دلدار پرویز بھٹی کو اس جہاں فانی
سے رخصت ہوئے چودہ برس ہوگئے ہیں دنیا کی بے ثباتی تو اپنی جگہ مسلم ہے لیکن اس
طرح سے کوئی شخص لوگوں کو ہنساتے اور ان کا دل لبھاتے ہوئے رخصت ہوجائے گا
ناقابل یقین امر ہے دلدار پرویز بھٹی 30 اکتوبر 1994ء کو اس وقت خالق حقیقی سے
جا ملے جب وہ شوکت میموریل ہسپتال کی تعمیر کے سلسلے میں چندہ جمع کرنے امریکہ
گئے ہوئے تھے۔
دلدار بھٹی ممتاز کیمپئر، ماہر تعلیم کالم نگار اور فنکار ہی نہیں عظیم المرتبت
انسان بھی تھے جو دوسروں کو تکلیف میں مبتلا دیکھتے تو تڑپ اٹھتے اور ان کی ہر
ممکن مدد کرتے مجھے دلدار پرویز بھٹی کو انتہائی قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔
میں جانتا ہوں کئی بیواﺅں کے گھروں کے چولہے ان کی دی ہوئی امداد سے جلتے تھے ۔
وہ نادار لوگوں کی مدد کرنے اور یتیم بچیوں کی شادی کروانے میں ہمیشہ معاونت
کرتے رہے اور اپنی امارت کا یہ عالم تھا کہ رحلت کے وقت ان کے بینک اکاﺅنٹ میں
صرف دس ہزار روپے تھے۔
لاہور میں ایک شاعر کی بیٹی کی شادی کے موقع پر مختلف شاعر اور ادیب حضرات مدعو
تھے کسی ادیب نے دلدار بھٹی کی عدم موجودگی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ دلدار کو
آج تو آنا چاہیے تھا اس پر لڑکی کا باپ چپ نہ رہ سکا اس نے کہا دلدار خود تو
نہیں آیا لیکن میں نے آپ لوگوں کی آﺅ بھگت کے لیے گوشت کی جو دیگیں پکوا رکھی
ہیں وہ دلدار کے پیسوں سے تیار ہوئی ہیں۔
دلدار بھٹی جو بظاہر انتہائی تیز طرار دکھائی دیتے تھے اندر سے اتنے ہی سادہ
تھے۔ یہی وجہ ہے کہ دلدار کا ایک دوست انکا پلاٹ بیچ کر تقریباً دو لاکھ روپے
ہضم کر گیا دراصل وہ خود اتنے صاف آدمی تھے کہ انہیں کبھی دوسروں پر شک ہوتا ہی
نہیں تھا۔
میں اور توفیق بٹ اکثر چھٹی والے دن دلدار صاحب کے ہاں چلے جایا کرتے تھے ایک
دفعہ ہم گئے تو انہوں نے مختلف چیزیں میز پر سجانا شروع کردیں جب سب چیزیں رکھ
چکے تو کہنے لگے آﺅ بھئی ناشتہ کرلیں ہم نے کہا جی ہم تو ناشتہ کرکے آئے ہیں تو
قدرے برہمی سے کہا ”میں گھنٹے دا قوالی کرن ڈیاں ساں تسیں اوس ویلے کیوں نئیں
بولے“۔ دلدار کے چاہنے والے انہیں کبھی نہ بھلا پائیں گے میں نے عطاءالحق قاسمی،
امجد اسلام امجد، ڈاکٹر اجمل نیازی، عطاءاللہ عیسی خیلوی، شوکت علی، طارق فاروق،
حسین شاد، اور دیگر احباب کو دلدار کے لیے دھاڑیں مار کر روتے ہوئے دیکھا۔ صاحبِ
کتاب شاعر جناب انجم یوسفی مرحوم نے روتے ہوئے کہا کہ مجھے لگتا ہے میں نے یہ
شعر دلدار کے غم میں بہتے ہوئے لکھا۔
کِرچی کِرچی ہوگیا انجم اب کیا ہونا باقی ہے
آنکھیں مجھ سے پوچھ رہی ہیں کتنا رونا باقی ہے
دلدار بھٹی کی بذلہ سنجی سے بھلا کون واقف نہیں۔ ایک مرتبہ ان کے ٹی وی
پروگرام”پنجند“ میں کسی آدمی نے سوال کا جواب دے کر گھی کا ڈبہ جیت لیا۔ اتفاق
سے اس آدمی کے سر پر بال بالکل نہیں تھے دلدار نے اسے دیکھتے ہی کہا ” ایہہ لیو
گھیو دا ڈبہ کڈِاوڈ چیر کڈ کے آئے اوتُسیں“ یہ لیں گھی کا ڈبہ آپ کتنی بڑی مانگ
نکال کر آئے ہوئے ہیں
دلدار اپنے دوستوں کا ادب کی حد تک احترام کرتے تھے ۔ایک مرتبہ ہم لوگ جناب
عطاءالحق قاسمی کے گھر بیٹھے ہوئے تھے عطاءالحق قاسمی نے دلدار بھٹی کے کسی
کالم کی تعریف کی تو دلدار نے اٹھ کران کے گھٹنوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے کہا کہ آپ
میرے کالم کی تعریف کررہے ہیں وہ واقعتاً اچھا ہوگا۔
دلدار پرویز بھٹی کی تمام عمر لوگوں کی خدمت کرتے گزر گئی انہوں نے ایک مرتبہ
خود بتایا کہ مجھے جو پیسے آتے ہیں میں نے جمع کرنے شروع کردیئے تاکہ کوئی مکان
وغیرہ خریدا جاسکے لیکن کچھ عرصے بعد مجھے پیسے آنے ہی بند ہوگئے۔ تب مجھ پر
عیاں ہوا کہ اللہ مجھے نہیں بلکہ میرے ذریعے لوگوں کو دیتا ہے۔ لہذا میرا ان
پیسوں پر کوئی حق نہیں۔ میں نے دوبارہ اسی طرح دوسروں کی مالی مدد شروع کردی
اور مجھے بھی پہلے کی طرح فنکشن ملنے لگے۔
جنہیں ہم دیکھ کر جیتے تھے ناصر
وہ لوگ آنکھوں سے اوجھل ہوگئے ہیں
دلدار بھٹی کی اپنی کوئی اولاد نہ تھی انہوں نے اپنی مرحومہ بہن کی بیٹی اور
بیٹے کو اپنے پاس رکھا ہوا تھا بھانجی کی شادی انہوں نے اپنی زندگی میں ہی کردی
تھی۔ دلدار بھٹی کی زندگی محبتوں اور قربانیوں کا مرقع تھی۔ ان کی یاد آج بھی
دلوں میں ایک تازہ خوشبو کی مانند بکھرتی اور نکھرتی محسوس ہوتی ہے ڈاکٹر فقیرو
محمد فقیر نے شاید دلدار جیسے لوگوں کیلئے ہی کہا تھا۔
لوکاں دے نال رکھ فقیرا ایسا بھین کھلون
کول ہویں تے ہسن سارے دور ہویں تے رون |