توہینِ رسالت قانون: خاموش وار، گہرا اثر

پروفیسر مسعود اختر ہزاروی کا یہ جاندار کالم توہینِ رسالت کے قانون کے تحفظ کی اہمیت کو اجاگر اور اسے کمزور کرنے کی خاموش سازشوں کو بے نقاب کرتا ہے۔ یہ صرف تحقیقی و تجزیاتی تحریر ہی نہیں بلکہ ہر مسلمان کے ایمان اور عشقِ رسول ﷺ کی آواز ہے۔
پڑھنا نہ بھولیں!
عنوان: توہینِ رسالت قانون: خاموش وار، گہرا اثر

تحریر: پروفیسر مسعود اختر ہزاروی

پاکستان میں توہینِ رسالت کا قانون (دفعہ 295-B/C) محض ایک قانونی شق نہیں، بلکہ کروڑوں مسلمانوں کے ایمان، جذبات اور عشقِ رسول ﷺ کا عملی مظہر ہے۔ یہ قانون امتِ مسلمہ کے دینی شعور اور غیرت کا آئینہ دار ہے۔ تاہم، ان دنوں ایک خاموش مگر منظم کوشش نظر آ رہی ہے جو اس قانون کی روح کو کمزور کر رہی ہے۔ مخالفین ​توہینِ رسالت کے قانون پر اعتراض کرتے ہیں کہ اسے ذاتی دشمنیوں کو نمٹانے یا اقلیتوں کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا باعث بنتا ہے۔ لھذا اس قانون کو ختم کیا جائے یا اس میں ترمیم کر دی جائے۔ عرض یہ یے کہ کسی بھی قانون کا غلط استعمال اس قانون کو ختم کرنے کی دلیل نہیں بن سکتا۔ اگر کسی قانون کا غلط استعمال ہو رہا ہے تو ضرورت اس امر کی ہوتی ہے کہ نظام انصاف کو مضبوط کر کے قانون کا غلط استعمال کرنے والوں کو کڑی سے کڑی سزا دی جائے نہ کہ قانون کو ہی ختم یا تبدیل کر دیا جائے۔ مثال کے طور پر، قتل کا قانون موجود ہے مگر اس کے باوجود قتل کے واقعات ہوتے ہیں۔ کیا ہم قتل کا قانون ختم کر دیں گے؟ ہرگز نہیں۔ اسی طرح، اگر توہینِ رسالت کے قانون کا غلط استعمال ہوا بھی ہے، تو پھر بھی یہ عمل اس قانون کی افادیت یا اس کے مقصد کی نفی نہیں کرتا۔ اگر تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو توہین مذہب کے قانون کے خلاف یہ وہی حکمتِ عملی نظر آتی ہے جو برطانیہ میں ایک صدی قبل اپنائی گئی، جہاں توہینِ مذہب کے قانون کو تدریجی طور پر غیر مؤثر کر کے بالآخر ختم کر دیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان بھی اسی راہ پر گامزن ہے؟ پہلے ہم برطانیہ میں توہین مذہب کے قانون کے بننے سے لے کر خاتمے تک کا مختصر جائزہ لیتے ہیں۔ برطانیہ میں توہینِ مذہب (Blasphemy Law) کا قانون صدیوں تک نافذ رہا۔ 8 جنوری 1697 کو بیس سالہ نوجوان Thomas Aikenhead کو برطانیہ کے شہر ایڈمبرا میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں گستاخانہ کلمات پر پھانسی دی گئی۔ اس وقت معاشرہ اور عدالتیں مذہبی تقدس کے تحفظ کے لیے پرعزم تھیں۔ لیکن وقت کے ساتھ یہ عزم کمزور پڑا۔ 1817ء میں "William Hone Case" میں عدالت نے "نیت" کو قانون کی بنیاد قرار دیا۔ 1883ء میں "George William Foote Case" میں"Lord Chief Justice Coleridge" نے کہا: "ہر تنقید گستاخی نہیں، بدنیتی ضروری ہے۔ بعد ازاں 1921ء کے بعد قانون کا اطلاق عملی طور پر بند ہو گیا۔ بالآخر 2008ء میں Criminal Justice and Immigration Act کے تحت اسے باضابطہ ختم کر دیا گیا۔ یہ ایک مرحلہ وار حکمتِ عملی تھی کہ پہلے قانون کی روح کو عدالتی تشریحات سے کمزور کیا گیا، پھر اسے عوامی شعور سے غیر متعلق بنا دیا گیا اور آخر میں اس کی رسمی منسوخی پر کوئی مزاحمت نہ ہوئی۔ لگتا ہے کہ کچھ لبرل اور دین بیزار قوتیں پاکستان میں بھی وہی حکمتِ عملی اپناناچاہ رہی ہیں۔ لھذا ہمیں جاگتے رہنا چاہیے۔ یاد رہے کہ پاکستان میں دفعہ 295-B/C کے تحت توہینِ رسالت کا قانون ایک دینی، آئینی اور عوامی تقاضا ہے۔ مگر حالیہ دنوں میں عدالتی فیصلوں، قانونی تاویلوں اور "نیت" کے تصور کو مرکزی حیثیت دینے سے اس قانون کی گرفت ڈھیلی کی جا رہی ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے کچھ فیصلوں میں "بدنیتی کے ثبوت" کو لازمی قرار دیا گیا، جس سے قانون کا دائرہ محدود ہو رہا ہے۔ مقدمات کے اندراج میں مشکلات، گرفتاری کے لیے پیشگی عدالتی اجازت اور پراسیکیوشن کی کمزوری جیسے اقدامات اس قانون کو عملاً غیر مؤثر بنا رہے ہیں۔
عوامی شعور کو متاثر کرنے کی کوشش کرتے ہوئے، میڈیا اور بعض حلقوں کی جانب سے یہ بیانیہ پھیلایا جا رہا ہے کہ یہ قانون "انتہا پسندوں کا ہتھیار" ہے اور "انسانی حقوق کے خلاف" ہے۔ اس بیانیہ کے ذریعے عوام کی سوچ بدلنے کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ جب قانون کو مکمل طور پر ختم کیا جائے یا اس میں تبدیلی کر کے غیر مؤثر بنا دیا جائے تو کوئی عوامی ردعمل نہ آئے۔ یاد رہے کہ یہ وہی مراحل ہیں جو برطانیہ میں اپنائے گئے۔ جب عدالتیں مقدمات خارج کرتی ہیں، پراسیکیوشن ناکام ہوتی ہے، اور "نیت" کے نام پر ملزم کو تحفظ ملتا ہے، تو قانون محض کاغذ پر رہ جاتا ہے۔ عوام اسے سنجیدگی سے لینا چھوڑ دیتے ہیں۔ جب قانون عملی طور پر غیر مؤثر ہو جاتا ہے، تو اس کے خاتمے پر کوئی ردِعمل بھی نہیں آتا۔ اب پاکستان میں قانونی اصطلاحات، عدالتی ریمارکس اور "انسانی حقوق" کے پرکشش نعروں کی آڑ میں یہی مقصد کارفرما نظر آتا ہے۔ توہینِ رسالت کا قانون ہمارے ایمان کا تقاضا اور قومی شناخت کا حصہ ہے۔ اگر ہم آج خاموش رہے، تو کل ہمارے آئین، عدالتوں، نصاب اور شعور سے ناموسِ رسالت کا تحفظ ختم ہو جائے گا۔
قانون کی اصل طاقت اس کی عملی تطبیق میں ہوتی ہے، نہ کہ صرف کاغذی وجود میں۔ جب عدالتیں محض نیت کو بنیاد بنا لیں، تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کون سی گستاخی ثابت کی جا سکتی ہے؟ "بدنیتی" ایک ایسا دفاع ہے جو ہر گستاخ کو مہیا کر دیا گیا ہے اور یہی قانون کی جڑ کاٹنے کا پہلا قدم ہے۔ یہی وہ خاموش سازش ہے جو توہینِ رسالت ﷺ کے قانون کو ایک "کاغذی شیر" بنانے کے درپے ہے ایسا قانون جو صرف کتاب میں موجود ہو، مگر عدالت، نظام، میڈیا اور شعور سے غائب ہو چکا ہو۔ یہ وقت ہے کہ حکمرانوں، علماء، وکلاء، ججز، میڈیا اور عوام کو ہوش کے ناخن لیتے ہوئے، مل کر اس کی حفاظت کا مورچہ سنبھالنا ہوگا۔ ورنہ دشمنانِ دین "نرم راستوں" سے وہ سب حاصل کر لیں گے جس میں وہ کئی سازشوں کے باوجود ماضی میں ناکام رہے۔ اگر ہم نے آج اس قانون کا دفاع نہ کیا، تو کل ہماری نسلیں ہمیں ملامت کریں گی۔ یہ کوئی عام قانون نہیں، یہ ہر اہل ایمان کے عشقِ رسول ﷺ کی آواز ہے۔ اسے زندہ رکھیں۔ توہین کے مرتکب ملزمان کی تحقیقات شفاف ہوں اور مجرموں کو قرار واقعی سزائیں ملیں ورنہ لوگ قانون ہاتھوں میں لے لیں گے اور پہلے ہی کئی مسائل میں گھرا وطن عزیز انتشار، خانہ جنگی اور افراتفری کا شکار ہو جائے گا۔
Prof Masood Akhtar Hazarvi
About the Author: Prof Masood Akhtar Hazarvi Read More Articles by Prof Masood Akhtar Hazarvi: 224 Articles with 269546 views Director of Al-Hira Educational and Cultural Centre Luton U.K., with many years’ experience as an Imam of Luton Central Mosque. Professor Hazarvi were.. View More