دنیا کا سب سے جدید اور وسیع ائر پورٹ جدہ ائیرپورٹ ہے۔ دو دفعہ آپکی انگلی سکینر پر رکھی گئی اور جان لیا گیا کہ آپ کہاں سے ہیں کون ہیں وسعت اتنی کہ گردن گھما گھما کر دیکھیں تو گردن میں بل پڑنے کا خدشہ ستانے لگے۔ اب ٹانگیں یہاں اس لئے کپکپاتی ہیں کہ آفیسرز کی نظریں تیز اور ان کو صرف عربی آتی ہے حتی کہ انگریزی بھی نہیں سو آپ اور انکا رابطہ صرف یس نو سے ہی ہوگا
بھاگم بھاگ نماز پڑھ کر بس میں سوار ہوئے اس بس نے گھنٹوں کے سفر کے بعد آپکو رہائشی بلڈنگ تک پہنچانا ہے
اب جو ٹینشن مجھے رہتی تھی کہ بھوک لگے گی تو بس میں کھانا کیسے ملے گا سو مزے کی بات کہ بس میں جیسے ہی داخل ہوئے تو سیٹوں پر ہی ایک ڈبہ پڑا تھا۔ جو کہ آںے والے مہمانوں کے لئے لنچ باکس تھا۔
بے تابی جو کہ اسکو کھول کر دیکھنے کی تھی اس کو ایک طرف رکھتے ہوئے سکون سے سیٹ تک گئے دستی سامان سیٹ کیا ڈبہ کھول کر دیکھا اندر عربی مٹھائیاں جوس اور پانی کی بوتلیں تھیں۔ کھا کر مزہ بھی آیا اور بھوک کو سہارا بھی ملا۔
پھر بس چلتی گئی چلتی گئی اور اس دن مجھے پتہ لگا کہ چلتی بس سے باہر دیکھنے کا مزہ تب آتا ہے جب باہر مناظر میں بورڈز ہوں عمارتیں ہوں کیونکہ ریتلے پہاڑ دیکھ دیکھ کر صرف نیند آرہی تھی کہیں کہیں پر سبزہ تھا لمبی لمبی صاف ستھی سڑکیں بھاگتی دوڑتی گاڑیاں
میں نے وقت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سوچا کہ کچھ نوٹس بنا لوں تاکہ بعد میں لکھنے کے کام آئیں۔ کیونکہ یاداشت پر بھروسہ کرنا بجلی پر بھروسہ کرنے جیسا ہی ہے نہ جانے کب چلی جائے۔
پھر جی آبادی بھی نظر آنے لگی اور ہم پہنچے عزیزیہ بس میں ہی بیٹھے تھے اور بس ہماری بلڈنگ کے آگے رکی ایک صاحب آئے اور ایک ایک سے پاسپورٹ لے کر شاپر میں ڈالنے لگے اب شاپر بالکل ایسا تھا جس میں ہمارے ہاں سبزی ڈال کر لاتے ہیں
ارے بھیا یہ شاپر پھٹ گیا اور آلووں کی طرح لڑھک کر کوئی پاسپورٹ صوفے کے نیچے چلا گیا تو اس غریب کا کیا بنے گا جسکا یہ پاسپورٹ ہوگا۔
مگر ظاہر ہے کہا کچھ نہیں
پھر ایک کارڈ اور بینڈ دئے گئے اب جی آپ کے ہاتھ میں ایک بینڈ ہے اور گلے میں دو کارڈ ہیں اور سب سے اہم دستاویز پاسپورٹ حکامت کے قبضے میں ہے۔ جسکے اوپر دخول کی مہر ہے۔ جس کو دیکھنے کے لئے آپ نے دن رات دعائیں کی تھیں۔
اب وہ مہر کارڈ کی صورت آپ کے ہاتھ میں ہے۔ کونسی بس آپکی بلڈنگ کی ہے کس بس میں بیٹھیں گے کہاں پہنچیں گے یہ سب بتایا گیا
بلڈنگز سے اندر پہنچے تو سامان پہلے پہنچ گیا تھا۔ خواتین سٹاف نے مزید ڈبے دیئے جس ایک بڑا ایک چھوٹا اور ایک مزید چھوٹا
جوش میں جلدی سے اپنے کمرے کی چابی لے کر پہنچے تو ڈبے کھولے ڈبے میں تھا مندی مطلب عربی چاول سب سے چھوٹے میں کھجوریں اور اس سے بڑے میں جوس چھوٹی سی مٹھائی اور پانی کی بوتل
مگر مجھے سسپنس تھا کہ ڈائئنگ ہال میں کیا ملے گا۔ وہاں پہنچی تو قورمہ، مٹر پلاو اور کھیر۔ اب فیصلہ مشکل تھا کیا کھانا اور کیا چھوڑنا
|