اک بار پھر، بس اک بار

رات کی چپ میں جب لفظ سونے لگتے ہیں، اور سانسیں بھی ہولے ہولے چلتی ہیں، تب دل کی دیواروں پر وہ تصویر ابھر آتی ہے، جس سے نظریں چرا لینا میرے بس میں تو نہیں رہا۔ میں جانتا ہوں تم جا چکے ہو، تم نے راستہ موڑ لیا ہے، تمہاری خاموشی اب مستقل ہو چکی ہے، تمہارے قدموں کی چاپ اب میری گلی کا مقدر نہیں رہی۔ پھر بھی، نہ جانے کیوں دل یہی کہتا ہے کہ ایک بار آ جاؤ۔ کچھ کہنے کی ضرورت نہیں، کوئی وضاحت نہیں مانگوں گا۔ بس آ کر بیٹھ جانا میرے سامنے۔ وہی خاموشی، وہی نظر چرانا، وہی بےنیازی، وہی تھوڑا سا ٹھہرنا، میں جانتا ہوں کہ تم پھر چلے جاؤ گے۔ جانتا ہوں کہ اس بار بھی تمہیں روکنے کا کوئی حق نہیں میرے پاس۔ جانتا ہوں کہ تم شاید کچھ بھی نہ کہو، یا اگر کہو بھی، تو وہی زخم دہرانے والے جملے ہوں گے۔ مگر، دل ہے ناں، وہ پھر بھی تمہیں دیکھنے کو ترس رہا ہے۔

کبھی کبھی انسان کو بس اس درد کی تسلی چاہیے ہوتی ہے جو وہ برسوں سے سینے میں پال رہا ہو۔ اور تم، تم وہ درد ہو جسے میں جانے کے بعد بھی دل سے لگا کر بیٹھا ہوں۔ تم وہ زخم ہو جس پر میں نے مرہم لگانا تو سیکھا، پر اسے بھولنا اب تک سیکھ نہ سکا۔

یہ جو لمحات ہیں ناں، جو تمہارے بعد باقی بچے ہیں، یہ میری سانسوں کی گنتی تو پوری کر رہے ہیں، مگر زندگی کے ذائقے سے محروم ہیں۔ کوئی شے خوشی نہیں دیتی، کوئی منظر رنگین نہیں لگتا، کوئی بات دل کو چھو نہیں پاتی۔ تمہارے بعد جو باقی رہ گیا ہے، وہ میں ہوں، اور میرا درد۔ تم اگر آ جاؤ، چاہے رنجش لے کر، چاہے شکایتوں کا انبار لیے، چاہے مجھے پھر سے اسی موڑ پر لا کر چھوڑ دو جہاں پہلی بار چھوڑا تھا، تب بھی آ جانا۔ کیونکہ یہ جدائی جتنی بےرحم ہے، تمہاری موجودگی اتنی ہی مہربان تھی، چاہے وہ ستم بھری ہی کیوں نہ ہو۔
میں نے چاہا کہ تمہیں بھول جاؤں، چاہا کہ تمہیں الزام دے کر آگے بڑھ جاؤں، مگر حقیقت یہ ہے کہ نہ بھول سکا، نہ الزام دے پایا۔ اور دیتا بھی کیسے، تم تو کچھ جانتے ہی نہیں، تمہاری کیا غلطی۔ میں تمہارے بغیر جینے کا ہنر سیکھنے کی کوشش کرتا رہا، مگر ہر کوشش ادھوری رہ گئی۔

تم نے جو کچھ بھی کہا، جو بھی کیا، اُس پر سوال نہیں کروں گا۔ شاید تمہیں بھی زندگی نے مجبور کیا ہو، شاید تمہیں بھی کوئی ایسی دردناک راہ ملی ہو جس میں میرے لیے جگہ نہ ہو۔ مگر پھر بھی، دل کہتا ہے، ایک بار آ جاؤ، جیسے پہلے آتے تھے، خاموشی سے، بغیر زبان کھولے۔ اگر تمہیں کچھ کہنا ہے، تو کہہ دو۔ چاہے وہ حرف میرے دل کو چیر کر رکھ دیں، تب بھی کہہ دو۔ مجھے تمہارے الفاظ سے زیادہ تمہاری موجودگی کی طلب ہے۔ تمہارے آنے سے اگر ایک لمحے کو بھی وہ پرانا وقت لوٹ آئے، تو شاید میرے وجود کو کچھ قرار نصیب ہو۔ یہ ضد نہیں ہے، یہ درخواست نہیں، یہ فقط ایک ٹوٹے ہوئے دل کی آہ ہے۔ بس ایک بار، ہاں، ایک بار پھر، تم لوٹ آؤ۔

تم جانتے ہو، تمہارے بعد میں نے جینے کی نہیں، فقط نبھانے کی کوشش کی ہے۔ صبحوں نے سورج دیکھا، مگر میرے دل میں کوئی روشنی نہیں اُتری۔ راتیں تاریک تھیں اور رہیں، مگر اب اُن میں خوف سے زیادہ تنہائی نے گھر کر لیا ہے۔ تم تھے تو ہر خاموشی میں تمہاری آواز سنائی دیتی تھی، تمہاری سانسوں کی حدت محسوس ہوتی تھی۔ تمہارے بعد یہ خاموشی فقط سونا پن ہے، ایک ایسا خلا جو دن بہ دن اندر ہی اندر مجھے چاٹ رہا ہے۔

کہتے ہیں، وقت مرہم ہے، مگر وقت نے صرف یادوں کی پرتوں کو اور گہرا کیا ہے۔ ہر دن کی گردش مجھے مزید تھکا دیتی ہے، ہر رات کی نیند ادھوری اور بوجھل ہو گئی ہے۔ میرے اندر ایک شور ہے، ایک چیخ ہے جو کبھی نکل نہیں پاتی۔ تم ہوتے تو شاید یہ سب لفظوں میں کہہ دیتا، مگر اب، یہ سب خامشی کی قبر میں دفن ہے۔ کاش تم آ جاؤ، ایسا نہیں کہ تم سے کوئی شکایت باقی ہے، نہیں، میں تم سے اب کچھ نہیں چاہتا۔ نہ محبت، نہ وضاحت، نہ امید، بس تمہاری ایک جھلک، تمہاری موجودگی، تمہاری وہ نظر، جو شاید آج بھی مجھے بےقیمت جانے، بس وہی۔

لوگ پوچھتے ہیں، تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ تم پہلے جیسے نہیں رہے، اور میں ہنستا ہوں، وہی ہنسی جو اندر سے خالی ہے، جو لبوں پر تو ہے، مگر دل میں کہیں نہیں۔ کاش وہ جان سکتے، کہ تمہارے چلے جانے کے بعد میں صرف ایک خول رہ گیا ہوں، جو ہر روز خود کو گھسیٹتا ہے، ہر سانس کو بوجھ بنائے جیتا ہے۔ میرے الفاظ شاید کبھی تم تک نہ پہنچیں، شاید تمہیں کبھی احساس نہ ہو کہ تمہاری خاموشی نے مجھے کہاں لا کر چھوڑا ہے۔ لیکن اگر کبھی تمہارے دل میں ایک لمحے کو بھی یہ خیال آئے کہ ”کاش میں واپس جا سکتی“، تو جان لو کہ دروازہ اب بھی کھلا ہے، نہیں، اس لیے نہیں کہ میں دوبارہ تم سے محبت کا دعویٰ کرنا چاہتا ہوں، بلکہ اس لیے کہ میں اب بھی تمہاری ایک نظر کا مقروض ہوں۔ میں نے سب کچھ ہار دیا، مگر تمہاری تصویر اب بھی دل میں سجائے پھرتا ہوں۔ آو، اگر فقط اس لیے کہ دل توڑنے کے بعد دیکھ سکو کہ کیا بچا ہے۔ آو، تاکہ تم جان سکو کہ تمہاری جدائی نے صرف آنکھیں نہیں، روح بھی ویران کی ہے۔ آو، چاہے پھر سے چلے جانے کے لیے ہی کیوں نہ ہو، مگر آو تو سہی، میں ٹوٹ چکا ہوں، بکھر چکا ہوں، اور اب ان بکھرے ٹکڑوں میں ایک ہی خواہش زندہ ہے، تمہارا ایک لمحہ۔ ایک آخری لمس، ایک آخری نظر، ایک آخری رنجش، بس ایک بار، اک بار پھر، بس اک بار!
"رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ
آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لیے آ"
 

Shayan Alam
About the Author: Shayan Alam Read More Articles by Shayan Alam: 31 Articles with 11736 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.