پاکستان میں جنسی زیادتی اور بچوں کے جنسی استحصال کے حوالے سے حال ہی میں سامنے آنے والے اعداد و شمار انتہائی تشویشناک ہیں۔پورے پاکستان میں کل 7,608 کیسز رپورٹ ہوئے جن میں 2,954 جنسی زیادتی کے واقعات شامل ہیں۔ خیبر پختونخوا (KPK) میں 1,102 کیسز رپورٹ ہوئے، جن میں 366 جنسی زیادتی کے کیسز شامل ہیں، لیکن ان میں سے کسی بھی کیس میں کوئی سزا نہیں ہوئی۔2023 کے پہلے چھ ماہ میں روزانہ اوسطاً 12 بچے جنسی استحصال کا شکار ہوئے، جن کی مجموعی تعداد 2,227 کیسز بنتی ہے۔ متاثرہ لڑکے: 1,020 جبکہ متاثرہ لڑکیاں: 1,207 تھی 2023 میں مجموعی طور پر 4,213 کیسز رپورٹ کیے گئے، جن میں سے تقریباً 3% (تقریباً 127 کیسز) خیبر پختونخوا سے تھے۔
بچوں کی حقوق سے کام کرنے والی تنظیموں کے مطابق 2019 سے 2023 کے دوران خیبر پختونخوا میں کل 1,122 ریپ کیسز رپورٹ ہوئے 2019: 259 کیسز تھی سی طرح سال 2020: 299 کیسز جبکہ 2021: 125 کیسزرہی اسی طرح سال 2022: 365 کیسز جبکہ 2023 (اب تک): 74 کیسز تھی.ان میں سے صرف 81 مجرموں پر فرد جرم عائد کی گئی اور تمام کیسز میں صرف 87 افراد کو سزا ملی۔ریپ کیسز میں سزا کی شرح تقریباً 15% ہے، جو کہ انتہائی کم ہے۔ بچوں کے کیسز میں یہ شرح 29.5% ہے جبکہ خواتین کے کیسز میں صرف 6.3% رہی.
اس طرح کے جرائم کے باوجود، رپورٹنگ کی شرح بہت کم ہے جس کی وجوہات یہ ہیں:معاشرتی دباو¿ اور بدنامی کا خوف سمیت تحقیقاتی اور عدالتی عمل کا ناکافی ہونا، جس کی وجہ سے ریپ اور استحصال کے مقدمات میں سزا کی شرح انتہائی کم ہے۔خیبر پختونخوا میں نمائندگی کی ناکافی صلاحیت: رپورٹ شدہ کیسز حقیقت سے کم ہیں، کیونکہ بہت سے واقعات چھپائے جاتے ہیں۔ قانونی اصلاحات اور خصوصی عدالتوں کا فقدان: فی الحال زیادہ تر معاملات صلح یا سماجی دباو¿ کے باعث دب جاتے ہیں۔اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ پاکستان میں روزانہ 12 بچے جنسی استحصال کا شکار ہو رہے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں رپورٹ شدہ ریپ اور بچوں کے استحصال کے کیسز کی تعداد زیادہ ہے لیکن سزائیں بہت کم۔ معاشرتی اور عدالتی نظام میں فوری اصلاحات اور عوامی شعور کو فروغ دینے کی اشد ضرورت ہے۔
2024 میں پورے پاکستان سے 3,364 کیسز رپورٹ ہوئے جن میں بچوں کا جنسی استحصال، اغوا، گمشدگی اور کم عمری کی شادیاں شامل ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ روزانہ تقریباً 9 بچے متاثر ہو رہے ہیں۔ 2019 سے 2023 کے دوران تقریباً 5,398 کیسز رپورٹ ہوئے جن میں سے 25.1 فیصد (1,360 کیسز) خیبر پختونخوا سے تھے۔
ساحل (Sahil) کی 2022 اور 2023 کی رپورٹس کے مطابق:2022 میں 4,253 کیسز رپورٹ ہوئے، جن میں 55% متاثرہ لڑکیاں اور 45% لڑکے تھے۔ تقریباً دو تہائی کیسز میں ملزمان بچوں کے رشتہ دار یا جاننے والے تھے۔ رپورٹس میں بچوں کے خلاف مسلسل زیادتی، اغوا اور دیگر جنسی تشدد کی نوعیت واضح کی گئی ہے۔2021 میں 3,852 بچے متاثر ہوئے جن میں 2,068 لڑکیاں اور 1,784 لڑکے شامل تھے۔ خاص طور پر، 49 بچے مدارس میں بھی زیادتی کا شکار ہوئے۔2023 کے پہلے چھ ماہ (جنوری تا جون) میں کل 2,227 بچے متاثر ہوئے، جن میں سے صرف 24 کیسز مدارس کے اندر رپورٹ ہوئے، جو رپورٹنگ کے لحاظ سے نسبتاً کم حصہ ہے۔ تاہم، پاکستان میں 36,000 سے زیادہ مدارس ہیں جہاں تقریباً 4 ملین بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں (جن میں سے بہت سے غریب خاندانوں سے ہیں)۔
ساحل کے مطابق، گزشتہ دہائی میں مدارس میں مذہبی کارکنوں یا اساتذہ کے ہاتھوں 359 کیسز میڈیا کی توجہ میں آئے، لیکن زیادہ تر کیسز دبائے گئے کیونکہ متاثرین کے والدین پر دباو¿ ڈالا جاتا رہا۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کی 2020 کی رپورٹ میں متعدد پولیس شکایات کا ذکر کیا گیا جن میں اساتذہ اور مذہبی عہدیداران نے بچوں کو جنسی نشانہ بنایا، لیکن بہت کم کیسز عدالتوں تک پہنچے۔کراچی کے جیل مدرسہ واقعہ (2011) جیسے واقعات، جہاں 50 بچے زنجیروں میں بند، تشدد اور ممکنہ جنسی زیادتی کا شکار تھے، ایک سنگین خودساختہ سزاگاہ کی علامت سمجھے گئے۔ ریڈٹ رپورٹس میں مانسہرہ کے ایک واقعے کا ذکر ہے جہاں ایک مدرسے کے استاد نے 10 سالہ بچے کو 100 بار تک زیادتی کا نشانہ بنایا — ایک انتہائی دل دہلا دینے والا واقعہ۔
مدارس کے نظام میں نگرانی کا فقدان ہے، لاکھوں بچے ایسے نظام میں ہیں جہاں شفاف نظم و نسق موجود نہیں۔ شکایات کو دبایا جاتا ہے — مذہبی اداروں کے اثر و رسوخ کی وجہ سے والدین اور بچے خوف میں خاموش رہتے ہیں۔ رپورٹنگ کا شدید فقدان ہے — صرف چند کیسز میڈیا یا عدالت تک پہنچتے ہیں۔ان حالات میں قانونی اصلاحات کی اشد ضرورت ہے، جن میں شامل ہیں مدارس کی نگرانی‘ پولیس کی خود مختاری۔‘ آزادانہ فوجداری کارروائیاں شامل ہیں.
پاکستان میں روزانہ تقریباً 9-13 بچے جنسی استحصال کا شکار ہیں۔ خاص طور پر مدارس میں رپورٹنگ انتہائی کم ہے لیکن متاثرین کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ تعلیمی اداروں کے علاوہ، تعلیم کا فقدان، غربت اور مذہبی دباو¿ اس مسئلے کو مزید پیچیدہ بنا دیتے ہیں۔خیبر پختونخوا (KPK) میں گھر کے اندر بچوں پر جنسی زیادتی کے بارے میں دستیاب مستند رپورٹس اور تحقیق کے نتائج بتاتے ہیں کہ کیسز میں اضافہ ہو رہا ہے:پشاور میں 2019 سے 2021 تک گھریلو تشدد کے حوالے سے 44 کیسز رپورٹ ہوئے۔ہری پور میں 68، ایبٹ آباد میں 62، مانسہرہ میں 43، نوشہرہ میں 84 کیسز بتائے گئے۔یہ تعداد صرف رپورٹ شدہ کیسز ہیں، جبکہ خیال ہے کہ بہت سے واقعات رپورٹ نہیں کیے جاتے۔ ساحل کی 2022 کی رپورٹ کے مطابق: ملک بھر میں 4,253 بچے جنسی استحصال کا شکار ہوئے۔546 بچوں کو اپنے گھروں میں زیادتی کا سامنا کرنا پڑا۔ اگرچہ یہ اعداد پورے ملک پر ہیں، لیکن KPK میں گھریلو تشدد کے کیسز کا تناسب زیادہ ہو سکتا ہے کیونکہ صوبے میں شکایات کی شرح عام طور پر کم ہوتی ہے۔یہ تعداد گھریلو یا دیگر ماحول میں پیش آنے والے واقعات شامل کرتی ہے، جن میں والدین یا گھر کے قریبی افراد ملوث ہوتے ہیں۔ گھریلو زیادتی پر اثرانداز خاموشی: متاثرین عموماً خاندان کے اندر رہتے ہیں اور رپورٹ نہ کر پانے کی وجہ سے ان کی کہانی سامنے نہیں آتی۔
تعداد بڑھتی جا رہی ہے مگر رپورٹنگ محدود ہے — KPK کی عوامی معلومات پنجاب اور سندھ کے مقابلے میں کم ہے۔ ساحل کے مطابق پورے ملک میں روزانہ 12 بچے متاثر ہیں، جن میں سے 546 نے گھریلو جگہ پر زیادتی جھیلی۔ KPK میں بھی زیادہ کیسز پیش آنے کے امکانات موجود ہیں۔گھریلو جنسی تشدد کا مزید تفصیلی صوبائی ڈیٹا جاری کیا جائے تاکہ حقیقی صورتحال سامنے آ سکے۔شہری اور قریبی تعلقات میں زیادتی کے واقعات رپورٹ کرنے کی ثقافت کو فروغ دیا جائے۔خصوصی عدالتیں اور اسپیشل پروٹیکشن یونٹس قائم کی جائیں، خاص طور پر گھریلو کیسز کے لیے۔عوامی شعور اور والدین کی تربیت: 'گڈ ٹچ / بیڈ ٹچ' کی تعلیم لازمی قرار دی جائے۔خیبر پختونخوا میں بچوں پر جنسی زیادتی کے کیسز میں اضافہ ہو رہا ہے، جن میں گھریلو واقعات قابل ذکر حد تک شامل ہیں۔ مکمل تعداد کا درست اندازہ نہیں لگایا جا سکتا، لیکن موجودہ کیسز سے حقیقی صورتحال کا پتہ چلتا ہے۔ پورے ملک میں بچوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے قانون، سماجی شعور اور قانونی مدد کا نظام مضبوط کرنا انتہائی ضروری ہے۔
|