نویدہوکہ ملک بھر کی مذہبی و سیاسی جماعتوں
کے اہم ترین رہنماؤں نے ”ملی مجلس شرعی“ کے زیراہتمام حال ہی میں لاہور میں
”اتحادامت کانفرنس“کے موقع پر ،ملک میں آئینی طور پر نفاذشریعت کے لیے
1949ءکی قرارداد مقاصد اور 1951ءکے 22نکات کی تجدید کرتے ہوئے حالات حاضرہ
کے تقاضوں اور ضروریات کے مطابق 15نئے رہنما اصول بھی مرتب کیے ہیں، جو
نفاذشریعت کے لیے ممدومعاون ثابت ہوسکتے ہیں۔علمائے کرام نے کہاہے کہ چونکہ
اسلامی تعلیمات کا یہ تقاضا ہے کہ مسلمان اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی
قرآن و سنت کے مطابق گزاریں اور پاکستان اسی لیے بنایا گیا تھا کہ یہ اسلام
کا قلعہ ثابت ہو، لہٰذا 1951ءمیں سارے دینی مکاتب فکر کے معتمد علیہ
31علماءکرام نے خطیب پاکستان حضرت مولانااحتشام الحق ؒ کی تحریک پر
عصرِحاضر میں ریاست و حکومت کے اسلامی کردار کے حوالے سے جو 22نکات تیار
کیے تھے، ان میں سے اکثر زینت قرطاس بنادیے گئے اور ان پر کوئی عملدرآمد
نہیں ہوسکا۔ نفاذشریعت کے حوالے سے حکومتی تساہل پسندی کا نتیجہ یہ سامنے
آیا ہے کہ پاکستان کے شمال مغربی سرحدی قبائلی علاقوں کے بعض عناصر نے مسلح
جدوجہد کا آغاز کیا، پاکستان کے دیگر پرامن علاقے بھی اس جنگ کے اثرات سے
محفوظ نہیں ہیں۔ تمام مکاتب فکر کے نمائندہ علماءکرام کی یہ کوشش اس مرحلہ
پر اس لیے ناگزیر ہے کہ ان کی اس کوشش سے ہی نہ صرف ان اسباب کی نشاندہی
ہوگی جو نفاذشریعت کی راہمیں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں، بلکہ نفاذشریعت کے یے
متفقہ اصولوں کے ذریعے وہ سمت اور راستہ بھی متعین ہوجائے گا، جس پر چل کر
یہ منزل حاصل کی جاسکتی ہے،کیوں کہ دراصل نفاذ شریعت کی منزل کا حصول ہی اس
بات کی ضمانت فراہم کرسکتا ہے کہ آئندہ پاکستان کے کسی علاقے سے نفاذ شریعت
کے نام پر مسلح جارحیت کا ارتکاب اور حکومتی رٹ کو چیلنج نہ کیا جاسکے۔
ہم یہاں چندچیدہ چیدہ نکات کو ”ملی مجلس شرعی“کے اعلامیے سے من وعن نقل
کررہے ہیں ،جس سے ان نکات کی افادیت وضرورت نیزدوررسی کااندازہ ہوگا،ملاحظہ
فرمائیے:
.... یہ کہ پاکستان میں شریعت کا نفاذ پرامن جدوجہد کے ذریعے ہونا چاہیے،
کیونکہ یہی اسلامی تعلیمات اور دستور پاکستان کا مشترکہ تقاضا ہے اور عملاً
بھی اس کے امکانات موجود ہیں۔ نیز شریعت کا نفاذ سارے دینی مکاتب فکر کی
طرف سے منظور شدہ متفقہ راہنما اصولوں کے مطابق ہونا چاہیے (یہ 15نکات اس
قرارداد کا حصہ ہیں) او رکسی گروہ یا جماعت کو یہ حق نہں کہ وہ اپنا نظریہ
سارے معاشرے پر قوت سے ٹھونس دے۔
.... دستور پاکستان کے قابل نفاذ حصے میں بصراحت یہ لکھا جائے کہ قرآن و
سنت مسلمانوں کا سپریم لاءہے او راس تصریح سے متصادم قوانین کو منسوخ کردیا
جائے۔ یہ دستوری انتظام بھی کیا جائے کہ عدلیہ کی طرف سے دستور کی کوئی
ایسی تعبیر معتبر نہ ہوگی، جو کتاب و سنت کے خلاف ہو اور دستور کی کسی بھی
شق اور مقنّنہ، عدلیہ اور انتظامیہ کے کسی بھی فیصلے کو کتاب و سنت کے خلاف
ہونے کی صورت میں اعلیٰ عدالتو ں میں چیلنج کیا جاسکے۔ نیز ان دستوری دفعات
کو دستور میں بنیادی اور ناقابل تنسیخ دفعات قرار دیا جائے۔ آئین توڑنے سے
متعلق دفعہ 6Aاور عوامی نمایندوں کی اہلیت سے متعلق دفعات 63,62کو موثر
بنانے اور ان پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے۔ کسی بھی ریاستی یا حکومتی
عہدیدار کی قانون سے بالاتر حیثیت اور استثنیٰ پر مبنی دستوری شقوں کا
خاتمہ کیا جائے۔
.... پاکستان کے قانونی ڈھانچے میں پہلے سے موجود اسلامی قوانین پر موثر
طریقے سے عمل درآمد کیا جائے اور اسلامی عقوبات کے نفاذ کے ساتھ ساتھ موثر
اصلاحی کوششیں بھی کی جائیں۔
.... اسلامی اصول و اقدار کے مطابق عوام کو بنیادی ضروریات و سہولیات زندگی
مثلاً روٹی، کپڑا، مکان، علاج، معالجہ اور تعلیم فراہم کرنے، غربت و جہالت
کے خاتمے اور عوامی مشکلات و مصائب دور کرنے اور عوام کو دنیا میں عزت اور
وقار کی زندگی گزارنے کے قابل بنانے کو اوّلین ریاستی ترجیح بنایا جائے۔
.... موجودہ سیاسی نظام کی اسلامی تعلیما ت کے مطابق اصلاح کی جائے، مثلاً
عوامی نمایندگی میں سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کی حوصلہ شکنی اور غریب
اور متوسط طبقے کی نمایندگی کی حوصلہ افزائی کے لیے ٹھوس عملی اقدامات کیے
جائیں۔ نمایندگی کے لیے شرعی شہادت کی اہلیت کو لازمی شرط قرار دیا جائے۔
متناسب نمایندگی کا طریقہ اپنایا جائے۔ علاقائی، نسلی، لسانی او رمسلکی
تعصبات کی بنیاد پر قائم ہونے والی سیاسی جماعتوں پر پابندی لگائی جائے اور
قومی یکجہتی کے فروغ کے لیے مناسب پالیسیاں اور ادارے بنائے جائیں۔
.... تعلیمی نظام کی اسلامی تناظر میں اصلاح کے لیے قومی تعلیمی پالیسی اور
نصابات کو اسلامی اور قومی سوچ کے فروغ کے لیے تشکیل دیا جائے، جس سے یکساں
نظام تعلیم کی حوصلہ افزائی اور طبقاتی نظام تعلیم کا خاتمہ ہو، اساتذہ کی
نظریاتی تربیت کی جائے اور تعلیمی اداروں کا ماحول بہتر بنایا جائے۔ مخلوط
تعلیم ختم کی جائے اور مغربی لباس کی پابندی اور امور تعلیم میں مغرب کی
اندھی نقالی کی روش ختم کی جائے۔ تعلیم کا معیار بلند کیا جائے۔ پرائیویٹ
تعلیمی اداروں کو قومی نصاب اپنانے کا پابند بنانے اور ان کی نگرانی کا
موثر نظام و ضع کرنے کے لیے قانون سازی کی جائے۔ تعمیر سیرت اور کردارسازی
کو بنیادی اہمیت دی جائے۔ تعلیم سے ثنویت کا خاتمہ کیا جائے۔ دینی مدارس کے
نظام کو مزید موثر و مفید بنانے اور اسے عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے
لیے ضروری اقدامات کیے جائیں تاکہ بین المسالک ہم آہنگی کو فروغ ملے اور
فرقہ واریت میں کمی واقع ہو۔ دینی مدارس کی ڈگریوں کو تسلیم جائے۔ تعلیم کے
لیے وافر فنڈز مہیا کیے جائیں۔ ملک میں کم از کم میٹرک تک لازمی مفت تعلیم
رائج کی جائے اور چائلڈ لیبر کا خاتمہ کیا جائے۔
.... ذرائع ابلاغ کی اصلاح کی جائے۔ اسلامی تناظر میں نئی ثقافتی پالیسی
وضع کی جائے، جس میں فحاشی و عریانی کو فروغ دینے والے مغربی و بھارتی
ملحدانہ فکر و تہذیب کے اثرات و رجحانات کو رد کردیا جائے۔ صحافیوں کے لیے
ضابطہ اخلاق تیار کیا جائے اور ان کی نظریاتی تربیت کی جائے۔ پرائیویٹ
چینلز اور کیبل آپریٹرز کی موثر نگرانی کی جائے۔ اسلام او رپاکستان کے
نظریاتی تشخص کے خلاف پروگراموں پر پابندی ہونی چاہیے، بلکہ تعمیری انداز
میں عوام کے اخلاق سدھارنے او رانہیں اسلامی تعلیمات پر عمل کی ترغیب دینے
والے پروگرام پیش کیے جائیں اور صاف ستھری تفریح مہیا جائے۔
.... پاکستان کی معیشت کو مضبوط بنانے اور افلاس اور مہنگائی کے خاتمے کے
لیے ٹھوس عملی اقدامات کیے جائیں۔ دستور پاکستان کے آرٹیکل 38میں درج عوام
کی معاشی اور معاشرتی فلاح و بہبود کے متعلقہ امور کی تکمیل کے لیے حکومت
خود اور نجی شعبے کے اشتراک سے فوری طور پر ٹھوس اقدامات کرے۔ لوٹ مار سے
حاصل کردہ اور بیرون ملک بینکوں میں جمع خطیر رقوم کی وطن واپسی کو یقینی
بنایا جائے۔
.... عدلیہ کی بالفعل آزادی کو یقینی بنایا جائے اور اسے انتظامیہ سے الگ
کیا جائے۔ اسلامی تناظر میں نظام عدل کی اصلاح کے لیے قانون کی تعلیم، ججوں،
وکیلوں، پولیس اور ذیل اسٹاف کے کردار کو اسلامی اصولوں سے ہم آہنگ کرنے کے
لیے ضروری اقدامات کیے جائیں۔ انصاف سستا اور فوری ہونا چاہیے۔
.... امن و امان کی بحالی اور لوگوں کے جان و مال کا تحفظ ریاست کی بنیادی
ذمہ داری ہے۔ حکومت کو ان مقاصد کے حصول کے لیے ہر ممکن قدم اٹھانا چاہیے۔
.... خارجہ پالیسی کو متوازن بنایا جائے۔ تمام عالمی طاقتوں کے ساتھ
دوستانہ تعلقات رکھے جائیں اور اپنی قومی خودمختاری کا تحفظ کیا جائے۔ اپنے
ایٹمی اثاثوں کے تحفظ پر کوئی سمجھوتہ نہ کیا جائے۔ مسلمانان عالم کے رشتہ
اخوت و اتحاد کو قوی تر کرنے کے لیے او آئی سی کو فعال بنانے میں پاکستان
اپنا کردار ادا کرے۔
.... افواج میں روح جہاد پیدا کرنے کے لیے سپاہیوں اور افسروں کی دینی
تعلیم و تربیت کا اہتمام ہونا چاہیے۔ بنیادی فوجی تربیت ہر مسلم نوجوان کے
لیے لازمی ہونی چاہیے۔ فوجی افسروں کی اس غرض سے خصوصی تربیت کی جائے کہ ان
کا فرض ملک کا دفاع ہے نہ کہ حکومت چلانا۔ بیوروکریٹس کی تربیت بھی اسلامی
تناظر میں ہونی چاہیے تاکہ ان کے ذہنوں میں راسخ ہوجائے کہ وہ عوام کے خادم
ہیں، حکمران نہیں۔
....دفاع اسلام خصوصاً اسلام کے بارے میں شکوک وشبہات کے ازلے اور مسلمانوں
و غیرمسلموں تک موثر انداز میں دین پہنچانے کے لیے بھی حکومت پاکستان کو
فنڈز مختص کرنے چاہییں اور وسیع الاطراف کوششیں بروئے کار لانی چاہییں۔
علمائے کرام کے یہ نکات اخبارات ورسائل کی زینت بن چکے ہیں ،ہم ان کے
بغورمطالعے کے بعداس نتیجے پرپہنچے ہیں کہ بحیثیت مجموعی یہ ایک اچھی کاوش
ہے اوراس سلسلے میں دوسری دینی وسیاسی جماعتوں کی قیادت کوبھی اعتمادمیں لے
کرعملی جدوجہدکامخلصانہ آغازکردیاجائے توبہت مفیدہے،تاہم اس حوالے سے
کرتادھرتاکے طورپرمحمدخان قادری نوع کی مستردشخصیات کے سرفہرست ہونے سے یہ
تاثربھی جنم لے رہاہے کہ کہیں خاکم بدہن یہ ”اپناقدبڑھانے “کی کوشش نہ
ہو۔بہرحال یہ ایک اچھاآغازضرورہے ،جس پرمزیدپیش رفت کی جانی چاہیے۔ |