ادب کا حقیقی رنگ اوردائر ہ کار
(Zulfiqar Ali Bukhari, Islamabad)
تحریر و تحقیق: ذوالفقار علی بخاری
گزشتہ کئی برسوں میں ادب کچھ اورمعنوں میں دکھائی دے رہا ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ جس مواد کو پیش کیا جا رہا ہے درحقیقت وہی ادب ہے۔ آپ اگر ایسا سمجھتے ہیں تو یقینی طور پر سمجھنے کا حق رکھتے ہیں لیکن ایسا بالکل نہیں ہے۔ ادب کو نئے رنگ میں کن اسباب و عوامل کی وجہ سے آنا پڑا ہے یہ ایک لمبی بحث ہے۔ فی الوقت اِس پر بات نہیں ہو رہی بلکہ ہم ادب کو سمجھنے کی کوشش کریں گے تاکہ گمراہ کن نظریات کے خاتمے میں مدد مل سکے اورادب کا حقیقی رنگ سامنے آسکے۔ فائقہ خالد اپنے مضمون ”ادب کیا ہے“ میں فرماتی ہیں: ”میتھو آرنلڈ ہر اس علم کو جو کتاب کے ذریعہ ہم تک پہنچے ادب قرار دیتے ہیں۔ والٹر پے ٹر (Walter Pater) کا خیال ہے کہ ادب واقعات یا حقائق کو صرف پیش کردینے کا نام نہیں بلکہ ادب کہلانے کے لیے اظہار بیان کا تنوع ضروری ہے۔“(1) دوسری طرف امجد محمود چشتی فرماتے ہیں: ”وہ تحریر جسے اس طرح سے ترتیب دیا گیا ہو کہ پڑھنے والے کو آگہی اور مسرت حاصل ہو، ادب کہلاتی ہے۔ وہ علم جو کتابوں کے ذریعے ہم تک پہنچے سب ادب ہے۔ اگر انسان کے طور طریقے اور افکار اچھے اور برے ہو سکتے ہیں تو ادب بھی تعمیری و تخریبی ہو سکتا ہے۔“(2) ادب مخصوص اظہار بیان کے تحت کسی فرد کو شعورو آگاہی دیتا ہے اورادب منفی یا مثبت سوچ کا حامل ہو سکتا ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ادب کو منفی نظریات کا حامل ہونا چاہیے۔ ادب کے لبادے میں منفی یا تخریب کاری پرمبنی خیالات کو اجاگر کرنے کی کیوں اجازت دی جائے۔کیا یہ ادب کی تعریف کے منافی نہیں ہوگا؟ادب عام نہیں بلکہ خاص فکر کے انسانوں کی بدولت منظرعام پرآتا ہے۔ اُن کی سوچ کو دیگر انسانوں سے ہٹ کر ہونا چاہیے۔ کیا ادب انتشارپسندی کے لیے قابل قبول ہوسکتا ہے؟ ادب کا بنیادی مقصد انسان کے ظاہر و باطن کو بدلنے اورشعور بیداری تک محدود رہنا چاہیے اورجو ادب اپنے دائرے سے ہٹ جائے اُسے ہم ادب کیونکرکہیں۔ شمیم حنفی اپنی کتاب کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں: جس کم نصیب اوربدہئیت ماحول میں زاغ وزغن نے کہرام مچا رکھا ہو، لکھنا پڑھناسب کاروبار بن چکا ہو اوراہل نظرخاموش رہنے میں عافیت دیکھتے ہوں،معاشرے میں آرٹ اورادب کے رول کی بابت نئے سرے سے سنجیدگی کے ساتھ سوچ بچار ضروری ہے۔کیا قیامت ہے کہ اخلاقی طور پر اپاہج لوگ آرٹ اورادب کی دکانداری میں مصروف ہیں اورذاتی نفع و نمایش سے غرض رکھنے والے اجتماعی قدروں کی پرورش کا دعوا کرتے ہیں، اس عہد کم عیار میں کامرانی اوربڑائی کا مطلب بدل گیا ہے۔ادب، آرٹ، کلچر،سیاست، سب کے گرد ایک سستا بے ڈھنگا رقص جاری ہے۔شہر ت اور رسوائی کے حدود گڈمڈ ہو گئے ہیں۔لہذا ہرزمانے سے زیادہ یہ ضرورت ہمارے اپنے زمانے کی ہے کہ اسے انسانی قدروں کے اخلاقیات کے بھوئے ہوئے سبق یاد لائے جائیں۔“(3) یہ ایک المیہ ہے کہ ادب کے نام پر بہت کچھ کیا جا چکا ہے اورکیا جارہا ہے۔کیا ہمیں ادب کو مقام سے ہٹنے دینا چاہیے؟ یہ ایک اہم سوال ہے جس پر ادب لکھنے والوں کو مل کر سوچنا چاہیے۔ہمیں معاشرے کو بدلنے کے لیے ادب کو حقیقی رنگ میں پیش کرنے کی جسارت کرنی ہوگی۔ اسلم بدر اپنے مضمون”ادب اوراخلاقیات“ میں کچھ یوں فرماتے ہیں: ”ہمارے کلاسیکی ادب میں بھی اعلیٰ کلاسیکیت کے ساتھ عریانیت و فحاشی کے اعلیٰ نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ملا وجہی کی دو مثنویوں ’سب رس‘ اور ’قطب مشتری‘ کی مثالیں کافی ہو نگی۔یاد رکھئے کہ ملا وجہی عالم دین بھی تھے۔ بادشاہ وقت نے اپنے شہزادے کی اخلاقی تربیت کے لئے ملا وجہی سے ’سب رس‘ نام کی مثنوی فرمائش کر کے لکھوائی تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مثنوی میں ’رموز حکومت‘، ’اسرار زندگی‘، ’مذہبی آگاہی‘ کے علاوہ اکثر حصے تعلیمی اور اخلاقی ہیں۔مگر اسی مثنوی میں کچھ مناظر ایسے بھی ہیں جن پر دانشوران کی ترچھی نگاہیں اٹھنی چاہئیں، جن کے خلاف ناقدین کا بے باک قلم اٹھنا چاہئے۔“(4) اسلم بدر نے جو نشاند ہی کی ہے۔ کیا دورحاضر کا ناقد یا محقق اُس پر بات کرنا پسند کرے گا۔ ناقدین اورمحقق اپنی جانبداری سے اکثر ساکھ کھو دیتے ہیں جس کی وجہ سے حقائق سامنے نہیں آتے ہیں۔ دورحاضر کے ادب اطفال پر نگاہ ڈالیں۔آپ کو اندازہ ہوگا کہ بچوں کے ادب کے نام پر کیا کچھ شائع کیاجاچکا ہے۔راقم الحروف نے ادب اطفال کی چند کہانیوں پر انگلی اُٹھائی تو شورمچایا گیا کہ نامور ادیبوں کی تحریروں پرکیوں بات کی جا رہی ہے۔ کیا نونہالوں کی زندگی کو غلط راہ پر گامزن کرنے میں معاونت بُرا عمل نہیں ہے۔ کیا غیرمعیاری لکھنا معمولی جرم ہے؟ افسوس ناک رویہ ہے کہ جنھیں تحقیق،ادب اوراخلاقیات کی سوجھ بوجھ نہیں ہے۔ اُنھیں تحقیق نگاری میں اعلیٰ مقام دے کر ثابت کیا جا رہا ہے کہ معاشرے کے اخلاقی زوال کے اثرات ادب پر گہرے ہو چکے ہیں۔ سعادت حسن منٹو کے شاہ کار افسانوں پر اُنگلیاں اُٹھائی گئیں تھیں لیکن وقت نے ثابت کیا کہ وہ بے مثال تھے۔جسے ادبی قد گھٹانے کی خاطر الزامات عائد کیے گئے۔حالاں کہ سعادت حسن منٹو نے وہی لکھا تھا جو معاشرے میں تھا لیکن اُسے ہضم نہیں کیا گیا۔کیا آپ تلخ سچائی کو معیاری ادب کے روپ میں پیش کرنے پر اُنھیں ادب کا محسن قرار نہیں دیں گے؟ آگے چل کر مضمون نگار اسلم بدر لکھتے ہیں: ”ادب کو بس ادب رہنے دیا جائے۔بس ہمارا با شعور ذہن ہم سے بار بار ایک ہی سوال کرتا رہے۔ ادب کو ہم ادب ہی کیوں کہتے ہیں؟ اسی سوال کا جواب، ادب کا علاقہ ہو گا۔جہاں ہماری تہذیب، ہمارا اخلاق، ہماری ثقافت، ہمارا سماج جیسے۔۔۔۔ عناصر، ہمارے ادب کو زوال آمادہ ہونے سے بچاتے رہیں گے اور ہمارا ادب عروج کی منزلیں طے کرتا رہے گا۔ ان شاء اللہ۔“(4) راقم اسلم بدر کی تائید کرتا ہے کہ ادب کو ادبی حدود میں رہنا چاہیے۔ہمیں ادب کو بارہ مسالے کی چاٹ بنانے سے گریز کرنا چاہیے۔ادب عالیہ ہو یا ادب اطفال اُسے ایک دائرے میں مقید کیا جانا چاہیے۔ ڈاکٹر فاطمہ تنویر کے مضمون ”ادب میں اخلاقی اقدار“ کو دھیان سے سمجھنے کی کوشش کریں تو آپ کو بہت کچھ عیاں ہوگا۔ ”ادب کی دنیا کا جب ہم جائزہ لیتے ہیں تو صحیح و غلط، جائز و ناجائز، اسلامی و غیر اسلامی ادیبوں کی ایک لمبی فہرست موجود پاتے ہیں۔ ان کے افکار و خیالات کا ادب پر گہرا اثر تو ضرور پڑا ہے لیکن ستم بالائے ستم یہ ہے کہ ترقی پسند تحریک نے رہی سہی کسر پوری کر دی۔ خدا سے بیزاری نیشنلزم اور سیکولرزم کا بھوت اس پر ایسا سوار ہوا کہ اس تحریک نے انسان کو ایک بے قید اور بے لگام و آزادی کا تصور دیا۔ آزادی کا یہی وہ تصور ہے جو آج سر چڑھ کر بول رہا ہے کہ ”میرا قلم میری مرضی۔ میرا جسم میری مرضی۔۔“ لیکن بیسویں صدی میں جب اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا دور آیا تو ایسے اہل قلم ادباء و شعراء سامنے آئے جنہوں نے اپنی تحریروں کے ذریعے عوام کے ذہن کو ایک خاص تعمیری رخ پر موڑنے کی کوششیں کی۔ ان میں علامہ اقبال علیہ الرحمہ، مولانا مودودی علیہ الرحمہ کے علاوہ مولانا ماہر القادریؒ، نعیم صدیقیؒ، عامر عثمانیؒ اور پھر آگے چل کر میم نسیم، ابوالمجاہد زاہد، سہیل احمد زیدی، ڈاکٹر سید عبدالباری وغیرھم اوراسی طرح سے بہت سے اہل علم و فن، ادیب و شعرا نے اپنے کلام اور تعمیری مضامین کے ذریعہ ایک بامقصد ادب کو جلا بخشی۔ انہوں نے فحش اور لغو کلام دل لگی، ذہنی پراگندگی، سے نیز بے ربط اور بے سمت زندگی سے رخ کو موڑ کر عوام کو بامقصد زندگی کا عادی بنایا ان کے اندر اخلاقی اقدار کو موتی کی طرح پرونے کا کام کیا۔ انہیں اخلاقی اقدار (مورل ویلیوز)کا پابند بنایا اور یہ بتانے کی کوشش کی کہ ”زندگی بے بندگی شرمندگی ہے“۔ زندگی کا مقصد کیا ہے؟ انہیں مایوسی سے نکال کر امید کی فضا میں جینے کا عادی بنایا۔“(5) پس ثابت ہوا کہ ہمیں ادب کے مثبت تاثر کوپیش کرنا ہوگا تب ہی معاشرے میں بہتری دکھائی دے گی بصورت دیگر جو انتشار پسندی پھیل رہی ہے،وہ پنپتی رہے گی اورہم کہیں گمراہی کا شکار ہوجائیں گے اورادب لکھنے کا مقصد فوت ہو جائے گا۔
حوالہ جات: 1۔ادب کیا ہے؟،فائقہ خالد۔4مئی 2021 https://www.humsub.com.pk/391390/faiqa-khalid/#google_vignette 2۔ادب کیا ہے؟،امجد محمود چشتی۔21جون 2022 روزنامہ دنیا، اسلام آباد 3۔ادب، ادیب اورمعاشرتی تشدّد،شمیم حنفی۔جون2008 مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ، جامعہ نگر، نئی دہلی 4۔ادب اوراخلاقیات، اسلم بدر https://aalamiparwaz.com/index.php/mazameen/item/225-2021-11-02-18-18-56.html 5۔ادب میں اخلاقی اقدار، ڈاکٹر تنویر فاطمہ https://dawatnews.net/adab-mai-akhalkhi-ikhdaar/
|