کبھی تم نے محسوس کیا ہے کہ وقت کسی موسم کی طرح نہیں، جو
گزر جائے اور بھُلا دیا جائے؟ وقت تو سانس کی مانند ہوتا ہے، جو ہر لمحہ
انسان کے اندر داخل ہو کر کچھ چھین لیتا ہے، کچھ دے جاتا ہے، اور اکثر کچھ
ایسا چھوڑ جاتا ہے جو ساری زندگی ساتھ چلتا ہے۔ انسان جتنا بھی آگے بڑھ
جائے، کچھ یادیں ایسی ہوتی ہیں جو پیچھے نہیں رہتیں، بلکہ ایک نرم روشنی کی
مانند دل کے کسی گوشے میں ٹمٹماتی رہتی ہیں۔
کچھ چہرے ایسے ہوتے ہیں، جن کی موجودگی سے وقت رُک سا جاتا ہے۔ وہ چہرے
کبھی ساتھ نہیں ہوتے، مگر دل کے آئینے پر نقش بن کر رہ جاتے ہیں۔ ان نقشوں
کو مٹانے کی کوشش کرنا خود کو مٹانے کے برابر لگتا ہے۔ وہ مسکراہٹیں، وہ
لبوں پر آنے والے ہلکے سے جملے، وہ بے ساختہ ہنسی، سب کچھ جیسے آج بھی ہَوا
کے جھونکوں میں موجود ہو۔ بس آنکھیں بند کرو اور وہ سب لوٹ آتا ہے، جیسے
کوئی دل کی دہلیز پر آہستہ سے دستک دے رہا ہو۔ لیکن ایک خوف ہمیشہ ساتھ
ہوتا ہے، جدائی کا، وقت کے اختتام کا، اچانک رُخ موڑ لینے والی زندگی کا۔
پتہ نہیں کب، کہاں، اور کس موڑ پر سب کچھ ختم ہو جائے۔ شاید ہم میں سے کسی
کو بھی یہ علم نہ ہو کہ ہماری شام کس گلی میں اترے گی، یا وہ لمحہ کب آئے
گا جب سب سناٹے میں ڈوب جائے گا۔ بس یہی ایک احساس ہے جو انسان کو مجبور
کرتا ہے کہ وہ اپنی یادوں کے اجالوں کو سینے سے لگا کر رکھے۔ کیونکہ ان ہی
اجالوں میں وہ سب کچھ محفوظ ہے جو کبھی مکمل تھا۔
جب سب کچھ بدل جاتا ہے، چہرے، وقت، موسم، حتیٰ کہ خود انسان بھی، تب صرف
یہی یادیں رہ جاتی ہیں جو وقت کی دھول میں بھی چمکتی رہتی ہیں۔ شاید اسی
لیے دل چاہتا ہے کہ وہ لمحے، وہ باتیں، وہ احساسات، وہ خاموشیاں جو کبھی ہم
نے کسی کے ساتھ بانٹی تھیں، وہ سب ہمارے ساتھ رہیں۔ کیونکہ شاید وہی کچھ
ایسا ہے جو ہم سے چھینا نہیں جا سکتا۔ اور اگر کبھی زندگی کی شام کسی اجنبی
گلی میں آن ٹھہرے، جہاں کوئی مانوس چہرہ نہ ہو، کوئی اپنا ہاتھ نہ ہو، تب
بھی یہ یادیں ہوں گی جو تھام لیں گی۔ وہ یادیں جنہیں ہم نے وقت کے گرداب سے
بچا کر رکھا۔ وہ روشنی جنہیں ہم نے آنکھوں کے گوشے میں چھپایا، دل کی
دھڑکنوں میں بسا لیا۔ کیا پتہ، کل کا سورج طلوع ہو نہ ہو، لیکن اگر یہ
اجالے ساتھ ہوں تو رات اتنی اندھیری نہیں لگتی۔ زندگی بے شک نامعلوم راستوں
کا سفر ہو، مگر یادوں کی روشنی میں چلنا کبھی اتنا بھاری نہیں ہوتا۔ بس، ان
اجالوں کو مت چھینو، انہیں ہمارے ساتھ رہنے دو، کہ یہی ہمارے اصل ہیں، یہی
ہمارا آسرا ہیں، اور یہی شاید وہ سچ ہیں جو کسی بھی خاموش انجام سے زیادہ
معنی رکھتے ہیں۔
رات کے آخری پہر جب ہر آواز خاموش ہو جاتی ہے، جب دیواروں سے سناٹوں کی
سانسیں سنائی دیتی ہیں، تب دل کے اندر ایک ایسا طوفان اٹھتا ہے جسے لفظوں
میں ڈھالنا ممکن نہیں ہوتا۔ سانسیں چلتی رہتی ہیں، جسم متحرک رہتا ہے، مگر
انسان اندر سے ٹوٹ چکا ہوتا ہے۔ ایک ایسی خاموشی میں ڈوبا ہوتا ہے جس میں
چیخوں کی بھی گونج نہیں رہتی۔ اور انسان خود سے کہتا ہے، میں جی رہا ہوں،
ہاں شاید جی رہا ہوں، مگر کس قیمت پر؟ نہ نیند کی راحت باقی رہی ہے، نہ
جاگنے کا مقصد۔ وہ چہرہ جو کبھی زندگی کا محور تھا، اب کسی اور کے دھیان کا
مرکز بن چکا ہے، اور میں؟ میں اپنی ہی ادھوری یادوں میں دفن ہو رہا ہوں۔
کوشش کی ہے اُس کی ہر گلی سے دور ہو جاؤں، اُس کی ہر نشانی سے نظریں چرا
لوں، اُس کی آواز کو کسی اور کی ہنسی میں دفن کر دوں، مگر کیا یہ سب ممکن
ہے؟ جب دل کسی ایک احساس کے تابع ہو جائے تو زندگی کا ہر لمحہ اسی احساس کے
زیرِ اثر ہوتا ہے۔ ہر جگہ اُس کی موجودگی محسوس ہوتی ہے، یہاں تک کہ جب
آسمان کو تکتا ہوں، تب بھی اُس کے چہرے کا عکس دکھائی دیتا ہے۔ دل چاہتا ہے
سب مٹا دوں، ہر یاد، ہر خیال، ہر تمنّا، مگر یادیں تو وہ زخم ہوتی ہیں جن
پر نہ مرہم لگایا جا سکتا ہے نہ کاٹا جا سکتا ہے۔ وہ تو روح کا حصہ بن جاتی
ہیں، اور جب روح ہی زخمی ہو تو انسان جیتے جی مرتا رہتا ہے۔ اور اب یہ
یادیں چراغ بن کر میرے ساتھ جل رہی ہیں، ہر رات، ہر لمحہ۔ ان کی روشنی میں
میں خود کو تلاش کرنے کی لاحاصل کوشش کرتا ہوں۔ مگر یہ چراغ کبھی اُمید
نہیں دیتے، صرف ماضی کی وہ جھلک دکھاتے ہیں جس میں میں مکمل تھا، جس میں
میں جیتا تھا، جس میں کوئی ایک چہرہ تھا جو میرے ہونے کو معنی دیتا تھا۔ اب
وہ چہرہ کسی اور کی مسکراہٹ کا سبب ہے، اور میں؟ میں صرف سسکتی دعاؤں کا
بوجھ اٹھائے زندہ ہوں۔ میں صرف اُس خوشی کے لیے اللہ کے سامنے جھکا ہوں جو
اب میری نہیں رہی۔ کتنی بار رات کی تنہائی میں میں نے آسمان کی طرف دیکھا
اور بے اختیار پکارا:
”یا رب، اُسے خوش رکھ، وہ جہاں بھی ہو، جس کے بھی ساتھ ہو۔۔۔ اُس کا چہرہ
کبھی غم سے آشنا نہ ہو۔۔۔ اُس کی پلکیں کبھی بھیگیں نہیں۔۔۔ اور اگر میری
چاہت میں کوئی سچائی ہے، تو اُسے زندگی کی ہر راہ پر تیرے نور کی رہنمائی
نصیب ہو۔۔۔“ اور خود؟ میں شاید اُن بددعاؤں کی سزا بھگت رہا ہوں جو کبھی
خود پر مانگی تھیں۔ کہ کاش وہ کبھی نہ ملے، کہ کاش اُس کی خوشی میری جدائی
میں ہو، کہ کاش میں اُس کا کچھ نہ بن سکوں۔ اب بس یہی روشنی باقی ہے، ان
یادوں کے اجالے، جو جلتے ہیں، تپاتے ہیں، جلنے دیتے ہیں مگر بُجھنے نہیں
دیتے۔ نہ دن میں چین ہے، نہ رات کو سکون۔ دل کی دیوار پر اُس کی آواز
گونجتی ہے، اُس کا نام، اُس کی ہنسی، اُس کی خاموشی۔۔۔ اور میں چاہ کر بھی
اُس سے کچھ نہیں کہہ سکتا۔ کاش میں کچھ کہہ پاتا۔۔۔ کاش میں خود سے بھی کچھ
کہہ پاتا۔۔۔ لیکن اب اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ اگر یہ زندگی نہ ہوتی، تو
شاید اتنی اذیت بھی نہ ہوتی۔ یا پھر اگر زندگی کی شام اُس گلی میں آ جائے
جہاں میں نے اُس کو پہلی بار دیکھا تھا، تو شاید اُس ایک لمحے میں سب حساب
برابر ہو جائے۔
یہی انسان کی آواز احساس دلاتی ہے کہ شاید اب زندگی کی شام ہو گءی ہو۔ اور
پھر انسان پکار اُٹھتا ہے کہ:
”اجالے اپنی یادوں کے ہمارے ساتھ رہنے دو،
نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہو جائے۔“
|