ہماری قوم ”مولاجٹوں“کے کردار سے
اس قدر متاثر ہے ، کہ جب تک کوئی سیاسی رہنما بڑھک سے کام نہیں لیتا، قوم
اس کی طرف متوجہ ہی نہیں ہوتی۔ ہر پارٹی میں وہی فرد زیادہ مقبول ہے جو
زیادہ بڑھکیں مار سکے ، زیادہ نمک مصالحے والے بیانات دے سکے اور مخالفین
کو آڑے ہاتھوںلے سکے۔ ہر پارٹی نے ایسے افراد خاص طور پر رکھے ہوئے ہوتے
ہیں، اگرچہ بعض اوقات ایسے لوگ اپنے قائدین کے لئے مسائل بھی پیدا کردیتے
ہیں، تاہم عمومی طور پر یہ ہر پارٹی کا سرمایہ ہیں۔پی پی کے بابر اعوان اور
فردوس عاشق اعوان (یہ حسن اتفاق ہی ہے کہ پی پی نے مخالفین کے جوابات دینے
کی ذمہ داری اعوانوں پر ہی ڈال رکھی ہے)پنجاب حکومت نے یہ اہم فرض رانا
ثناءاللہ کو سونپاہوا ہے، ایم کیوایم کے تو خود قائد ہی سب پر بھاری ہیں۔
ربع صدی ہوتی ہے کہ پنجاب کی سیاست میں میاں نواز شریف کی صورت میں ایک
جرنیلی نرسری میں ”جمہوری“ کونپل پھوٹی تھی، گورنر جیلانی سے ہوتے ہوئے ان
کی رسائی ضیاءالحق تک ہوگئی ، اور پھر دو روایتی حریف ایسے مقابل ہوئے کہ
26برس گزرنے کے بعد بھی اسی مقام پر کھڑے ہیں، درمیان میں کیا کیا حادثے
رونما ہوئے، کیا کیا قیامتیں گزریں، کتنی جمہوری حکومتوں کا قتل عام ہوا،
عوام کی رائے کا کتنی مرتبہ خون بہایا گیا۔ مشرفی مارشل لاءبھگتنا پڑا، اور
میاں برادران مصائب ومشکلات کا سامنا کرنے کی بجائے قوم اور اپنی پارٹی کو
بے آسرا چھوڑ کر سعودی محلات میں سکونت پذیر ہوگئے، سوائے حکمرانی کے انہیں
دنیاجہان کی نعمتیں دستیاب تھیں۔
1985ءسے 1999ءتک اگر جمہوریت کا پودا تناور درخت نہیں بن سکا تو اس میں کسی
دوسرے یا تیسرے کا نہیں خود انہی دو پارٹیوں کا ہاتھ تھا جو آج بھی ایک
دوسرے کے مقابل ہیں، انہوں نے اس وقت بھی اپنی جھوٹی اناؤں کی خاطر کبھی
دوسرے کی اکثریت کو قبول نہ کیا ، ایک حکومت بنتے ہی دوسرے نے اس کو گرانے
کے لئے تمام حربے استعمال کئے، ادھورے خواب بکھیر کر حکومتیں گرتی رہیں اور
”ہر کہ آمد عمارت نو ساخت “ پر عمل کرتی رہیں، نہ ملک نے ترقی کی، نہ قوم
کو استحکام نصیب ہوا،اور نہ ہی جمہوریت بی بی کی کوئی خدمت ہوسکی۔15برس یہ
دونوں( حکمران)پارٹیاں صرف ایک دوسرے کو نیچادکھانے کے لئے ہی اپنی تمام تر
توانائیاں بروئے کار لاتی رہیں،یہی ان کا سب سے بڑا مقصدِ حکمرانی تھا۔
تاریخ خود کو دہرا رہی ہے ، شاید ایک آمر کا مقابلہ درپیش تھا کہ دونوں
”جمہوری“ پارٹیوں نے ایک دوسرے کو قبول کرلیا تھا اور ایک فوجی آمر کے
مقابلے میں متحد ہوگئے تھے۔ اس کے ملک بدر ہوجانے کے بعد یہ مفاداتی اتحاد
تو چند روز بھی نہیں چلا، شیروشکر ہوجانے والے ایک دوسرے سے دور ہوئے اور
اب آمنے سامنے ہیں۔ اب ایک بار پھر میدان سج گیاہے، فریقین تیروں ، تلواروں
، نیزوں اور شیروں سے مسلح ہوکر میدان میں اتر چکے ہیں، فی الحال تمام
تیروں کو رخ اسلام آباد کی طرف ہے، ”ایوان صدر میں بیٹھا ہوا شخص “ ان کا
نشانہ ہے۔ دوسری طرف وہ”شخص“ مفاہمتی سیاست کا دعویدار ہے، مگر کبھی کبھی
اس کے اندر کا پرانا دشمن جاگ جاتا ہے اور وہ بھی زہر میں بجھے تیر برسانے
سے گریز نہیں کرتا ۔
زمانہ ترقی کرچکا ہے ، اب ایک دوسرے کو کوسنے ، الزامات لگانے ، للکارنے ،
دھاڑنے ، چنگھاڑنے کا زمانہ نہیں، دلیل سے قائل کرنے کا زمانہ ہے،قوم کی
توانائیوں کو مثبت اندازمیں استعمال کرنے کی ضرورت ہے، عوام کو آگاہی دینا
سیاستدانوں کا فرض ہے،قوم کو بتایا جائے کہ حکومت میں فلاں فلاں خرابیاں
ہیں، ان کے مظالم گنوائے جائیں، اور قوم کے سامنے اپنی وہ خدمات بیان کی
جائیںجو اپنے دور حکومت میںسر انجام دی ہیں۔تا کہ عوام جذبات اور ٹکراؤ کی
سیاست کی بجائے عقلی دلیل کی بنا پر فیصلہ کرسکیں کہ اگلے الیکشن میں ہم نے
حکمرانی کا تاج پہنا کر کس کو اقتدار کے ایوانوں میں بھیجنا ہے۔ |