گزشتہ صدی کی بات ہے جب پرنٹ میڈیا کا راج تھا ملک کے ایک
سب سے مقبول اور کثیر الاشاعت ہفت روزہ نے عوامی مسائل و معاملات پر مبنی
ایک سلسلے کا آغاز کیا اور قارئین کو اُس میں اظہارِ خیال کی دعوت دی ۔ ہم
نے عوامی مقامات پر بنی ہوئی پانی کی سبیلوں اور واٹر کولر پر زنجیر سے
بندھے ہوئے گلاس کو بطور ایک قومی المیہ اور لمحہء فکریہ کے حوالے سے لکھا
۔ ہماری تحریر رنگین روشنائی میں صفحے کے وسط میں ایک آرائشی فریم کے اندر
بطور خاص شائع کی گئی تھی شاید اس وجہ سے کہ اس موضوع پر سب سے پہلے ہم نے
قلم اٹھایا تھا اور وہی اس سلسلے کی سب سے پہلی خصوصی تحریر تھی ۔ اس وقت
ہمیں خود اپنی تحریر کا عنوان بھی یاد نہیں ہے مگر وہ بھی بہت خوبصورت
خطاطی میں شائع کیا گیا تھا ۔
اب جب کبھی سوشل میڈیا پر ایسی کوئی فوٹو پوسٹ نظر سے گزرتی ہے تو بے
اختیار اپنی وہ تحریر یاد آ جاتی ہے جس کی خصوصی اشاعت ہمارے لئے کسی بہت
بڑے اعزاز سے کم نہ تھی ۔ اتنا وقت گزر گیا مگر اب بھی جا بجا تہذیبی زوال
کا تسلسل ظاہر کرتا ہے کہ عوامی شعور میں کوئی بہتری نہیں آئی ہے چوری کو
گناہ سمجھنے کا کوئی تصور ہی نہیں ہے اور نہ ہی ایسے کوئی آثار نظر آتے ہیں
۔ کوئی اللہ کا بندہ عوام الناس کی سہولت کے لئے کولر لگاتا ہے پینے کے
پانی کا انتظام کرتا ہے تو کوئی ستم ظریف گلاس ہی اُڑا لے جانے کی تاک میں
ہوتا ہے ایسے ہی نادانوں کی وجہ سے بیچارے گلاس کو پابند زنجیر کیا جاتا ہے
۔ تپش توے کی ہوتی ہے جلنا روٹی کو پڑتا ہے قصور چوروں کا ہوتا ہے بندھنا
گلاس کو پڑتا ہے ۔ مسجد سے جوتیاں چُرانے کی روایت تو بہت پرانی معلوم ہوتی
ہے شاید اتنی ہی جتنی برصغیر میں اسلام کی آمد اور مساجد کی تعمیر کی تاریخ
۔ جس کا ثبوت ہمیں عوامی شاعر جناب نظیر اکبر آبادی کی اب سے کوئی ڈھائی سو
سال پہلے لکھی گئی نظم “آدمی نامہ” کے ایک بند سے ملتا ہے ۔
مسجد بھی آدمی نے بنائی ہے یاں میاں
بنتے ہیں آدمی ہی امام اور خطبہ خواں
پڑھتے ہیں آدمی ہی قرآن اور نماز یاں
اور آدمی ہی ان کی چُراتے ہیں جوتیاں
جو ان کو تاڑتا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
پھر اخلاقی انحطاط نے اتنی ترقی کی کہ مسجد کے لوٹے بھی زنجیر سے باندھے
جانے لگے پھر نوبت چپل جھاڑو نل کی ٹونٹی اور انرجی سیور تک کو باندھ کر
رکھنے تک آ گئی ۔ اور ظاہر ہے کہ یہ چیزیں خوشحال اور پیٹ بھرے لوگ تو نہیں
چُراتے بلکہ اسی طبقے سے تعلق رکھنے والے مخیر و خدا ترس حضرات تو عوامی
فلاح و بہبود کے کاموں کے لئے دل کھول کر عطیات و صدقات اور خیر خیرات کا
اہتمام کرتے ہیں ۔ لیکن پسماندہ ناخواندہ مفلوک الحال طبقے میں تعلیم کی
کمی تربیت سے محرومی اور چوری چکاری کو ہی اپنا پیشہ سمجھنے اور اُسے گناہ
کے زمرے میں شمار ہی نہ کرنے کی صفت اُنہیں جہاں مرضی ہاتھ صاف کرنے پر
اُکسائے رکھتی ہے ۔
تاہم یہ سب چھوٹے موٹے ادنیٰ درجے کے چور ہوتے ہیں اس لئے چھوٹی موٹی
چوریاں کرتے ہیں کوئی لمبا ہاتھ مارنے کی ان کی اوقات ہی نہیں ہوتی ۔ بڑے
چور بڑی چوریاں کرتے ہیں ڈاکے ڈالتے ہیں ۔ جسے بھی موقع میسر آتا ہے اُس کے
لئے بڑے پیمانے پر اعلیٰ سطحی لُوٹ مار ایک قومی مشغلہ ہے ۔ یہاں انتہائی
معمولی نوعیت کی چیزوں کو چوری ہونے سے بچانے کے لئے اکثر ہی اُس کی قیمت
سے بھی کہیں زیادہ مالیت کی زنجیر سے باندھ دیا جاتا ہے مگر ملکی وسائل اور
قومی خزانے کو لُٹنے سے محفوظ رکھنے کے لئے اب تک نہ کوئی قفل ایجاد ہوا ہے
اور نہ ہی زنجیر ۔ اسمبلیوں حکومتی ایوانوں میں بیٹھے عوام کے خدام میں
گنتی کے چند ہی نابغے ہوں گے جنہوں نے کرپشن کی بہتی گنگا میں ہاتھ نہ
دھوئے ہوں ۔ اور ننگوں کے حمام میں سب سے عجیب شخص وہی لگ رہا ہوتا ہے جس
نے کپڑے پہن رکھے ہوں ۔ چھوٹے موٹے پھٹیچر سے چور عوام کے ہتھے چڑھ جائیں
تو وہ مار مار کے اُن کا کچومر نکال دیتی ہے گلاس چوری نہ ہو پورا خزانہ
خلاص ہو جائے خیر ہے ۔ |