ہمایوں مرزا زمان
مسئلہ کشمیر بنیادی طور پر بنیادی انسانی حقوق کا مسئلہ ہے ۔ یہ دوکروڑ
کشمیریوں کے بنیادی اور ناقابل تنسیخ حق خود ارادیت کا مسئلہ ہے مختصر یہ
کہ یہ ایک قوم کے تاریخی مقدر اور سیاسی مستقبل کا مسئلہ ہے مگر کشمیری قوم
کا المیہ ہے کہ یہ مسئلہ گزشتہ 63سال سے انکے لئے درد والم اور اذیت کا
باعث بنا ہوا ہے جنگ عظیم دوئم کے بعد سے لیکر درجنوں محکوم اقوام کی آزادی
کی نعمت سے سرفراز ہو چکی ہیں حتٰی کہ افریقہ کے تاریک ترین گوشے بھی آزادی
کے نور سے منور ہوچکے ہیں مگر شائد قدرت کو چرپ دست اور تر دماغ کشمیری قوم
کا مزید امتحان مطلوب ہے لیکن بقول ”اقبال“
اگر عثمانیوں پر کوہ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے
کہ خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
کشمیریوں نے گزشتہ کئی سالوںسے جو بے مثال تحریک مزاحمت اور مسلح جدوجہد
شروع کر رکھی ہے اور انسانی تاریخ کی جو لازوال قربانیاں پیش کر رہے ہیں
اسکے پیش نظر یہ بات کامل یقین اور اعتماد کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ انکی
مظلومیت اور محکومیت کی زنجیریں انشاءاللہ بہت جلد ٹوٹ کر رہیں گی اور یہ
بھارتی سامراج کے گلے کا ہار بن جائیں گی۔ کشمیر اور کشمیری یقینا آزاد
ہونگے مگر اسکی حتمی نوعیت کیا ہو گی اسکے بارے میں پیشگوئی نہیں کر سکتا ۔
کیونکہ حد متارکہ کے اس پار ہمارا کرشار ہمارے قومی فکر و فلسفہ اور نظریہ
سے مطابقت رکھتا دکھائی نہیں دیتا اگر ہم نے تکمیل پاکستان کے خواب کی عملی
تعبیر کرنی ہے تو ہیں اپنے طرز فکر و عمل میں مثبت تبدیلی لانی ہو گی اور
اپنے پیکر خاکی میں جان پیدا کرنی ہو گی ۔ اگرچہ ہمارا مقصد اور موقف حق و
صداقت پر مبنی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ :
ہو صداقت کےلئے جس دل میں مرنے کی تڑپ
پہلے اپنے پیکر خاکی میں جان پیدا کرئے ۔
آج جبکہ غاصب اور دہشت گرد بھارتی افواج ، بارڈر سیکورٹی فورسز اور سنٹرل
ریزور پولیس فورس کے انسان نما مگر خونخوار درندے مجاہدین آزادی پر اپنی
تمام تر قہر سامانیوں کے ساتھ قیامت خیز مظالم ڈھا رہے ہیں۔ بستیوں نذر آتش
کر رہے ہیں ننھے منے سکول کے سینکڑوں بچوں کو زندہ جلا رہے ہیں ہزاروں کو
شہید کر چکے ہیں ، ہزاروں پر بھارت کے عقوبت خانوں میں انسانیت سوز مظالم
ڈھا رہے ہیں اور ہماری عفت مآب ماﺅں ، بہنوں اور بیٹیوں کی وسیع پیمانہ پر
بے حرمتی کر رہے ہیں ہم اقتدار کی جنگ لڑ رہے ہیں اور نظریاتی خلفشار اور
قومی انتشار کے گرداب میں پھنس کر عدم استحکام اور نفاق سے دو چار ہیں ۔ اس
تناظر میں یہ اور بھی ضروری ہو جاتا ہے کہ ہم مسئلہ کشمیر کے حقیقی محرکات
اور اس کے پس منظر کا جائزہ لیں تاکہ تحریک آزادی کشمیر اور ہماری جدوجہد
کا میابی سے ہمکنار ہو سکے ۔
تحریک آزادی کشمیر ایک تاریخی عمل ہے جو ابھی تک نا تمام ہے لیکن مسئلہ
کشمیر برصغیر پاک و ہند کی تقسیم کے 3جون 1947ءکے منصوبہ ، قانون آزادی ،
ہند اور برطانوی ہند سے انگریز سامراج کے اقتدار کے خاتمہ کا براہ راست
نتیجہ ہے میں تحریک آزادی کشمیر کی تاریخ کے اوراق الٹ پلٹ کر اس معزز
قارئین کا وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا ۔ اختصار کے ساتھ صڑف یہ کہنا چاہوں گا
کہ بر صغیر کی تقسیم کے بنیادی اصول یعنی ” دو قومی نظریہ“ کی بنیاد پر بر
صغیر کے عوام کو حق خود ارادیت دیا گیا جسکے تحت پاکستان اور ہندوستان کی
دو آزاد اور خود مختار ممالک بالترتیب 14اور 15اگست 1947ءکو معرض وجود میں
آئے لیکن مسلم اکثریت والی ریاست جموں وکشمیر کے عوام کو ایک گہری سازش کے
تحت اس حق سے محروم رکھا گیا اس سازش کے بنیادی کردار ہندو کانگریسی قیادت
اور رسوائے زمانہ وائسرائے ہند لارڈ ماﺅنٹ بیٹن تھے بعد ازاں ریاست کا
ڈوگرہ مہاراجہ ہری سنگھ بھی اس سازش کے کردار وں میں شامل ہو گیا بنیادی
طور پر سازش یہ کی گئی کہ پاکستان کو دفاعی اور معاشی اعتبار سے عدم تحفظ
اور عدم استحکام سے دوچار کیا جائے تاکہ خاکم بدھن یہ زیادہ دیر تک قائم نہ
رہ سکے اور مسلم اکثریت کی ریاست کو اپنے قبضہ میں رکھ کر بھارتی قیادت دو
قومی نظریہ کی تہذیب کرنا چاہتی تھی او جنوبی ایشیاءکے خطہ میں بھارت کو
بالا دست قوت بنانا چاہتی تھی۔
کشمیریوں کو انکی طویل جدوجہد آزادی کے ثمرات سے محروم کرنے اور کشمیر پر
غاصبانہ اور جابرانہ قبضہ کرنے کی کانگریس ۔ ماﺅنٹ بیٹن سازش کا مقصد یہ
تھا کہ پاکستان کمزور ہو اور بالآخر بھارت کے ساتھ دوبارہ شامل ہو جائے ۔
3جون1947ءکے تقسیم ہند کے منصوبہ کے رسمی اعلان سے قبل اس منصوبہ کی جو نقل
وائسرائے ہند لارڈ ماﺅنٹ بیٹن نے کانگریس کے صدر اچاریہ کر پلانی کو ایک
روز قبل دی تھی اسکا جواب دیتے ہوئے 2جون 1947ءکو کرپلانی نے ماﺅنٹ بیٹن کے
نام لکھا کہ ” ہم متحدہ ہندوستان پر یقین رکھتے ہیں ہم توقع رکھتے ہیں کہ
ہندوستان کے تمام حصے بہت جلد متحد ہو جائیں گے ۔ “ گویا کہ اس میں کوئی شک
نہیں کہ کانگریسی ہندو قیادت نے بنیادی طور پر ہی پاکستان کے نظریہ اساسی
اور اسکے وجود کو تسلیم نہیں کیا تھا۔ 14جون 1947ءکو مسٹر کرشنا مینن نے
وائسرائے لارڈ ماﺅنٹ بیٹن کے نام اپنے خط میں لکھا کہ ” اگر کشمیر اور شمال
مغربی سرحدی صوبہ کو پاکستان میں شامل کرنے کی کوشش کی گئی تو تقسیم ہند کا
منصوبہ غیر حقیقی ( خیالی) ثابت ہو گا اور ایسی صورت میں کہ یہ علاقے
پاکستان میں شامل ہو جائیں ہندوستان کو اندرونی طور پر اور معاشی لحاظ سے
مشکلات سے دو چار ہونا پڑے گا جس کے باعث برطانیہ اور ہندوستان کے تعلقات
متاثر ہو نگے یہ ایک المیہ ہو گا اور برطانیہ کو اس کا غلط اندازہ نہیں
لگانا چاہیے “
کانگریس ماﺅنٹ بیٹن سازش یہاں پر ہی ختم نہیں ہوئی ۔قارئین! آپ حیران ہوں
گے کہ جب قائد اعظم ؒ نے 17جون 1947ءکو ریاستوں کے بارے میں پاکستان کی
پالیسی کے بارے میں حقیقت پر مبنی موقف اختیار کرتے ہوئے اپنا بیان جاری
کیا تو عین اسی روز پنڈت جواہر لال نہرو نے لارڈ ماﺅنٹ بیٹن کے ایما پر اور
پہلے سے طے کردہ منصوبے کے مطابق اسکے 18جون 1947ءسے شروع ہونے والے دورہ
سرینگرکے موقع پر 17جون1947ءکو ایک تفصیلی دستاویز ارسال کی یہ کشمیر کے
بارے میں تھی اسکے نمایاں ترین پہلو یہ تھے ۔
1۔ریاست جموں وکشمیر کے وزیراعظم پنڈت رام چندرا کا ک کی موجودگی میں
مہاراجہ بے بس اور غیر موثر ہے لہذا جب تک کاک کو سبکدوش نہیں کیاجاتا
کشمیر کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا۔
2۔ شیخ عبداللہ کو جیل سے رہا کرایا جائے کیونکہ وہ ہمارے ساتھ تعاون کریگا
اور اس طرح کشمیر میں حالات پر قابو پایا جا سکے گا۔
3۔ جموں وکشمیر دفاعی اہمیت کی سرحدی ریاست ہے اور اگر اسے پاکستان میں
شامل کرنے کی کوشش کی گئی تو بہت مشکل صورت حال پیدا ہو جائیگی لہذا کشمیر
کو ہندوستان میں شامل کیاجائے
جس سازش کا” رازداں“نے ابھی ذکر کیا ہے اسکی تکمیل کےلئے جن کرداروں نے
نمایاں حصہ لیا ان میں مسٹر گاندھی ، پنڈت نہرو، لارڈ ماﺅنٹ بیٹن ، شیخ
عبداللہ اور مہاراجہ ہری سنگھ پیش پیش تھے ۔ ریڈ کلف ایوارڈ کے ذریعے پنجاب
میں آخری مرحلہ پر جس طرح نئی حد بندی کی گئی وہ بھارت کو جموں وکشمیر میں
زمینی راستہ مہیا کرنے کی بد ترین سازش تھی ۔ مختصریہ کہ اگر ہندوستان کا
آخری وائسرائے لارڈ ماﺅنٹ بیٹن اور کانگریسی قیادت پاکستان کو دفاعی لحاظ
سے عدم تحفظ اور معاشی لحاظ سے عدم استحکام کا شکار کرنے کی سازش نہ کرتے
تو کشمیر پاکستان کا لازمی حصہ بن چکا ہوتا کیونکہ بقول ” حضرت قائد اعظم
جناحؒ“کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور ہر کشمیری اور پاکستانی یہ بات بھی
چاہتا ہے کہ کشمیر پاکستان کے وجود کا خوبصورت سر ہے ۔ “
بھارت نے سازش مکاری اور جبرو تشدد کے بل بوتے پر کشمیر پر قبضہ کیا اور
ساتھ ہی اسے ” عارضی الحاق“قرار دیکر دنیا کی نظروں میں دھول جھونکنے کی
کوشش کی ۔ بھارت نے خود ہی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے دروازہ پر دستک
دی ۔ اقوام متحدہ کی زیر نگرانی جموں وکشمیر میں استصواب رائے کی پیشکش کی
اس نے اقوام متحدہ کے مشن برائے پاک و ہند اور سلامتی کونسل کی ان قرار
دادوں کو تسلیم کیا جن کے تحت جموں وکشمیر کے عوام کو اقوام متحدہ کی زیر
نگرانی جمہوری طریقہ سے آزادانہ طور اور غیر جانبدارانہ ماحول میں منعقد
ہونے والے استصواب رائے کے ذریعے الحاق کا فیصلہ کرنے کی ضمانت دی گئی تھی
بھارت نے بد نیتی کے ساتھ ان قرار دادوں پر عمل درآمد کرنے سے انحراف کیا
اس نے دو طرفہ مذاکرات کے ذریعے مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کی راہ میں روڑے
اٹکائے اس نے اقوام متحدہ کے مختلف نمائندﺅں کی کاوشوں اور تجاویز کو
سبوتاذ اور مسترد کیا جو مسئلہ کشمیر کے پرامن حل میں نتیجہ خیز ثابت ہو
سکتی تھیں اور اس نے شملہ معاہدہ کے تحت بھی اس مسئلہ کو حل کرنے میں کسی
مثبت ردعمل کا اظہار نہیں کیا بلکہ” کشمیربھارت کا اٹوٹ انگ ہے“ کی غیر
منطقی رٹ لگانا شروع کر دی۔ مختصر یہ کہ وہ پاک بھارت مذاکرات میں مسئلہ
کشمیر کو زیر بحث لانا بھی گوارا نہیں کرتا۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ مسئلہ کشمیر کو حل کرنے اور کشمیریوں کو
اپنے ہی مقدس مواعید اور قرار دادوں کے مطابق آزادانہ اور غیر جانبدارانہ
رائے شماری کے ذریعے فیصلہ کرنے کو حق کو بروئے کار لانے میں ناکام ثابت
ہوئی ہے بھارت نوشتہ دیوار پڑھنے سے انکاری ہے پاکستان کی سیاسی و دینی
قیادت مصلحتوں کا شکار ہے اور بھارتی دہشت گرد افواج کی طرف سے کشمیریوں کو
گاجر مولی کی طرح کاٹا جا رہا ہے ۔ مجاہدین آزادی پر قیامت خیز مظالم ڈھائے
جا رہے ہیں تو ان حالات میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کشمیری حریت پسندوں کی
عملی امداد کیسے کی جائے اور مسئلہ کشمیر کا حل کیسے تلاش کیا جائے تاکہ
کشمیری مسلمانوں کو تباہی و بربادی سے بچایا جائے اور ان کی تحریک آزادی کو
کامیابی سے ہمکنار کیا جائے ۔
”رازداں“کو کامل یقین ہے کہ کشمیری بھارت کے ظلم و جبر و تشدد سے ضرور
آزادی حاصل کریں گے دنیا کی کوئی طاقت کشمیریوں کو غلام نہیں رکھ سکتی
کشمیری عوام مایوسی گناہ سمجھتے ہیں انشاءاللہ ایک دن کشمیر میں آزادی کا
سورج ضرور طلوع ہو گا۔ ” بقول فرزند کشمیر اقبالؒ“
نہیں ہے نا امید اقبا ل اپنے کشت ویراں سے
زرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی |