امریکی صدر بارک اوبامہ نے لیبیا
کے سابق حکمراں معمر قذافی کی ہلاکت پر تبصرہ کرتے ہوئے 21اکتوبر کو جاری
اپنے بیان میں کہا تھا کہ قذافی کی موت سے ثابت ہو گیا ہے کہ آمریت کو دوام
نہیں اور عرب ممالک کی آمرانہ حکومتوں کا بھی خامہ ضرور ہوگا۔ مالیاتی
اداروں اور تجارتی کارپوریشنوں کی آمریت کے خلاف احتجاجی تحریک عالمی اور
مقامی اثرات کے ساتھ جاری عوامی احتجاج سے بے خبر وائٹ ہاؤس کے روز گارڈن
میں ذرائع ابلاغ سے بات چیت کے دوران امریکی صدرنے دعویٰ کیا تھا کہ لیبیا
میں جمہوریت کاسفر شروع ہوچکا ہے ۔ اپنے ملک کے عوام کی دشواریوں سے بے
پروا اوبامہ نے کہا تھا کہ یہ سفر مختصر نہیں‘ وہاں کے عوام کو طویل سفر
کرنا ہے جس میں مشکلات کا سامنا بھی کرنا ہے جبکہ امریکہ میں احتجاجی تحریک
عالمی اور مقامی اثرات کے ساتھ چل رہی عوامی احتجاج’ وال اسٹریٹ پر قبضہ
تحریک‘ میں ابھی سیاسی پارٹیوں کی دلچسپی کو ہفتہ بھر بھی نہیں گذرا تھا کہ
مسلم تنظیموں نے بھی اس میں شمولیت اختیار کرلی ہے جس سے معاشی عدم استحکام
کے خلاف حتجاج کو تقویت پہنچی ہے۔اپنے بیان میں اوبامہ نے مزید کہا تھا کہ
لیبیا میں ناٹو کا مشن جلد مکمل ہو جائے گا اور وہاں ’آزادانہ اورمنصفانہ
انتخابات بھی ہو گے جبکہ منتخب امریکی حکومت میں مذکورہ تحریک نیویارک کے
علاوہ بہت سے امریکی شہروں تک ہی نہیں پہنچ چکی ہے بلکہ اس احتجاج کو زندگی
کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی حمایت وسعت اختیار کرتی جارہی
ہے جن میں شہری اور سماجی حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیمیں بھی شامل ہیں۔
امریکہ میں موجود مسلم تنظیمیں بھی اب اس احتجاج میں حصہ لے رہی ہیں۔اس
تحریک کو شروع ہوئے دو مہینے ہونے کو آئے ہیں اور نیو یارک سے لے کر
واشنگٹن تک جاری ان احتجاجی ریلیوں میں شرکت کرنے والے کو پولیس سے نمٹنے
اور عدم تشدد کے بارے میں بھی معلومات بھی فراہم کی جارہی ہیں۔واشنگٹن میں
ہونے والے اس مظاہرے میں ایک مقامی یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کے طالب علم
پال ایڈلر نے اس سلسلے میں کہا کہ انیسویں صدی کے اوائل اور بیسویں صدی کے
آغاز میں ان میں شدت آئی۔ وہ صنعتی انقلاب اور جدید سرمایہ دارانہ نظام کے
آغاز کا وقت تھاجس کے ساتھ سماجی حقوق کی تحریکوں اور مزاحمت میں بھی تیزی
آئی جبکہ دوسری طرف نیو یارک میں ان مظاہروں کے نقطہ آغاز وال اسٹریٹ کے
سامنے شہر کی مسلم تنظیموں کے نمائندوں کی شرکت کی دیکھی جا رہی ہے۔ کاونسل
آن امریکن اسلامک ریلیشن اور اسلامک لیڈر شپ کاونسل کی جانب سے امریکہ میں
جاری اس تحریک کا ساتھ دینے کا عزم ظاہر کیا گیا ہے۔لنڈا سارسور ایک اور
اسلامی تنظیم عرب امریکن ایسوسی ایشن سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ
ہم نیو یارک کے مسلمان یہاں آکیوپائے وال اسٹریٹ تحریک سے اظہار یکجہتی
کیلئے جمع ہوئے ۔اسلامک لیڈرشپ کونسل کے امام ایوب عبدل باقی نے اپنی تقریر
میں حضرت محمدﷺ کے آخری خطبے کی بنیاد پر انسانوں کے بنیادی سماجی حقوق کی
وکالت کی ہے۔ انھوں نے وال اسٹریٹ کے بینکوں کے بارے میں مبہم انداز سے بات
کرتے ہوئے سود اور ربا کے نظام کے بارے میں اسلامی احکامات کا ذکر کیا۔
امریکی آئین میں مذہب کیلئے دیئے گئے آزادی اظہار رائے کے حق کے بارے میں
ان کا کہنا تھا کہ امریکی مسلمان اس آزادی سے مستفید نہیں ہو رہے اور انھیں
آج بھی عصبیت اور امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔اسی پر موقوف نہیں بلکہ ان
مظاہروں میں مسلمانوں کے علاوہ امریکہ کی دیگر مقامی اور مزدور تنظیموں کے
نمائندے بھی شرکت کر رہے ہیں۔ بیشتر افراد مصر، تیونس اور لیبیا سے اٹھنے
والی تحریکوں سے متاثر ہوکر ان مظاہروں میں شامل ہوئے ہیں۔تیونس سے تعلق
رکھنے والے ایک ٹیکسی ڈرائیور عبدناصر شمک کا کہنا تھا کہ وہ تیونس میں
انتخابات سے خوش ہیں اور امریکہ میں جاری اس تحریک میں بھی حصہ لے رہے ہیں۔
ان کے بقول اچھی بات یہ ہے کہ تیونس میں بھی اس طرح کی تحریک نوجوانوں نے
شروع کی تھی لیکن سب کو اس کا ساتھ دینا چاہئے۔ امریکیوں کو اس تحریک کا
ساتھ دینا چاہئے۔
اس تحریک کی خاص بات یہ ہے کہ اس کا کوئی لیڈر نہیں ہے لیکن پھر بھی یہ
تیزی سے امریکہ کے مختلف شہروں میں پھیلتی جارہی ہے۔ اس تحریک کے مقاصد بھی
بدلتے رہے ہیں جن میں امریکی جنگوں کی مخالفت‘دولت مندوں پر ٹیکس لگانے اور
معاشی نا ہمواری ختم کرنے کے مطالبات شامل ہیں۔حالانکہ ان مظاہروں کے نتیجے
میں اب تک امریکہ کی معاشی پالیسیوں میں تو کوئی تبدیلی نہیں آئی لیکن
صدارتی انتخابات کی تیاریوں میں مصروف ریپبلیکن اور ڈیموکریٹک پارٹیاں
مظاہرین کو اپنی جانب راغب کرنے کی کوششیں کرتی دکھائی دے رہی ہیں۔ مزید
تفصیلات اس رپورٹ میں۔امریکہ میں حکومت کی معاشی پالیسیوں اور بڑے مالیاتی
اداروں کے خلاف عوامی احتجاج کو شروع ہوئے ایک ماہ ہو چکا ہے۔ اور اب
حکمران ڈیموکریٹک پارٹی اور حزب اختلاف کی ری پبلیکن پارٹی دونوں ہی ان
مظاہروں سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کررہی ہیں۔شروع میں تو ری پبلیکن
پارٹی نے مظاہرین پر کوئی خاص توجہ نہیں دی۔ لیکن پھر صدارتی انتخابات کے
لئے نامزدگی کے امیدواروں مثلاً ہرمین کین نے صورت حال کی ذمہ داری صدر
اوباما پر ڈالنا شروع کی۔سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس حکمت عملی کا
مقصد ووٹروں کی توجہ حاصل کرنا اور ان موضوعات کیلئے ان کی حمایت حاصل کرنا
ہے جنہیں ری پبلیکن پارٹی اہم سمجھتی ہے۔جان فورٹیئر کا تعلق بائے پارٹیزن
پالیسی سنٹر سے ہے۔ان کا کہناہے کہ میرے خیال میں ایک مؤثر نظریہ جو وہ
استعمال کرتے رہیں گے‘ وہ یہ ہے کہ مظاہرین کو اپنی توجہ وال سٹریٹ پر نہیں
بلکہ وہائٹ ہاؤس پر دینی چاہئے۔
ران سینگر جیسے مظاہرین پر یقین کریں تو انہیں اندازہ ہے کہ میڈیا اور
سیاست دان ان کے پیغام کو توڑ مروڑ کر پیش کریں گے۔ ان کا کہناتھا کہ اس سے
بات نہیں بنے گی کیونکہ اب لوگ زیادہ سمجھدار ہو گئے ہیں، اور اسی لئے ہم
یہاں جمع ہیں۔ڈیموکریٹک اراکین نے مظاہرین کے ساتھ شروع سے ہی ہمدردی کا
اظہار کیا۔ سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق امرا ءپر زیادہ ٹیکس کا مطالبہ
ووٹروں کو پارٹی کی جانب راغب کر سکتا ہے۔واشنگٹن کے سینٹر فار امیریکن
پراگریس سے منسلک رووی ٹشیر ا کا کہناہے کہ میرے خیال میں وہ اس سے فائدہ
اٹھانے کی کوشش کریں گے اور یہ ان پیغامات سے مطابقت رکھتا ہے جو صدر
اوباما کی صدارتی مہم کا حصہ ہوں گے لیکن مظاہرین کو اس پر اعتراض ہے۔ وہ
کچھ موضوعات جیسے افغانستان اور عراق کی جنگ اور حکومت کی جانب سے بڑے
مالیاتی اداروں کو دیئے جانے والے امدادی پیکیجز کے سلسلے میں صدر اوباما
سے سخت اختلاف کرتے ہیں۔مظاہرین کا کہنا ہے کہ انہیں کسی سیاسی جماعت کی
حمایت نہیں چاہئے۔ وہ صرف اپنا پیغام آگے بڑھانا چاہتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ
امریکہ کے99فیصد عوام معاشی انصاف کے منتظر ہیں۔ |