اقتصادی سماجی ترقی میں روبوٹس کی اہمیت

اقتصادی سماجی ترقی میں روبوٹس کی اہمیت
تحریر: شاہد افراز خان ،بیجنگ

ایسے روبوٹ جو نہ صرف دوڑ سکتے ہیں، ناچ سکتے ہیں اور فٹبال کھیل سکتے ہیں، بلکہ اسمبلی لائن میں پرزے بھی چھانٹ سکتے ہیں، یہاں تک کہ مختلف گیمز کھیل سکتے ہیں اور پیانو کو چھو کر موسیقی بھی تخلیق کر سکتے ہیں، یہ سب کچھ پہلے صرف سائنس فکشن کی کہانیوں تک محدود تھا۔ لیکن اب یہ حقیقت بیجنگ میں منعقدہ عالمی روبوٹ کانفرنس میں دیکھنے کو ملی ۔

عالمی روبوٹ کانفرنس 2025 میں تیزی سے ترقی کرنے والی " ایمبوڈیڈ انٹیلی جنس" ٹیکنالوجی کا عمدہ مظاہرہ کیا گیا، جس میں ہیومنائیڈ یا انسان نما روبوٹ خاص توجہ کا مرکز رہے۔ اس کانفرنس کی مدد سے عالمی سطح پر اور خاص طور پر چین میں اس شعبے میں ہونے والی نمایاں پیشرفت کو انتہائی شان دار انداز سے اجاگر کیا گیا ، جبکہ اس کا مقصد مستقبل کے تجارتی استعمال کے ممکنہ منظرناموں کو بھی روشن کرنا ہے۔اس عالمی تقریب میں فورمز، نمائشیں، مقابلہ جات اور نیٹ ورکنگ تقریبات شامل رہیں۔ دنیا بھر کی 200 سے زائد روبوٹکس کمپنیوں نے اپنی تازہ ترین ایجادات کی نمائش کی۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ چین لگاتار 12 سالوں سے دنیا کا سب سے بڑا صنعتی روبوٹکس صارف مارکیٹ بنا ہوا ہے اور عالمی سطح پر روبوٹکس تیار کرنے والا سب سے بڑا ملک بن گیا ہے۔ ملک کی روبوٹکس صنعت نے 2024 میں تقریباً 33.4 ارب امریکی ڈالر کی آمدنی حاصل کی۔ صنعتی پیمانے کے تناظر میں، چین کی صنعتی روبوٹس کی پیداوار 2015 کے 33 ہزار یونٹس سے بڑھ کر 2023 میں 5 لاکھ 56 ہزار یونٹس تک جا پہنچی۔ خدمات انجام دینے والے روبوٹس کی پیداوار 10 ملین یونٹس سے تجاوز کر گئی ہے ۔ تکنیکی اختراع کے حوالے سے، جولائی 2024 تک چین کے پاس روبوٹکس کے 1 لاکھ 90 ہزار سے زائد موثر پیٹنٹس موجود تھے جو عالمی کل کا تقریباً دوتہائی حصہ ہیں۔

اس وقت چین میں تکنیکی چیلنجز کے باوجود، جدید ترین ٹیکنالوجیز کے ساتھ روبوٹکس کا انضمام نئی جہتیں کھول رہا ہے۔ مصنوعی ذہانت کے ساتھ گہرے انضمام کے ذریعے روبوٹس کام اور زندگی میں اپنی گرفت مضبوط کر رہے ہیں۔ اس سے جدید صنعتی راستوں کو نئے سرے سے تشکیل دیا جا رہا ہے ۔

سماجی شعبہ جات میں روبوٹس کے مفید کردار کی بات کی جائے تو چین بزرگوں کی دیکھ بھال کے شعبے میں مصنوعی ذہانت اور روبوٹکس کے انضمام میں عالمی سطح پر صفِ اول پر ہے، جہاں یہ بڑھتی ہوئی عمر رسیدہ آبادی کے چیلنجز کے لیے انقلابی حل متعارف کرا رہا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق، 2024 کے اختتام تک چین میں 60 سال یا اس سے زائد عمر کے افراد کی تعداد 31 کروڑ تک پہنچ گئی جو کل آبادی کا تقریباً 22 فیصد ہے۔بزرگ دوست روبوٹس جو کبھی ایک بعید تصور تھے، چین کی عمر رسیدہ آبادی کے لیے تیزی سے حقیقت بن رہے ہیں۔

اگرچہ صنعتی روبوٹس کے مقابلے میں یہ ابھی ابتدائی مراحل میں ہیں، لیکن کچھ صارفین پہلے ہی ان کی سہولیات سے مستفید ہو رہے ہیں۔نرسنگ ہوم میں یہ روبوٹ بزرگوں سے بات چیت کر سکتے ہیں، لطیفے سناتے ہیں، موسم کی اطلاع دینا، موسیقی چلانا ، نرسنگ اسٹیشن سے دوائیاں لانا، اخبارات پہنچانا یا دیکھ بھال کرنے والوں کو بزرگوں کی ضروریات کی یاد دہانی بھی کراتے ہیں۔ یہ نیم معذور بزرگوں کو کھڑے ہونے اور چلنے میں مدد بھی دے سکتے ہیں۔اس کے علاوہ، اگر کسی بزرگ کے بستر سے طویل وقت تک غائب رہنے یا بار بار بلانے پر جواب نہ دینے کی صورت میں، روبوٹ فوراً طبی عملے کو انتباہی پیغام بھیج دیتے ہیں۔

ماہرین کے نزدیک روبوٹکس کی یہ ارتقاء ایسے راستے پر ہونی چاہیے جو انسانی معاشروں کی صلاحیت کو بلند کرے، ماحول کا احترام کرے اور مشترکہ خوشحالی کو فروغ دے۔ روبوٹ سازاداروں کو یہ یقینی بنانا ہوگا کہ روبوٹکس کی اختراع نہ صرف قومی مسابقت کو بڑھائے بلکہ عالمی مساوات اور پائیدار ترقی میں بھی حصہ ڈالے۔

 

Shahid Afraz Khan
About the Author: Shahid Afraz Khan Read More Articles by Shahid Afraz Khan: 1584 Articles with 856662 views Working as a Broadcast Journalist with China Media Group , Beijing .. View More