وہ لمحہ جو مکمل نہ ہو سکا

New Page 2
بعض لمحات زندگی میں ایسے آتے ہیں جن کی آمد کا شدت سے انتظار کیا جاتا ہے۔ ہر دن، ہر رات اُن کے خیال میں گزرتی ہے۔ کوئی منظر دل میں بسا رہتا ہے، کوئی خواب پلکوں پہ جھولتا ہے۔ دل چاہتا ہے وہ لمحہ جلد آئے، وہ چہرہ روبرو ہو، وہ آنکھیں بس ایک بار دیکھنے کو مل جائیں۔ کوئی ایک بات ہو جائے، کوئی ایک مسکراہٹ دے جائے، کوئی ایک لمس، ایک خاموش اقرار، جو برسوں کے انتظار کو مٹی میں دفن کر دے۔ مگر کچھ لمحات، چاہنے کے باوجود، مکمل نہیں ہو پاتے۔ وہ آتے ہیں، لیکن ادھورے رہ جاتے ہیں۔ اور دل، وہ تو جیسے اُسی لمحے میں کہیں رُک گیا ہے۔ وقت چلتا رہا، دن رات گزرتے رہے، موسم بدل گئے، لوگ آتے جاتے رہے، لیکن دل نے وہی ایک تصویر تھام رکھی ہے جس میں چہرہ تھا، مگر مکمل نظر نہ آیا۔ ایک آواز تھی، جو پوری طرح سنی نہیں گئی۔ ایک لمحہ تھا، جو ٹھہر نہ سکا۔ اب وہ تصویر، وہ آواز، وہ لمحہ سب خواب کی مانند ہیں۔ خواب، جو آنکھیں بند کرتے ہی لوٹ آتے ہیں، اور آنکھ کھلتے ہی حقیقت کے دھُندلَکے میں تحلیل ہو جاتے ہیں۔
وہ وقت، جب وہ سامنے تھا، شاید بہت مختصر تھا، یا شاید دل کی دھڑکن اتنی تیز تھی کہ پلک جھپکتے سب کچھ گزر گیا۔ چہرہ دیکھا، مگر آنکھوں میں ٹھہر نہ سکا۔ آواز سنی، مگر لفظوں کا مفہوم کہیں فضا میں رہ گیا۔ دل میں لاکھوں باتیں تھیں، پر لب جیسے بند تھے۔ دل میں شور تھا، مگر ماحول ساکت۔ زبان پر سادہ سی دعا تھی کہ کوئی ایک جملہ نکل آئے، کوئی ایک بات ہو جائے، لیکن ماحول کی خاموشی اور دل کی لرزش نے سب کچھ چھین لیا۔ اور جب وہ لمحہ رخصت ہوا، تو ایک تشنگی چھوڑ گیا۔ ایک خلاء، جو نہ وقت بھر سکتا ہے نہ کوئی دوسرا لمحہ۔ دل جیسے گواہی دیتا رہا کہ کچھ کہنا باقی تھا، کچھ سننا ادھورا رہ گیا۔ وہ ایک ملاقات، جس کی امید دل نے برسوں پالی تھی، وہ آ کر چلی گئی، مگر اپنے پیچھے ایک ایسی خاموشی چھوڑ گئی جو دنوں کو ساکت اور راتوں کو بے خواب کر گئی۔ یہ کیسا دکھ ہے، جو مکمل ہونے سے پہلے ہی دل کو زخمی کر جاتا ہے؟ یہ کیسا لمحہ تھا جس میں زندگی کا ایک پورا زمانہ سما جانا چاہیے تھا، مگر وقت اتنا بے رحم نکلا کہ دل کی ایک دھڑکن سے آگے نہ بڑھ سکا؟ شاید یہ وہ دکھ ہے جو اَن کہی باتوں کا ہوتا ہے۔ وہ باتیں جو صرف دل نے سنیں، اور صرف تنہائی نے دہرائیں۔ کاش کوئی پل ایسا ہوتا جس میں وقت تھم جاتا۔ آنکھیں جھُکنے سے پہلے تھوڑی دیر اور دیکھ پاتیں۔ لب بند ہونے سے پہلے تھوڑی سی بات کہہ پاتے۔ مگر ہر آرزو، وقت کے فیصلے کے آگے ہار گئی۔ اب یہ دکھ ایک لمس کی مانند دل پر رہ گیا ہے۔ نہ وہ وقت لوٹ سکتا ہے، نہ وہ شخص، اور نہ ہی وہ موقع۔ مگر دل روز اُسی لمحے کی واپسی کی دعائیں کرتا ہے، حالانکہ جانتا ہے کہ وہ لمحہ اب فقط یاد ہے، ایک ادھورا منظر، ایک اَن کہی بات، ایک خاموش ملاقات۔ یہی تو سب سے زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے، کہ وہ ملا، لیکن مکمل نہ ہوا۔ وہ آیا، مگر تھما نہیں۔ جیسے ہوا چھو کر گزر جائے، جیسے بارش کی بوند ہاتھ پر گرے اور فوراً خشک ہو جائے، جیسے دُور کہیں ساز بجے اور کان اُسے سن نہ سکیں۔ دل کو لگتا ہے کہ اگر وہ پل کچھ دیر اور ٹھہرتا، اگر ایک مسکراہٹ کچھ دیر اور رُکتی، اگر ایک نظر تھوڑا سا اور جھُکتی، تو شاید یہ تڑپ، یہ خلش، یہ پچھتاوا نہ ہوتا۔
کبھی کبھی، انسان زندگی بھر وہی ایک پل جیتا ہے جو مکمل نہ ہو سکا۔ کبھی کبھی انسان کسی کے آنے سے نہیں، اُس کے یوں ادھورے گزر جانے سے بکھرتا ہے۔ کیونکہ جو مکمل نہ ہو، وہ ہمیشہ ذہن میں سوال بن کر رہتا ہے۔ اور سوال, وہ تو وقت کی راکھ میں بھی سلگتے رہتے ہیں۔ انسان چاہے جتنا آگے بڑھ جائے، دل کے کسی گوشے میں وہ ایک لمحہ بیٹھا رہتا ہے, خاموش، مکمل ہونے کی خواہش لیے، آنکھوں میں نمی لیے۔ ایسے لمحات کو بھولنا آسان نہیں ہوتا۔ وہ جسم کے اندر ایک چُبھن بن کر رہ جاتے ہیں۔ ہر بار جب تنہائی میں سانس لیتے ہیں، تو اُن کی یاد دِل پر دستک دیتی ہے۔ اور پھر دل سے آہ نکلتی ہے کہ کاش وہ ملاقات کچھ اور لمحے جیتی، کچھ اور لفظ کہہ دیتی، کچھ اور آنکھوں سے بول لیتی۔ زندگی کی سب سے بڑی تشنگی یہی ہوتی ہے, کہ جب کچھ کہنے کی تمنا ہو، اور وقت چھین لے ہر لفظ۔ جب کسی کو دیکھنے کی خواہش ہو، اور آنکھوں کو جھپکنے کی بھی مہلت نہ ملے۔ اور یہی ادھورے لمحے، عمر بھر کا بوجھ بن جاتے ہیں۔ یہی تو وہ دکھ ہے جو لفظوں میں بیان نہیں ہوتا، جو صرف دل جانتا ہے، اور آنکھیں ہر رات سہتی ہیں۔ وہ ادھوری ملاقات، جو مکمل ہو جاتی، تو شاید دل کا موسم کچھ اور ہوتا۔ لیکن اب، وہ ایک لمحہ، ایک سائے کی طرح ساتھ ساتھ ہے۔ اور ہر آنے والی گھڑی اُس کے مکمل نہ ہونے کا ماتم کرتی ہے۔ پھر اچانک ایک سرد سی لہر رگ و پے میں دوڑتی ہے۔ آنکھوں کے پردے پر وہی منظر دوبارہ لرزتا ہے۔ لمحے بھر کو خیال آتا ہے کہ وہ چہرہ، وہ مسکراہٹ، وہ سانسوں جیسی موجودگی, شاید سب کچھ تو خواب تھا۔ ایک ایسا خواب جو اتنا سچ لگ رہا تھا کہ دل نے مان لیا تھا وہ حقیقت ہے۔ مگر نہیں، اب دل سچ بولنے لگا ہے۔ وہ لمحہ، وہ ملاقات، وہ باتیں، یہ سب تو بس نیند کے کنارے پر بکھرا ہوا ایک خیال تھا۔ ایسا خواب، جو جاگنے کے بعد دل کو ویسا ہی زخمی چھوڑ جاتا ہے جیسے حقیقت کرتی ہے۔ تب اک گہرا سانس سینے میں بھر کے باہر نکلتا ہے۔ آنکھوں سے نمی پونچھتے ہوئے دل خود کو تسلی دیتا ہے کہ شاید خواب ہی بہتر تھے، کیونکہ حقیقت میں تو وہ شخص کبھی آیا ہی نہیں، وہ لمحہ کبھی آیا ہی نہیں، وہ باتیں کبھی کہی ہی نہیں گئیں۔ اور یہی سب سے بڑا دکھ ہے، کہ ہم ایک ایسے لمحے کے لیے تڑپتے رہے، جو کبھی آیا ہی نہیں۔ ایک ایسے چہرے کو یاد کرتے رہے، جسے مکمل دیکھا ہی نہیں۔ ایک ایسی ملاقات کا درد سہتے رہے، جو صرف خیال میں ہوئی، صرف نیند میں ممکن تھی۔ اور نیند سے جاگتے ہی، سب کچھ ویسے کا ویسا خالی۔ وہ جگہ جہاں وہ بیٹھا تھا، وہ خاموشی جس میں اُس کی آواز گونجتی تھی، وہ ہوا جس میں اُس کی خوشبو تھی، اب سب کچھ بے معنی، بے حرکت، بے وجود۔ بس باقی رہ گیا ایک دل، جس کے اندر ایک مکمل خواب ادھورا رہ گیا۔ اور وہ ادھورا پن ہی اب زندگی کا حصہ بن چکا ہے۔ ہمیشہ کے لیے۔

 

Shayan Alam
About the Author: Shayan Alam Read More Articles by Shayan Alam: 46 Articles with 15697 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.