کچھ لوگ زندگی میں ایسے آتے ہیں جیسے موسمِ بہار کی پہلی ہوا، جیسے صبح کے وقت چائے کی خوشبو، جیسے کسی اجنبی لمحے میں سجی ہوئی مسکراہٹ۔ وہ آ کر ایک لمحے میں دل کا موسم بدل دیتے ہیں، آنکھوں کو امیدوں سے بھر دیتے ہیں، اور روح کے خالی گوشوں میں روشنی کر دیتے ہیں۔ لیکن وہ ہمیشہ کے لیے رُکتے نہیں۔ وہ کسی خاص جگہ سے وابستہ نہیں ہوتے، کسی رشتے کی زنجیر انہیں باندھ نہیں سکتی، اور کسی تعلق کا بوجھ اُن کی پرواز کو روک نہیں سکتا۔ وہ آتے ہیں، اپنا اثر چھوڑتے ہیں، اور پھر کسی ہوائی جھونکے کی طرح دور نکل جاتے ہیں۔ ایسے لوگ خوشبو کی مانند ہوتے ہیں۔ اُن کا وجود ایک نرم لمس کی طرح محسوس ہوتا ہے، پر نظر نہیں آتا۔ وہ پل بھر میں دل کے نہاں خانوں میں اُتر جاتے ہیں اور پھر وہاں ہمیشہ کے لیے بس جاتے ہیں۔ لیکن اُن کی فطرت میں ٹھہراؤ نہیں ہوتا۔ اُن کے قدم کبھی کسی ایک زمین کے نہیں ہوتے، اور اُن کا دل کسی ایک گھر میں قید نہیں ہوتا۔ وہ چلتے رہتے ہیں، بکھرتے رہتے ہیں، اور اُن کا نشان صرف یاد بن کر رہ جاتا ہے۔ مگر یہاں مسئلہ اُس کا ہوتا ہے جو اُن کے لمس سے، اُن کے وجود سے، اُن کی موجودگی سے جُڑ جاتا ہے۔ وہ جو ایک لمحے کے لیے کھِل جاتا ہے، جو اپنی مٹی سے اُگ کر، اُن کی روشنی میں اپنا رنگ پکڑتا ہے، اور جب وہ روشنی چھِن جاتی ہے، تو وہ بکھرنے سے ڈرنے لگتا ہے۔ وہی جس کا دل ایک نرم سا پھول بن چکا ہوتا ہے، وہی جو اُن کے ہونے سے کچھ اور ہو گیا ہوتا ہے، اب اُن کے نہ ہونے سے منتشر ہو جاتا ہے۔ پھول کے لیے سب سے بڑا سوال یہ ہوتا ہے کہ جب وہ جو زندگی کا باعث تھا، وہ جو روشنی، ہوا، اور مہک تھا، وہ چلا گیا، تو اب وہ کہاں جائے؟ وہ کس طرف رُخ کرے؟ وہ جس سمت کھِلا تھا، اب وہی سمت ویران ہو گئی ہے۔ وہ جس احساس پر کھِلا تھا، اب وہی احساس بوجھ بن گیا ہے۔ وہ جو ایک ننھا سا دل تھا، اب حیران ہے کہ وہ جو اُسے جینے کا مفہوم سکھا گیا، اب خود کیوں نہیں ہے؟ وہ کیوں نہیں لوٹتا؟ وہ کیوں بکھر گیا؟ جواب نہیں ملتا، صرف خاموشی رہ جاتی ہے۔ اور اس خاموشی میں اُس پھول کی پتی پتی سوکھنے لگتی ہے۔ پھول کو معلوم ہوتا ہے کہ خوشبو کی فطرت یہی ہے، بکھر جانا، مگر وہ یہ نہیں سمجھ پاتا کہ پھر وہ کیوں اُگا تھا؟ کیوں کسی مہک کی طرف لپکا تھا؟ کیوں اپنی جڑوں کو کھینچ کر اُس سمت بڑھا تھا جس کا کوئی انجام نہیں تھا؟ کچھ سوال صرف دل کے اندر سُلگتے ہیں، اُن کے جواب لفظوں میں نہیں ملتے۔ کچھ جذبے ایسے ہوتے ہیں جو صرف محسوس کیے جا سکتے ہیں، لکھے یا سنائے نہیں جا سکتے۔ ایسا لگتا ہے کہ کائنات نے ہمیشہ سے یہ قاعدہ بنا رکھا ہے کہ جو روشنی دیتا ہے، وہ چلتا بھی بہت تیزی سے ہے۔ جو خوشبو بن کر دل کو مہکاتا ہے، وہ کبھی قید نہیں ہوتا۔ لیکن پھول؟ پھول تو زمین سے بندھا ہوتا ہے، جڑوں کے ساتھ، احساس کے ساتھ، لمس کے ساتھ۔ وہ اُسی زمیں میں جلتا ہے، اُسی میں ٹوٹتا ہے، اور اُسی پر بکھر جاتا ہے۔ اور پھر وہی خاموشی، وہی تنہائی، وہی انتظار۔ جو بکھر جاتا ہے، وہ اپنی مہک تو چھوڑ جاتا ہے، مگر جو بچ جاتا ہے، اُس کے لیے زندگی سوال بن جاتی ہے، کہ اب وہ کس طرف جائے؟ کہاں کھِلے؟ کس روشنی کا پیچھا کرے؟ یا محض سوکھتا رہے، وقت کے بے رحم موسم میں؟ یہی اصل دکھ ہے۔ یہی اصل تنہائی ہے۔ اور یہی کہانی اُن سب کی ہے جو خوشبو کے پیچھے چلے، مگر خود پھول بن کر رہ گئے۔ لیکن پھول کا مسئلہ صرف تنہائی نہیں ہوتا۔ اُس کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ خود کو وہی سمجھنے لگتا ہے جو وہ خوشبو کے ساتھ تھا۔ وہ لمحے، وہ لمس، وہ احساسات اُس کی شناخت کا حصہ بن جاتے ہیں۔ اب جب وہ سب کچھ بکھر چکا ہے، تو پھول کو خود پر بھی یقین نہیں رہتا۔ وہ جو پہلے ایک مکمل وجود تھا، اب اُس کا عکس بھی ٹوٹ چکا ہے۔ اُس کا رنگ ماند پڑنے لگتا ہے، اُس کی خوشبو بدلنے لگتی ہے، اُس کی پتیوں میں وہ چمک نہیں رہتی۔ اور عجیب بات یہ ہے کہ اُس کی خوشبو اب اُسی کو تکلیف دیتی ہے۔ وہی مہک جو پہلے جینے کا سہارا تھی، اب یادوں کا زہر بن چکی ہے۔ وہ ہوا جس میں کبھی وہ مہکتا تھا، اب اُسے بے رحم لگتی ہے۔ وہ دھوپ جو کبھی اُس کے رنگوں کو نکھارتی تھی، اب اُسے جلانے لگی ہے۔ کچھ چیزیں جب چھن جاتی ہیں تو انسان صرف اُن کی کمی محسوس نہیں کرتا، بلکہ اُن کے ساتھ اپنی وہ شکل بھی کھو دیتا ہے جو اُن کی موجودگی سے بنی تھی۔ پھول کی وہ شاخ، وہ نرم پنکھڑیاں، وہ سب کچھ جسے وہ اپنا حسن سمجھتا تھا، اب اُسے بے معنی لگنے لگتا ہے۔ وقت گزرتا ہے، مگر پھول کے لیے وقت بس ایک ایسا آئینہ بن جاتا ہے جس میں وہ ہر روز خود کو ٹوٹتا ہوا دیکھتا ہے۔ اُس کی روح میں کہیں یہ یقین بھی ہوتا ہے کہ شاید خوشبو کبھی لوٹ آئے، مگر وہ بھی جانتا ہے کہ وہ تو بکھر چکی ہے، ہواؤں میں، فضا میں، اور شاید کسی اور باغ میں۔ پھر وہ لمحہ آتا ہے جب پھول خاموش ہو جاتا ہے۔ نہ شکوہ، نہ سوال۔ صرف ایک ساکت سی رضا۔ جیسے وہ مان چکا ہو کہ جو چلا گیا، اُس کی واپسی ممکن نہیں۔ لیکن اُس کے جانے کے بعد جو خالی پن پیدا ہوا، وہ خالی پن اُس کی جڑوں تک سرایت کر چکا ہے۔ یہی خالی پن زندگی بھر اُس کے ساتھ رہتا ہے۔ نہ کوئی لفظ اسے بھر سکتا ہے، نہ کوئی موسم، نہ کوئی نیا لمس۔ وہ ایک ایسی خلا ہے جو باہر نہیں، اندر کہیں ہوتی ہے۔ اور اُس خلا کے ساتھ جینا, شاید سب سے بڑی اذیت یہی ہے۔ تب سمجھ آتا ہے کہ بکھرنے والے کا دکھ اُس کی بکھرنے میں نہیں ہوتا، بلکہ پیچھے رہ جانے والوں کا کرب اصل کہانی ہوتا ہے۔ وہ جو روشنی دے کر، زندگی بخش کر چلا جائے، اُس کا جانا اتنا کربناک نہیں جتنا اُس کا اثر۔ اور وہ اثر, برسوں، صدیوں، سانسوں تک باقی رہتا ہے۔ اور پھر، پھر زندگی کسی کچے خواب کی مانند ہو جاتی ہے، جو ہر صبح آنکھ کھلتے ہی بکھر جاتا ہے، اور ہر رات دل کے کسی کونے میں پھر سے جُڑنے کی ناکام کوشش کرتا ہے۔ پھول اب صرف پھول نہیں رہتا، وہ ایک علامت بن جاتا ہے، کسی کے ہونے کی، کسی کے چھِن جانے کی، کسی کے لمس کی جو اب صرف یاد ہے، اور ایسی یاد جو سانسوں میں رچ بس گئی ہے۔ خوشبو تو فضاؤں میں تحلیل ہو گئی، شاید کسی اور کے حصے میں چلی گئی۔ مگر جو اُس خوشبو سے جُڑا رہا، وہ اب خود سے بھی دور ہو چکا ہے۔ اُسے معلوم ہے کہ وہ خوشبو جس کی طلب تھی، وہ اب اُس کی نہیں رہی، مگر اُس سے جُڑی ہر یاد، ہر لمحہ، ہر لمس، ابھی بھی اُس کے بدن کا حصہ ہے، اُس کے خوابوں کی خاک ہے، اُس کی جاگتی آنکھوں میں چبھنے والا سوال ہے۔ پھول سوچتا ہے کہ کیا اُس کا اُگنا غلطی تھی؟ کیا کسی خوشبو سے امید رکھنا جرم تھا؟ کیا نرم ہو جانا، کسی کی مہک میں ڈھل جانا، اپنی سرشاری کو اُس کے وجود سے جوڑ دینا کمزوری تھی؟ لیکن یہ سب سوالات اب بے وُقت ہو چکے ہیں۔ خوشبو جا چکی ہے، وہ اپنا کام کر چکی ہے، محسوس ہو کر، مہکا کر، بکھر کر۔ اب پھول کے پاس رہ گیا ہے ایک ہراساں وجود، جس میں روشنی کم اور سایے زیادہ ہیں، جس میں رنگ ماند ہیں اور خوشبو ادھوری۔ وقت، جو زخموں کا مرہم ہوتا ہے، یہاں خود زخم بن چکا ہے۔ ہر گزرتا لمحہ اُس کے بکھرنے کا اعادہ کرتا ہے، ہر نئی صبح پچھلی کی یاد دلاتی ہے، اور ہر رات کی خاموشی میں وہ آواز گونجتی ہے جسے اب کوئی سننے والا نہیں۔ زندگی چلتی ہے، وہ پھول بھی شاید چلتا رہے، مگر اب اُس کی راہ میں خوشبو نہیں، صرف خلش ہے۔ اُس کے دل میں امید نہیں، فقط دھواں ہے۔ اور اُس کے لمس میں اب کوئی تازگی نہیں، صرف اک تھکن ہے جو ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔ شاید کبھی، کہیں، کوئی اور خوشبو آئے، شاید کوئی اور لمس اُسے مہکا دے، مگر جو ایک بار مکمل بکھر جائے، وہ پھر کبھی پہلی سی خوشبو نہیں بن سکتا، شاید آس بن جاے۔ مگر وہ صرف پھول رہ جاتا ہے، اک ایسا پھول جو کھِل تو گیا، مگر مہک سے محروم ہو گیا۔ اور یہی اُس کی اصل اذیت ہے۔ |