل سے
نکالنا ناممکن نہیں لیکن اس کے لیے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے اور یہ کام
حنیف عباسی بڑے احسن انداز میں کرسکتے ہیں عرصہ دراز سے انتظامی سیٹوں پر
قبضہ جمائے ہوئے سست اور کاہل افسران کو فوری تبدیل کیا جائے اسکے ساتھ
ساتھ کرپشن کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑنا ہوگا سخت احتسابی عمل، شفافیت اور
بدعنوان عناصر کو کڑی سزائیں دینا ضروری ہے تمام معاملات میں شفافیت کو
یقینی بنایا جائے، ٹینڈرز اور خریداریوں میں احتساب کا کڑا نظام نافذ کیا
جائے اور میرٹ کو ہر صورت میں ترجیح دی جائے ریلوے کے نظام کو جدید
ٹیکنالوجی سے لیس کیا جائے نئے انجن اور بوگیاں خریدی جائیں اور پٹریوں اور
سگنل کے نظام کو بہتر بنایا جائے ملازمین کی استعداد کار کو بڑھانے کے لیے
جدید تربیت فراہم کی جائے ریلوے کے انتظامی معاملات کو سیاسی مداخلت سے پاک
کر کے پیشہ ورانہ بنیادوں پر چلایا جائے ریلوے کو مالی طور پر خود مختار
بنانے کے لیے اقدامات کیے جائیں جس میں کرایوں کوعام بس کے کرایوں سے کم
کرکے مال برداری کی خدمات کو بہتر بنایا جائے اگر ایسا نہ ہوسکا تو پھر یاد
رکھیں کہ پاکستان ریلوے کرپشن، بدانتظامی اور لاپرواہی کی وجہ سے سنگین
صورت اختیار کر چکا ہے اگر فوری اور ٹھوس اقدامات نہ کیے گئے تو یہ قیمتی
قومی اثاثہ مکمل طور پر تباہ ہو جائے گا حکومت، عوام اور ریلوے کے تمام
اسٹیک ہولڈرز کو مل کر اس نظام کو بچانے اور اسے دوبارہ ملک کی ترقی میں
اہم کردار ادا کرنے کے قابل بنانے کے لیے کام کرنا ہوگا ایک فعال اور جدید
ریلوے نظام نہ صرف معاشی ترقی میں معاون ہوگا بلکہ عام آدمی کو سستی اور
محفوظ سفری سہولیات بھی فراہم کرے گا۔ |