بھارت کا منافقانہ کردار
(Dilpazir Ahmed, Rawalpindi)
|
ایک طرف بھارت دنیا میں جمہوریت، ترقی اور ٹیکنالوجی کے دعوے کرتا ہے، دوسری طرف اسی بھارت کی خفیہ سرگرمیاں بتدریج خطے کے امن اور ہمسایہ ممالک کی سلامتی کے لیے ایک مستقل خطرہ بن چکی ہیں۔ حالیہ دنوں میں ایران اور پاکستان کی انٹیلیجنس ایجنسیوں نے جس خفیہ نیٹ ورک کو بے نقاب کیا ہے، اس نے بھارت کے اس منافقانہ چہرے کو مزید واضح کر دیا ہے، جو برسوں سے پردے کے پیچھے رہ کر سازشوں کے تانے بانے بنتا آ رہا ہے۔
خبر یہ ہے کہ بھارتی خفیہ ادارے ’را‘ نے اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کے ساتھ مل کر کم از کم دو سو اسٹار لنک ریسیورز خلیجِ عمان کے راستے ایران میں اسمگل کیے۔ یہ ریسیورز تہران جیسے مرکزی شہروں کی بجائے ساحلی علاقوں اور صوبہ سیستان-و-بلوچستان کے دور دراز قصبات میں نصب کیے گئے، جہاں موساد کے بدنام زمانہ سائبر یونٹ 8200 کی مکمل تکنیکی معاونت موجود تھی۔
ان ریسیورز کی خاص بات یہ تھی کہ یہ ایک محفوظ وی پی این ٹنل کے ذریعے اسرائیلی گراؤنڈ اسٹیشنز سے منسلک تھے، جس کی بدولت ایرانی ائیر ڈیفنس اور سرکاری کمیونیکیشن نیٹ ورکس کی حقیقی وقت میں نگرانی ممکن ہو گئی۔ گویا ایک غیر علانیہ جنگ کا میدان، سیٹلائٹ کمیونیکیشن کی آڑ میں ایران کے اندر کھول دیا گیا۔
صورتحال اس وقت مزید سنجیدہ ہو گئی جب ایرانی پاسدارانِ انقلاب نے بلوچستان سے متصل ایرانی علاقے سراوان میں چھاپہ مار کر ایک خفیہ کمانڈ نوڈ سے پانچ ریسیورز برآمد کیے۔ یہ صرف ایرانی سلامتی پر حملہ نہیں تھا، بلکہ ان ریسیورز سے پاکستان کے جنوب مغربی سرحدی علاقوں کے سگنل لاگز بھی برآمد ہوئے۔ یہی وہ لمحہ تھا جب تہران نے اس معاملے کو قومی سلامتی کمیٹی کے سپرد کیا اور محض 48 گھنٹوں کے اندر اندر اسٹار لنک پر مکمل پابندی لگا دی گئی، جبکہ ریسیور رکھنے کو سنگین جرم قرار دے دیا گیا۔
مشترکہ فرانزک تحقیقات میں انکشاف ہوا کہ یہی نیٹ ورک بلوچ شدت پسند تنظیموں بی ایل اے اور بی ایل ایف کے درمیان خفیہ رابطوں کو زندہ رکھے ہوئے تھا۔ تربت، آواران اور پنجگور کے پہاڑی کیمپوں سے برآمد ہونے والے شواہد نے اس گٹھ جوڑ کو بے نقاب کر دیا۔ مزید تحقیقات سے معلوم ہوا کہ تفتان اور زاہدان کے درمیان چلنے والی مسافر کوچ سروس کو بھی اس اسمگلنگ میں استعمال کیا جا رہا تھا اور بلوچ یکجہتی کمیٹی (BYC) کے نوجوانوں کو ’ٹیک سپورٹ‘ کے نام پر اس سازش میں گھسیٹا گیا۔ انہیں ریسیورز کی تنصیب کے دوران مترجم اور مقامی گائیڈ کے طور پر استعمال کیا گیا، بدلے میں انہیں آن لائن پروپیگنڈہ مہم چلانے کے لیے جدید لیپ ٹاپ، بٹ کوائن والیٹس اور دیگر سہولیات فراہم کی گئیں۔
کراچی میں گرفتار ہونے والے BYC میڈیا ونگ کے دو کارکنان نے اعتراف کیا کہ وہ انہی انکرپٹڈ وِز اکاؤنٹس کو چلاتے رہے، جن سے بی ایل اے کے حملوں کی ذمہ داری لی جاتی تھی۔ یوں یہ سازش صرف ایران تک محدود نہیں رہی بلکہ پاکستان کے حساس علاقوں میں بھی اس کا جال بچھا دیا گیا۔
تحقیقات نے ایک اور خطرناک پہلو کو بھی بے نقاب کیا۔ بھارتی ریاست گجرات کے کنڈلا پورٹ سے ان ریسیورز کو ’ڈپلومیٹک کارگو‘ کے جعلی ٹیگ کے تحت روانہ کیا گیا، پھر عمان میں راس الحد کے نجی گودام میں دوبارہ پیکنگ کی گئی اور چھوٹی کشتیوں کے ذریعے ایرانی ساحل تک پہنچایا گیا۔ ہر کھیپ کے ساتھ ایک مخصوص اپڈیٹ فائل آتی تھی، جس پر اسرائیلی یونٹ 8200 کے کوانٹم سائنچر ثبت ہوتے تھے۔
ایران نے بروقت اقدامات کرتے ہوئے ملک بھر میں سیٹلائٹ کمیونیکیشن ریگولیٹری فریم ورک کا ازسرِنو جائزہ لیا اور سیستان-و-بلوچستان میں فائبر آپٹک لنکس پر ریئل ٹائم ڈیپ پیکٹ انسپیکشن نافذ کر دی گئی۔ پاکستان نے بھی خضدار اور گوادر میں اسپیکٹرم مانیٹرنگ اسٹیشنز کو اپ گریڈ کیا، جن کی نگرانی کی صلاحیت اب دو سو کلومیٹر تک بڑھا دی گئی ہے۔
سب سے اہم پیش رفت یہ ہے کہ دونوں ممالک نے مشترکہ انٹیلیجنس ٹاسک فورس کی مدت 2027 تک بڑھا دی ہے۔ اس فورس کا مقصد سرحدی سائبر خطرات کا سدباب اور بلوچ عسکریت پسند تنظیموں کی مالیاتی رگوں کو کاٹنا ہے۔
دو سو اسٹار لنک ریسیورز کی کہانی محض ایک کھیپ کی برآمدگی نہیں بلکہ اس وسیع نیٹ ورک کا سراغ ہے جس کی جڑیں بھارتی ساحلوں سے جا ملتی ہیں اور کنٹرول اسرائیلی سائبر لیبز کے پاس ہے۔ یہ تمام حقائق بھارت کے اس دہرا معیار کو بے نقاب کرتے ہیں، جو ایک جانب دنیا میں خود کو سب سے بڑی جمہوریت اور ٹیکنالوجی کا علمبردار ظاہر کرتا ہے اور دوسری طرف اپنے ہمسایہ ممالک کی سلامتی اور خودمختاری پر حملہ آور ہے۔
اب وقت آ گیا ہے کہ عالمی برادری خاص طور پر مشرق وسطی کے ممالک بھارت کے اس منافقانہ کردار پر سنجیدگی سے غور کرے۔ سیٹلائٹ کمیونیکیشن اور ہائبرڈ وار کے اس نئے دور میں خاموشی یا نظراندازی کی کوئی گنجائش نہیں رہی۔ پاکستان اور ایران نے بروقت اقدامات کے ذریعے اس گٹھ جوڑ کی کمر ضرور توڑی ہے، لیکن یہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی۔ جب تک بھارت اور اسرائیل کی سازشوں کا ہر پہلو بے نقاب نہ کیا جائے، خطے کا امن خواب ہی رہے گا۔
|
|