افسوس تو ہوتا ہے لیکن۔۔۔
(Syed Musarrat Ali, Karachi)
|
ہر شے فانی ہے ، سُو انسان بھی ۔اپنی موت آپ مر جائے، اس کو طبعئی موت کہتے ہیں ، افسوس ہوتا ہےلیکن مار دیا جائے تو اس کو کبھی ظلم اور کبھی انصاف کہتے ہیں، افسوس اس پر بھی ہوتا ہے لیکن ان دونوں اموات سے منسلک دو قسم کے انسان ہوتے ہیں، ایک وہ جو ظالم ہوتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں، دوسرے وہ جو مظلوم ہوتے ہیں اور صرف آہ و بکا کر کے صبر کرنے کی کوشش کرتے ہیں یا ظالم کے بجائے فاتح کہلاتے ہیں اور جشن مناتے ہیں ، دوسرے شہید کہلوا کر صبر کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ سُو ایک ایسا سلسلہ ہے جس کی وجہ تسمیہ مکمل یقین کے ساتھ بیان نہیں کی جاسکتی۔میری سوچ کے مطابق انسان اشرف المخلوقات ضرور ہے اور دیگر مخلوقات کی مانند بے زبان نہیں لیکن زبان ہونے کے باوجود بے زبانوں کی طرح اپنی بد تمیزی والی زبان یا نہایت مہذب زبان کے ذریعے شور مچا کر آکر خاموش ہی ہوجاتا ہے اور ایک مقام پر آکر بے بس ہوجاتا ہے ، بس اسی مقام سے اس طاقت کا خیال آتا ہے جس نے اس کی تخلیق کی ، اسّی سال گذر جانے کے باوجود یہ واضح نہ ہو سکا کہ آکر تخلیق کیوں ہوئی۔لیکن یہ قطعئی طور پر اطمینان ہوگیا کہ ہر انسان کی زندگی میں ایک مقام ضرور ایسا آتا ہے جہاں وہ بے بس ہو جاتا ہےاور خالق کی جانب دیکھتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ خالقِ کائنات دیگر لاتعداد صفات کے ساتھ ہر وہ کچھ کرنے کی طاقت رکھتا ہے جو دیگر کوئی نہیں رکھتا کیونکہ دیگر تمام عناصر اس ہی کی تخلیق ہیں اور کوئی دوسرا خالق ہے ہی نہیں، اگر ہے بھی تو اس سے زیادہ طاقتور نہیں ، اگر ہوتا تو کبھی تو اصلی طاقتور خالق کے کسی فیصلے کو تبدیل کر پاتا جو کہ آج تک تو نہ ہؤا۔گویا اپنی عقلی دلیل کے تحت تسلیم ہے کہ خالقِ کائنات "واحد" ہے اور جو کچھ بھی کر رہا ہے ، صحیح کر رہا ہے کیونکہ اگر کچھ غلط بھی کرے تو کیا میں اس کو صحیح کر سکتا ہوں ؟ جب میں خالق کے کسی کام یا اس کی جانب سے کوئی کروائے جانے والے کام کو صحیح نہیں کر سکتا تو اس کے خلاف شور و غوغا کرنے کا کیا فائدہ؟ اور یہ محض اس وجہ سے ہے کہ وہ قادرِ مطلق ہے ، کوئی اور اس کے مقابلے کا بھی نہیں جس کو میں اس کے مدِ مقابل کھڑا کر سکوں ۔ لہٰذا "اس کی مرضی" کے مطابق چلنے کے علاوہ میرے پاس کوئی اور آپشن ہے ہی نہیں۔نتیجتاً مجھے خالقِ کائنات کے ہر عمل و فیصلے سے اپنے آپ کو ہم آہنگ کرنا پڑے گا تب ہی تو بظاہر ظلم و نا انصافی دیکھ کر صبر آ پائیگا۔ دنیا میں جو کچھ بھی اور جہاں کہیں بھی ظلم و ناانصافی ہورہی ہے ، اگر وہ کوئی مجھ سے کمزور کر رہا ہے تو اس کو تو میں روک بھی سکتا ہوں اور اس کا ازالہ بھی کر سکتا ہوں لیکن اگر کوئی مجھ سے زیادہ طاقتور ظلم و ناانصافی کر رہا ہے تو اس کو میں کیونکر روک پاؤں گا ۔ دنیاوی طاقتور انسان ، معاشرے، قوم اور ملک کے ظلم و ناانصافی کے عمل سے اپنے آپ کو ہم آہنگ کرنے کے بجائے مجھے اپنے اپ کو اس سے زیادہ طاقتور بنانا ہو گا ، تب ہی تو میں اس کے ظلم و نا انصافی کا مقابلہ کر پاؤں گا۔
|