وقار کی بحالی: بیوہ خواتین کے لیے پنجاب حکومت کی عالمی مثال

جب زندگی اپنے تمام رنگ کھو بیٹھتی ہے، اور خوشیوں کے دروازے بند ہو جائیں، تب ایک عورت جو شریکِ حیات سے محروم ہو چکی ہو، خود کو تنہا، بے بس اور دنیا سے کٹا ہوا محسوس کرتی ہے۔ بیوگی کا صدمہ صرف جذباتی نہیں ہوتا، بلکہ سماجی، مالی اور نفسیاتی پہلوؤں پر محیط ایک گہرا اور پائیدار زخم ہوتا ہے۔ ایک بیوہ عورت اکثر ایسے معاشرے میں جینے پر مجبور ہوتی ہے جہاں اس کی شناخت اس کے شوہر سے جڑی ہوتی ہے، اور شوہر کی وفات کے بعد وہ شناخت بھی چھن جاتی ہے۔ایسے میں اگر کوئی ریاست، اس کے درد کو محسوس کرے اور صرف لفظی ہمدردی نہیں بلکہ عملی اقدام اٹھائے، تو یہ اس ریاست کے بالغ نظری، فلاحی مزاج اور انسان دوستی کا مظہر ہوتا ہے۔ خوش قسمتی سے پنجاب میں ایک ایسی ہی قیادت موجود ہے جس نے بیوہ خواتین کے مسائل کو سنجیدگی سے سمجھا اور انہیں درکار وقار و تحفظ فراہم کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے۔ یہ قیادت وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کی صورت میں ہمارے سامنے آئی ہے۔مریم نواز شریف کا تعلق ایک ایسے سیاسی خانوادے سے ہے جہاں خدمتِ خلق ایک روایت ہے، مگر ان کی اپنی شناخت ان کے عوامی وژن اور سماجی حساسیت میں پنہاں ہے۔ بیوہ خواتین کے عالمی دن پر ان کا بیان روایتی سیاسی بیان بازی نہیں، بلکہ ایک سچے دل کی آواز اور ایک سنجیدہ پالیسی سوچ کا آئینہ دار تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ بیوہ خواتین کو محض ہمدردی کی نہیں، بلکہ ان کا حق دیا جائے گا، انہیں سہارا فراہم کیا جائے گا تاکہ وہ عزت و وقار کے ساتھ جینے کے قابل ہو سکیں۔وزیراعلیٰ پنجاب کے اس بیان نے معاشرے کے ان گم نام چہروں کو روشنی دی جنہیں اکثر پسماندہ، کمزور یا بے سہارا سمجھ کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ ان کی حکومتی پالیسیوں میں اس طبقے کو جو اہمیت دی گئی ہے وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ پنجاب کی موجودہ حکومت انسانی ہمدردی کو اپنے وژن کا بنیادی ستون مانتی ہے۔بیوہ خواتین کے لیے ’’اپنی چھت، اپنا گھر‘‘ پروگرام ایک انقلابی قدم ہے۔ اس پروگرام کے تحت بیوہ خواتین اور سنگل مدرز کو رہائش کے لیے ترجیح دی جا رہی ہے۔ گھر صرف ایک مکان نہیں ہوتا، یہ تحفظ، عزت، مان، اور اپنی خودی کا حوالہ ہوتا ہے۔ بیوگی کے بعد ایک عورت کے لیے سر چھپانے کی جگہ اور اپنے بچوں کے ساتھ محفوظ زندگی بسر کرنا سب سے بڑا چیلنج ہوتا ہے۔ جب حکومت خود ان کے لیے دروازے کھولے تو یہ صرف امداد نہیں، ایک نئی زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔اسی طرح ’’ہونہار اسکالرشپ پروگرام‘‘ ان بچوں کے لیے روشنی کی کرن ہے جو باپ کے سائے سے محروم ہو چکے ہوں۔ تعلیم ایک ایسا ہتھیار ہے جو کسی بھی محروم طبقے کو طاقتور بنا سکتا ہے۔ مریم نواز کا یہ قدم دراصل بیوہ خواتین کو سہارا دینے کے ساتھ ساتھ، ان کے بچوں کو باعزت مستقبل دینے کی عملی کوشش ہے۔ وہ جانتی ہیں کہ اگر بچوں کی تعلیم متاثر ہو جائے تو بیوگی کا زخم نسلوں تک منتقل ہو جاتا ہے۔وزیراعلیٰ نے صرف پالیسی سازی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اس وڑن کو اسلامی اور عالمی تناظر میں بھی پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ اسلام نے بیوہ خواتین کو عزت، وقار اور مکمل حقوق دیے ہیں۔ اگر اسلامی تعلیمات پر صحیح معنوں میں عمل کیا جائے تو کوئی بھی بیوہ عورت احساسِ محرومی کا شکار نہ ہو۔ ان کی سوچ ایک ماڈرن، بیدار مغز اور مذہب سے جڑی ہوئی حکمرانی کی عکاسی کرتی ہے۔عالمی تناظر میں مریم نواز نے کشمیر، غزہ اور ایران جیسے خطوں میں جاری جنگوں اور ان کے نتیجے میں بیوہ ہونے والی خواتین کا ذکر کر کے نہ صرف انسانیت کو جھنجھوڑا بلکہ عالمی ضمیر کو بھی پکارا۔ ان کا کہنا بالکل درست ہے کہ بیوگی کا دکھ قوم، نسل یا مذہب سے بالا تر ہے۔ یہ ایک انسانی المیہ ہے اور دنیا کو اس پر خاموشی اختیار کرنے کے بجائے عملی اقدامات اٹھانے ہوں گے۔مریم نواز شریف کا اندازِ حکمرانی انفرادی دکھوں کو اجتماعی سوچ میں بدلنے کا ہنر رکھتا ہے۔ انہوں نے ویمن پروٹیکشن اتھارٹی اور محکمہ سوشل ویلفیئر کو ہدایات دی ہیں کہ بیوہ خواتین کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جائے۔ ان کے لیے سرکاری وسائل، قانونی مدد، نفسیاتی مشاورت اور معاشی بحالی کے اقدامات فوری اور مؤثر ہونے چاہئیں۔ ان کا عزم ہے کہ پنجاب کی کوئی بیوہ خود کو اکیلا نہ سمجھے اور یہ عزم الفاظ کا لبادہ نہیں بلکہ مسلسل عمل کا راستہ ہے۔سیاست میں بہت سے رہنما آتے ہیں، وعدے کرتے ہیں اور گزر جاتے ہیں۔ لیکن کچھ چہرے ایسے ہوتے ہیں جو صرف اعلانات نہیں کرتے بلکہ لوگوں کے زخموں پر مرہم رکھتے ہیں، جو صرف مسائل کا رونا نہیں روتے بلکہ ان کا حل نکالتے ہیں۔ مریم نواز شریف کی قیادت بھی ایسی ہی قیادت ہے۔ ان کے اقدامات پنجاب میں فلاحی ریاست کے تصور کو حقیقت میں ڈھال رہے ہیں۔ان کا وژن اس بات کا گواہ ہے کہ ریاست صرف سڑکیں اور عمارتیں بنانے سے نہیں بنتی، بلکہ انسانوں کی زندگی کو بہتر بنانے سے بنتی ہے۔ بیوہ خواتین کے لیے ان کی سنجیدہ کوششیں اس بات کا اعلان ہیں کہ وہ اقتدار کو نہیں، خدمت کو مقصد سمجھتی ہیں۔اگر دنیا کے دیگر خطے بھی اس طرزِ فکر اور عمل کو اپنالیں، تو وہ لاکھوں بیوہ خواتین جو آج خاموش اذیت میں جی رہی ہیں، ایک نئے صبح کی امید لے کر اٹھ سکتی ہیں۔ بیوہ عورت کا ہاتھ تھامنا صرف ایک فلاحی اقدام نہیں، یہ انسانیت کی سب سے بڑی خدمت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

Sajjad Ali Shakir
About the Author: Sajjad Ali Shakir Read More Articles by Sajjad Ali Shakir: 140 Articles with 159154 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.