دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت — بھارت — جہاں آئین ہر شہری کو مساوی حقوق دینے کا دعویٰ کرتا ہے، وہاں اقلیتوں کی زندگیاں روز آزمائش سے گزرتی ہیں۔ آزادی کے بعد سے آج تک بھارت کا سیکولر چہرہ بار بار فسادات کی آگ میں جھلس چکا ہے۔ ان فسادات میں مسلمانوں، عیسائیوں، دلتوں اور دیگر اقلیتوں کو نشانہ بنایا گیا — کبھی مذہب کے نام پر، کبھی تہوار کے، اور اکثر اوقات سیاسی فائدے کے لیے۔
یہ کالم صرف فسادات کی تاریخ نہیں، بلکہ بھارت میں جمہوریت کے ان زخموں کا بیان ہے جنہیں ریاستی بے حسی، سیاسی مفاد پرستی، اور فرقہ وارانہ نفرت نے ناسور بنا دیا۔
۔ 1969 احمد آباد فسادات
پس منظر: ایک مذہبی جلوس اور اس پر ہونے والے حملے کے بعد ہندو مسلم کشیدگی بڑھی۔ جس سے 512 افراد ہلاک، ہزاروں زخمی، لاکھوں کی املاک تباہ ہوئیں: ان اموات میں 460 کے قریب مسلمان تھے لیکن آج تک انکو انصاف نہ مل سکا
۔ 1983 نیلی، آسام کا قتل عام
آسام میں بنگلہ دیشی مسلمانوں کے خلاف سیاسی تحریک شروع کی گئ جو بعد ازاں خونی فسادات میں تبدیل ہوئ ۔ اور صرف 6 گھنٹوں میں 2000 سے زائد مسلمان شہید،کر دئیے گئے جن میں عورتیں اور بچے شامل تھے۔ حیرت ناک پہلو یہ ہے آج تک کوئی انصاف، نہ کوئی سزا — رپورٹ تک شائع نہیں ہوئی۔
1987 ہاشم پورہ قتل عام
میرٹھ فسادات کے بعد پولیس نے 42 نوجوان مسلمانوں کو حراست میں لے کر گولی مار دی اور اسے پولیس مقابلے کا نام دیا 31 سال بعد چند مجرموں کو سزا، سنائ گئ باقی چھوٹ گئے۔ متاثرین آج بھی انصاف کے منتظر مگر خود کو سیکولر دیش کہنے والا انڈیا ان مظلوموں کو انصاف نہ دلا سکا
2002 گجرات فسادات — منظم نسل کشی؟
گودھرا ٹرین حادثہ، جس میں ہندو یاتریوں کی ٹرین میں آگ لگی جسکا الزام مسلمانوں پر لگایا گیا بعد ازاں تحقیقات میں ثابت ہوا یہ منظم سیاسی سازش کے زریعے کیا گیا تھا تاکے فسادات کروا کر سیاسی فائدہ لیا جا سکے ۔ان فسادات میں 2 ہزار سے زائد مسلمان زندہ جلائے گئے، حاملہ خواتین کے پیٹ چاک کیے گئے۔حیرت کی بات تو یہ تھی کے پولیس خاموش تماشائی بنی رہی جبکے اس وقت کے وزیراعلیٰ نریندر مودی نے "ایکشن لینے" کے بجائے اسے فطری ردعمل" قرار دیا۔
جسکے بعد مودی نے "ہندو لیڈر" کی حیثیت سے چمکنا شروع کیا، اور پھر وہی بنیاد انہیں وزیراعظم ہاؤس تک لے گئی۔
2013 مظفر نگر فسادات اور پھر نریندر مودی کی کامیابی
مظفر نگر فسادات 2013 بھارت کی حالیہ تاریخ کے سب سے خونی اور سیاسی طور پر چارج فسادات میں شمار ہوتے ہیں۔ یہ صرف ایک ہجوم کا جذباتی ردعمل نہیں تھا بلکہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت انتخابی فائدہ حاصل کرنے کی غرض سے ایک مخصوص کمیونٹی کو نشانہ بنایا گیا۔ مظفر نگر کے ایک قصبہ کوال میں ایک مسلمان نوجوان شہنواز اور دو ہندو جاٹ نوجوانوں سچن اور گورَو کے درمیان لڑائی ہوئی، جو مبینہ طور پر "چھیڑ چھاڑ" کے الزام پر ہوئی جس پر ہندؤں نے مسلمان نوجوان شاہنواز کا قتل کر دیا جسکے جواب میں مسلمانوں نے بدلہ لینے کے لیے دونوں ہندو نوجوانوں کا قتل کر دیا جسکے بعد بھارتیہ جنتہ پارٹی اور آر ایس ایس کے لوگوں نے نفرت پھیلانا شروع کی جس سے فسادات شروع ہوگئے اور ان فسادات میں 100 سے زائد لوگوں کی موت واقع ہوئی جن میں 75 مسلمان اور 25 ہندو تھے ان فسادات میں مسلمان عورتوں کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا 50000 کے قریب مسلمانوں کو گھر بھار چھوڑ کر جانا پڑا سینکڑوں مساجد کو شہید کیا گیا ۔۔ نتیجہ آج تک انصاف نہ مل سکا
2020 دہلی فسادات
دہلی فسادات بھارت کی حالیہ تاریخ کے سب سے خطرناک اور متنازعہ فسادات میں شمار ہوتے ہیں، جو نہ صرف مسلمانوں کے خلاف تشدد کا مظہر تھے بلکہ جمہوریت، آزادی اظہار اور شہری حقوق پر حملہ بھی تھے۔ ان فسادات کا تعلق صرف ایک ہجوم کی بربریت سے نہیں بلکہ ایک بڑی سیاسی اور نظریاتی جنگ سے تھا جو ہندوستان کے سیکولر تشخص اور اقلیتوں کے وجود کے خلاف لڑی جا رہی ہے۔
2019 میں بھارتی پارلیمان نے ایک ایسا قانون منظور کیا جس کے تحت صرف ہندو، سکھ، جین، بدھ، پارسی اور عیسائی پناہ گزینوں کو شہریت دی جائے گی — مسلمان اس قانون سے خارج کر دیا گیا ۔پورے ملک میں طلبہ، خواتین اور سماجی کارکنان نے احتجاج کیا۔ دہلی کے شاہین باغ میں مسلم خواتین نے پرامن دھرنا دیا جو عالمی سطح پر مشہور ہوا۔ فروری 2020 کو بی جے پی رہنما کپل مشرا نے کھلے عام پولیس کے سامنے مسلمانوں کو دھمکی دی: "ٹرمپ کے جانے تک ہم پرامن ہیں، اس کے بعد سڑکیں خالی نہ ہوئیں تو خود نمٹ لیں گے۔"
اسکے اگلے ہی دن شمال مشرقی دہلی میں فساد پھوٹ پڑے جسکا دائرہ بعد ازاں جعفرآباد، موج پور، چاند باغ، شیو وہار، گوکل پوری، کھجوری خاص تک پھیل گیا ان فسادات میں 60 لوگوں کی موت ہوئ جن میں 40 کے قریب مسلمان تھے جبکے 5000 لوگ زخمی ہوئے ان فسادات میں 16 مسجد کو جلا دیا گیا ۔۔متعدد رپورٹس کے مطابق پولیس نے مسلمانوں کے خلاف کارروائی کی، جبکہ ہندو ہجوموں کو چھوڑ دیا گیا ۔ دہلی ہائی کورٹ کے جج جسٹس مرلی دھر نے نفرت انگیز تقاریر پر فوری کارروائی کا حکم دیا جسکا نتیجہ یہ نکلا کے اگلے دن ان کا تبادلہ کر دیا گیا۔ ان سب کے باوجود جب مسلمانوں پر ظلم ہوا تو الزام میں مسلمانوں پر لگائے گئے بہت سے مسلم طلبا کو گرفتار کیا گیا ان پر دہشت گردی کے مقدمے چلائے گے مگر کپل مشرا جیسے لوگوں کو ہاتھ تک نہ لگایا گیا ۔ دہلی فسادات کے بعد بھارتیہ جنتہ پارٹی دہلی الیکشن تو ہار گئ مگر اسنے اپنا ہندو ووٹ مزید مظبوط کرلیا
2023–2025: بلڈوزر راج اور نیا بھارت کا فاشزم
ہریانہ، اترپردیش اور مدھیہ پردیش کی ریاستوں میں مسلمانوں کو فساد یا جرائم کا ذمہ دار ٹھہرا کر ان کی املاک کو "غیر قانونی" قرار دے کر بغیر کسی عدالتی کاروائ کے مسمار کیا جاتا ہے جس میں نوح، کانپور، کھرج، اندور کے علاقے شامل ہیں ۔ یہ شاید وہ لسٹ ہے جو میڈیا پر رپورٹ ہوئ باقی جو آئے دن مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں کے ساتھ ہوتا ہے اسے میڈیا پر شائع نہیں کیا جاتا مگر سوشل میڈیا پر ہم آئے روز دیکھتے ہیں فلاں مسلمان نوجوان کو گائے زبح کرنے پر قتل کر دیا گیا فلاں کو ژندہ جلا دیا گیا ۔ کبھی کسی مسجد کو شہید کرکے اس میں مورتیاں ڈھونڈنے کا ڈرامہ کیا جاتا تو کبھی تجاوزات کی آڑ میں مساجد کو شہید کر دیا جاتا کبھی مسجد میں نماز پڑھتے نمازیوں کو باجے بجا کر تنگ کیا جاتا تو کبھی مسجد میں سور کا گوشت پھینک دیا جاتا یہ سب ہندوستان میں ہونے والے معمولی واقعات ہیں جس پر مقار ہندو بنیا چپ سادھے تماشہ دیکھتا ہے لیکن گر کسی مسلمان سے ہندو کا قتل ہو جائے تو میڈیا اس واقعے کو ایسے بڑھاتا جیسے عالمی جنگ شروع ہونے جا رہی ۔ آج جب قیام پاکستان بارے سوچتا تو رونگھٹے کھڑے ہو جاتے کے اگر ہم نے آزادی نے حاصل کی ہوتی تو آج ہم کس ازیت سے گزر رہے ہوتے ۔ ان سب حالات کو دیکھتے ہوئے بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کے لیے محبت پھر سے جاگ جاتی کے کیسے انہوں نے ہمیں ہندو بنے سے آزادی دلوائی اور کیسے ہم آزادی سے سکھ کا سانس کے رہے
پاکستان ژندہ باد
|