"اقوام عالم کی ترقی اور ہماری ترجیحات "
(Fazal khaliq khan, Mingora Swat)
ترقی یافتہ اقوام کی صف میں جگہ حاصل کرنے کیلئے آئی ٹی اور مصنوعی ذہانت کے شعبوں میں ترقی ناگزیر ہے ،کامیابی کیلئے لہو لعب کی گنجائش نہیں سوچنے کی ضرورت ہے ۔ |
|
|
حال ہی میں ایک تصویر وائرل ہوئی جس میں ایلون مسک، جو کہ دنیا کے امیر ترین اور ذہین ترین افراد میں شمار ہوتے ہیں، ٹیسلا کمپنی کے مصنوعی ذہانت (AI) ڈیپارٹمنٹ کے انجینئروں کے ساتھ نظر آئے۔ غور طلب پہلو یہ تھا کہ اُن کے ساتھ موجود ٹیم میں امریکی شہری انگلیوں پر گنے جا سکتے تھے، جبکہ باقی سب کا تعلق بھارت، پاکستان، ملیشیا، فلپائن اور دیگر ایسے ممالک سے تھا جنہیں ہم اکثر "پسماندہ" کہتے ہیں۔ یہ منظر دنیا کے سامنے ایک واضح پیغام رکھتا ہے: ترقی کا انحصار صرف وسائل پر نہیں، بلکہ ترجیحات پر ہے۔ جن ممالک نے اپنے سائنسدانوں، محققین اور انجینئروں کی قدر نہ کی، اُن کے یہ قیمتی ذہن آج کسی اور سرزمین کو چمکا رہے ہیں اور جن اقوام نے ان ذہین دماغوں کو خوش آمدید کہا، آج وہی دنیا کی قیادت کر رہی ہیں سائنسی، اقتصادی اور ٹیکنالوجی کی دوڑ میں۔ کامیاب اقوام کھلاڑیوں اور گلوکاروں کو ہیرو نہیں مانتیں بلکہ وہ سائنسدانوں کو قومی سرمایہ سمجھ کر پالتی ہیں۔ وہاں ریسرچ سینٹرز قائم ہوتے ہیں، اختراعی سوچ کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے، اور یونیورسٹیاں صرف ڈگریاں نہیں بلکہ دریافتیں پیدا کرتی ہیں۔ جب کہ ہم، بدقسمتی سے، آج بھی گانوں کے میلوں، کرکٹ کے تجزیوں اور شوبز کی چمک میں قومی فخر تلاش کرتے پھر رہے ہیں۔ ہمارے ہاں ایک ذہین نوجوان کو اگر کمپیوٹر پروگرامنگ یا ریسرچ میں دلچسپی ہو تو اسے یا تو "نرڈ" سمجھا جاتا ہے یا "بیچارہ"۔ دوسری طرف، جو گٹار تھام لے یا کرکٹ کا بلا اٹھا لے، اُس کے نام پر سوشل میڈیا پر جشن منایا جاتا ہے، ٹرینڈز بنتے ہیں اور اعزازات تقسیم ہوتے ہیں۔ یاد رکھیں، کرکٹ کے چھکے اور گانوں کی آواز وقتی خوشی دے سکتی ہے، لیکن ایک اچھا انجینئر، سائنسدان یا محقق کسی قوم کی تقدیر بدل سکتا ہے۔ اگر ہم واقعی ترقی یافتہ قوم بننا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی ترجیحات بدلنا ہوں گی۔ ہمیں تحقیق اور تعلیم کو وہ مقام دینا ہو گا جو آج کھیل اور تفریح کو حاصل ہے۔ دنیا نے ہمیں ثابت کر دکھایا ہے کہ ہمارے نوجوانوں میں صلاحیت کی کمی نہیں، لیکن انہیں ماحول، مواقع اور اعتماد کی ضرورت ہے۔ اگر ہم نے اپنے باصلاحیت دماغوں کو اپنی ہی سرزمین پر ترقی کے مواقع نہیں دیے تو وہ کل کسی اور ملک کی خدمت میں مصروف ہوں گے جیسے آج ٹیسلا میں ہیں۔ فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے۔ یا تو ہم تحقیق کے میدان میں لیڈر بنیں، یا دوسروں کے لیے صرف محنت کش سپلائی کرتے رہیں۔
|
|