جب سوات کی گھاٹیوں میں ہریالی چھا جائے، پہاڑوں کی چوٹیاں دھند سے لپٹ
جائیں، اور ٹھنڈی ہواؤں میں بادام اور چیڑ کے درخت سرگوشیاں کریں تو مرغزار
کی طرف جاتی سڑک ایک خوابناک سفر کا آغاز معلوم ہوتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے
جہاں بلند پہاڑوں کے سائے میں ایک شاندار عمارت سفید وقار کے ساتھ کھڑی ہے
"سفید محل" جو نہ صرف ایک پرکشش سیاحتی مقام ہے بلکہ ریاستِ سوات کے شاندار
ماضی کا خاموش گواہ بھی۔
مرغزار، سوات کے مرکزی شہر مینگورہ سے محض 12 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ایک
قدرتی جنت ہے، مگر اس وادی کو جو چیز سب سے الگ اور ممتاز بناتی ہے، وہ ہے
ماربل سے تراشی گئی وہ تاریخی عمارت جو سورج کی روشنی میں موتیوں کی مانند
چمکتی ہے۔
یہ محل آج جس شان سے کھڑا ہے، وہ کوئی اتفاق نہیں بلکہ وژن، ذوق اور
تعمیراتی حُسن کا نتیجہ ہے۔ 1930ء کی دہائی میں سوات کے بانی اور پہلے
حکمران میاں گل عبدالودود المعروف "بادشاہ صاحب" نے جب راجستھان کا دورہ
کیا، تو وہاں کے سنگِ مرمر سے اس قدر متاثر ہوئے کہ انہوں نے اس خوبصورتی
کو سوات کی فضاؤں میں بسانے کا فیصلہ کیا۔
اسی ارادے نے جنم دیا "سفید محل" کو، جس کی تعمیر 1931ء میں شروع ہوئی اور
ایک عشرے کے بعد 1941ء میں مکمل ہوئی۔ محل کی بنیاد میں صرف پتھر اور سیمنٹ
نہیں، بلکہ ایک حکمران کا خواب، ایک علاقے کی شناخت اور ایک عہد کی ثقافت
بھی پیوست ہے۔
محل جس کا ہر زاویہ ایک کہانی ہے، تقریباً تین کنال پر پھیلا ہوا یہ محل 35
فٹ بلند ہے اور اپنے سفید ماربل سے بنی دیواروں اور ستونوں کے باعث دیکھنے
والے کو دور سے ہی اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔ محل تین حصوں میں تقسیم ہے ایک
حصہ بادشاہ صاحب کی رہائش کے لیے مخصوص تھا، دوسرا شاہی مہمانوں کے لیے،
اور تیسرا اُس دور کے برطانوی حکام و خواتین کے لیے مختص کیا گیا تھا۔
یہ محل "موتی محل" کے نام سے بھی جانا جاتا رہا، اور جو ماربل یہاں استعمال
ہوا، وہی آگرہ کے تاج محل میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ یہاں تک کہ کچھ ماربل
بھوپال سے بھی منگوایا گیا، گویا ہر پتھر ایک داستان رکھتا ہے۔
محل میں موجود ڈرائنگ روم، ڈائننگ ہال، میٹنگ روم اور بادشاہ صاحب کا نجی
کمرہ آج بھی اصل حالت میں موجود ہیں، اور ان سے جُڑا ہر کونا تاریخ کے کسی
ورق کی مانند محسوس ہوتا ہے۔
گرمیوں میں جب سوات کا درجہ حرارت بڑھنے لگتا تو بادشاہ صاحب مرغزار کا رخ
کرتے، اور ساتھ میں وزرا، مشیران اور خوانین بھی اس محل میں قیام کرتے۔ یہی
سفید محل اُس زمانے میں گرمائی دارالحکومت بن جایا کرتا تھا ، جہاں شاہی
امور سر انجام دیے جاتے، فیصلے ہوتے، اور فرامین جاری کیے جاتے۔
یہاں کا وسیع لان، ماربل سے تراشے گئے بینچ، اور احاطے میں بنی چھوٹی سی
مسجد آج بھی اس دور کی یاد دلاتی ہے جب اقتدار، سادگی اور شائستگی ایک ہی
مقام پر اکٹھے تھے۔
سفید محل نے صرف ریاستی شخصیتوں کی میزبانی نہیں کی بلکہ بین الاقوامی اہم
شخصیات کا خیرمقدم بھی کیا۔ ملکہ الزبتھ، صدر ایوب خان، اور وزیرِ اعظم
لیاقت علی خان جیسے نامور مہمان یہاں قیام کر چکے ہیں۔ اس کی شہرت اتنی
پھیل چکی تھی کہ انگریز افسران اور غیر ملکی سیاح بھی اسے دیکھنے کے لیے
مرغزار آتے۔
1970ء کی دہائی میں جب ریاستی دور ختم ہوا تو سفید محل کو ایک نئے روپ میں
زندہ رکھا گیا۔ 1973ء میں اسے ایک ہوٹل میں تبدیل کیا گیا، اور تب سے یہ
سیاحوں کے لیے کھلا ہے۔ آج بھی جب کوئی سیاح یہاں آتا ہے تو بادشاہ صاحب کا
ذاتی کمرہ اپنی اصل حالت میں اسے تاریخ کا لمس دیتا ہے۔
سفید محل صرف ایک عمارت نہیں بلکہ ایک طرزِ زندگی کی یادگار ہے۔ یہ ماضی کا
ایک ایسا ورق ہے جسے وقت نے پلٹا تو ضرور، مگر مٹایا نہیں۔ آج بھی جب شام
ڈھلے محل کی دیواروں پر سورج کی سنہری روشنی پڑتی ہے، تو ایسا لگتا ہے جیسے
تاریخ خود اپنے وجود کا اعلان کر رہی ہو۔
|