سفر گزشت۔ہندوستان کا ایک سفرنامہ

ہندوستان کے سفرنامے ’سفر گزشت ‘ کی اشاعت سے قبل جناب عتیق صدیقی کانام ادبی حلقوں میں یقینا تعارف کا محتاج تھا لیکن اب یقیننا ایسا نہیں رہے گا۔ 1979 میں کیے گئے اس سفر کی روداد گزشتہ برس کراچی کے اخبار روزنامہ اسلام میں شائع ہوتی رہی تھی۔ مذکورہ اخبار کے قارئین کا ایک مخصوص حلقہ ہے لہذا یہ منفرد اور انتہائی دلچسپ سفری روداد اکثریت کی دسترس سے دور ہی رہی۔ مذکورہ اخبار میں یہ سفرنامہ سو اقساط میں مکمل ہوا۔ جون 2010 میں اسے کراچی کے ایک غیر معروف ناشر ایم آئی ایس نے شائع کیا اور تب بھی قارئین کی اکثریت ’جو رہی سو بے خبری رہی‘ کے مصداق اس سے بے خبر ہی رہی۔ پھر یوں ہوا کہ ایک بڑے اخبار نے اکتوبر 2011 میں ’سفر گزشت ‘ کا ایک مختصر تعارف شائع کیااور ہندوستانی سفرناموں کے شائق ہم اپنے دفتر سے واپسی پر ناشر کی تلاش میں بھٹکتے بھٹکتے اس تک پہنچ ہی گئے۔ ادارے کے منتظم سے عرض کیا کہ رکشے والے نے یہاں پہنچانے کے جو پیسے لیے ہیں وہ کس کھاتے میں جائیں گے؟ انہوں نے جواب میں 350 کی کتاب پر پچاس فیصد رعایت دے دی۔
ہندوستان کے سفرناموں میں چند قابل ذکر نام یہ ہیں :
ہند یاترا ۔ ممتاز مفتی
دیکھا ہندوستان ۔ حسن رضوی
دیواروں کے پار ۔ منیر فاطمی
دلی دور ہے ۔ قمر علی عباسی
سفرنامہ مقبوضہ ہندوستان ۔ سید انیس شاہ جیلانی
تین شہروں کی کہانی ۔ شہزاد منظر
اے آب رود گنگا ۔ رفیق ڈوگر
دلی دور است ۔ عطاءالحق قاسمی

سفرنامہ وہ ہے جو ’سرسری ہم جہان سے گزرے‘ کے بجائے ’ ہرجا جہان دیگر‘ کی مثل ہو۔ 1979 کے اس سفرنامے کو 2011 میں پڑھیے یا پھر 2021 میں، اس کی خوبی یہ ہے کہ اس کا اسلوب کبھی پرانا محسوس نہیں ہوگا۔ عتیق صدیقی اپنے پڑھنے والے کو اپنے ساتھ لے کر چلتے ہیں ، اس کی زبان رواں اور سلیس ہے ، انداز بیاں دل نشیں اور جاذب نظر ہے،واقعات میں زیب داستان کا عنصر نہ ہونے کے برابر ہے۔ اور سب سے بڑی بات تو یہ کہ صنف نازک کا ذکر نہ ہونے کے باوجود بھی یہ ابتدا سے اختتام تک اپنی دلچسپی برقرار رکھتا ہے حالانکہ لکھنو میں اپنے رشتہ داروں سے ملاقات کی خاطر یہ سفر انہوں نے اس وقت کیا تھا جب وہ نوجوان تھے ۔ جملہ معترضہ ہی سہی لیکن ہمارے بعض لکھنے والوں نے تو صنف نازک کے ذکرکو اپنے سفرناموں کا ایک لازمی جز بنایا ہوا ہے۔ اس طرح سفرناموں کی مانگ اور نئے نسخوں کی اشاعت مسلسل میں کبھی کمی نہیں آتی۔ مشتاق احمد یوسفی نے ایک مرتبہ بیان کیا کہ انہوں نے ایک سفرنامہ لکھ رکھا ہے لیکن اسے شائع اس لیے نہیں کرواتے کہ اس میں ذکر صنف نازک عنقا ہے۔ برسوں پہلے ایک واقعہ پڑھا تھا کہ لاہور کے یعقوب ناسک لندن علاج کی غرض سے گئے، وہ ٹیوب میں سفر کررہے تھے، ان کے برابر میں ایک انگریزی خاتون محوخواب تھیں ،سوتے سوتے ان کا سر یعقوب صاحب کے کندھے سے آلگا۔ انہوں نے خاتون کو جگاتے ہوئے کہا ” بی بی اٹھو! میں یقوب ناسک ہوں، مستنصر حسین تارڑ نہیں“۔

ہندوستان ہمارا پڑوسی ملک ہے اور وہاں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد بستی ہے۔ ہندوستان کے ان سفرناموں کی مدد سے قاری وہاں کے عوام کے جذبات و احساسات اور ان کی سوچوں کے رخ سے بخوبی واقف ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قارئین کی ایک بڑی تعداد ان سفرناموں کی ہمہ وقت منتظر رہتی ہے۔

عتیق صدیقی صاحب کے سفر ہندوستان کے ابتدا ہی میں انہیں ایک حادثہ درپیش آگیا تھا ، وہ بذریعہ بس لاہور جارہے تھے کہ راستے میں رات کے وقت بس الٹ گئی، کھڑکی کا شیشہ توڑ کر وہ باہر نکلے اور ایک دوسری بس میں بیٹھ کر لاہور پہنچے جہاں سمجھوتہ ایکسپریس میں سوار ہوکر ہندوستان کی راہ لی۔ عتیق صدیقی امرتسر پہنچے اور وہاں سے لکھنو کا قصد کیا، لکھنو کے لیے وہ ایک ٹرین میں بیٹھے جس کی مدد سے انہیں پہلے جالندھر اور پھر وہاں سے سیالدا ایکسپریس کے ذریعے لکھنو پہنچنا تھا۔ مسافروں سے بھری اس ٹرین میں ہر مسافر کی ایک کہانی تھی لیکن ایک ایسی پاکستانی خاتون بھی سفر کررہی تھیں جن کی کہانی سن کر دوسرے مسافر بھی آبدیدہ ہوگئے۔ لاہور کی رہائشی یہ خاتون برصغیر کی تقسیم کے وقت کا ایک عہد نبھانے کے لیے انبالہ جارہی تھیں، ان کے ہمراہ برتنوں سے بھرا ایک تھیلا تھا ، یہ برتن انہوں نے برسوں سے سنبھال کر رکھے تھے۔تقسیم کے وقت لاہور میں انہیں ایک سکھ خاندان نے پناہ دی تھی جو بعد ازاں ہندوستان روانہ ہوگیا تھا لیکن جاتے جاتے اس گھر انے کی بہو نے اپنے برتنوں پر اس طرح ایک نگاہ حسرت کی جیسے کوئی اپنے کسی پیارے کو آخری بار دیکھ رہا ہو۔ اس لمحے ان خاتون نے خود سے عہد کیا کہ وقت آنے پر یہ امانت انبالہ ضرور پہنچائیں گی۔ ٹرین میں بے انتہا رش کی وجہ سے وہ ایک سردار جی پر خفا ہورہی تھیں جن کی پتلون پر خاتون کے ٹرنک کا کونالگ جانے کی وجہ سے کھرونچا پڑ گیا تھا، رفتہ رفتہ دوسرے مسافروں نے بھی اس نوک جھونک میں دلچسپی لینا شروع کردی، آئیے یہ منظر دیکھتے ہیں:
” آپ پاکستان سے آئی ہیں اماں “۔ ۔کسی نے پوچھا
”ہاں“ ۔ خاتون نے مختصر سا جواب دیا
”کیا حال ہیں پاکستان کے“ ؟ ۔ ۔ ایک لہکتی آواز آئی
”بہت اچھے۔کرم ہے سوہنے رب کا“
”سنا ہے مہنگائی بہت ہے پاکستان میں “ ایک نئی آواز ابھری
”مہنگائی۔ ۔مہنگائی کہاں نہیں ہے؟ تمہارے انڈیا میں مہنگائی نہیں ہے ؟ مہنگائی سے تو دنیا پریشان ہے“
”مگر وہاں آمدنی بھی زیادہ ہے جی۔“ کسی نے اعتراف حقیقت کیا۔” لوگ باگ زیادہ خوش ہیں ہمارے ملک سے“
خاتون بولیں ” تو اور کیا۔مہنگائی ہو بھی تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔بازار بھرے رہتے ہیں خریداروں سے۔“ خاتون کے لہجے میں فخر تھا۔” آج کل ہی دیکھو، وہاں آلو دس روپے کلو بک رہے ہیں مگر لوگوں نے کھانا نہیںچھوڑ دیتے، اسی طرح خرید رہے ہیں جیسے روپے ڈیڑھ روپے میں خریدے جاتے تھے۔“
”دس روپے کلو آلو“ ۔ ۔ کئی تحیر آمیز آوازیں ایک ساتھ ابھریں اور چند لمحوں کے لیے خاموشی چھا گئی۔
”واہ بھئی واہ پاکستان“ کھرونچا زدہ پتلون والے سردار جی بدبدائے تھے۔
خاتون نے ان کی بات سن لی اور بھنا کر زور سے بولیں ” وہاں تیری طرح کپڑے پر ذرا سی لکیر آجانے سے کوئی اتنی بدتمیزیاں بھی نہیں کرتا عورت ذات سے۔ایک تو کیا دس پتلونیں پھٹ جائیں، کسی کو پرواہ نہیں ہوتی۔“
ان کی اس بات پر زور کا قہقہہ پڑا۔
جالندھر ریلوے اسٹیشن پر ’کنڈکٹر گارڈ ‘ کو عتیق صدیقی کا سوا روپے کا نقصان برداشت نہ ہوا اور وہ اس بات پر افسوس کرتا رہا، ادھر صدیقی صاحب کو سوا روپے کے نقصان سے زیادہ وقت کی بربادی کی فکر لاحق تھی اور ساتھ ہی ساتھ اس بات پر حیرت بھی کہ پاکستان میں تو ریلوے کا وہ حال ہے کہ سوائے مسافروں کو لوٹنے کے، اور کوئی کام ہی نہیں ہوتا اور ادھر اس فرض شناس انسان کو سوا روپے کے ضائع ہونے کا اس قدر افسوس تھا۔عتیق صدیقی ہندوستان اور پاکستان کے ریلوے کے نظام میں فرق محسوس کرتے رہے۔ گارڈ صاحب کو ان سے ایسی ہمدردی ہوئی کہ سفر کے آغاز میں انہیں اپنا بستر دے گئے ، صدیقی صاحب کو احساس ہوا کہ دوران گفتگو ان کا لہجہ کچھ زیادہ ہی تلخ ہوگیا تھا ۔ یہ تھے بارہ بنکی کے رہائشی ایس ایم علی جو لکھنو کی روایات کے امین ہونے کے ناتے سلام کے بجائے آداب کہتے تھے اور عتیق صدیقی یہ سوچتے رہ جاتے کہ آداب کے جواب میں کیا کہنا مناسب ہوگا۔ سفر کے اختتام پر ایس ایم علی صاحب نے عتیق صدیقی کو اپنے گھر کا پتہ دیا اور یہ ایک اتفاق تھا کہ اس کے کئی روز بعد لکھنو میں علی صاحب سے ان کی اچانک ملاقات بھی ہوئی اور و ہ لکھنو میں ان کے بھانجے کے مہمان بھی بنے ۔

عتیق صدیقی کو سیالدا ایکسپریس میں سفر کے دوران ہندو معاشرے کی ایک جھلک اس وقت دکھائی دی جب ایک تعلیم یافتہ شخص نے ان کی ناشتے کی دعوت کے جواب میں سخت رویے کا مظاہرہ کیا اور اپنا منہ پھیر لیا، عتیق صدیقی حیران رہ گئے، کچھ دیر بعد وہ صاحب گویا ہوئے:
” مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا، خصوصاً اس لیے کہ مجھے تمہارے بارے میں یقین تھا کہ تم پاکستانی ہو ۔مگر میں ہندو ہوں۔۔اور ہم ہندووں میں اس طرح ایک برتن میں کھانے کو اچھا نہیں سمجھا جاتا ۔اس لیے تمہاری دعوت پر میرا ردّعمل فطری تھا ، بہرحال اس سے تمہیں تکلیف پہنچی جس کے لیے میں تم سے معذرت خواہ ہوں۔ یہ ہندو غیر ہندو کا معاملہ نہیں ہے، ہم ہندو بھی آپس میں اس طرح نہیں کھاتے پیتے “۔

عتیق صدیقی لکھنو کے مضافات میں واقع بستی ’اسیاءمﺅ ‘ میں مقیم اپنے چچا کے گھر پہنچے ، رات ہوچکی تھی ،سب لوگ انہیں دیکھ کر خوشی سے پھولے نہ سمائے ، سفر کی تکان سے چوُر عتیق صدیقی اپنے چچا سے غسل خانے کا پوچھ بیٹھے اور یہ معلوم ہونے پر کہ ایسی کوئی چیز اس گھر میں ہے ہی نہیں، عتیق صدیقی سٹپٹا گئے ۔ غسل خانہ صحن میں واقع ایک چبوترے کو کہا جاتا تھا جہاں گھر کے مرد تہمد باندھ کر غسل کرتے تھے۔ ان کی چچی بولیں ” توتمہارے چچا مکان بنوا رہے تھے تو کتنا کہتی رہی کہ ایک غسل خانہ بھی بنوا لو، محل کھڑا کرلیا مگربالشت بھر کا ایک غسل خانہ نہ بنوایا، اب دیکھو بچہ خیر سے کیسا پریشان ہورہا ہے،تمہارے گھر میں خیر سے غسل خانے ہوں گے، کراچی تو سنتے ہیں بہت بڑا اور ترقی یافتہ شہر ہے۔“

’اسیاءمﺅ‘ میں ایک روز قیام کے بعد عتیق صدیقی ملیح آباد میں مقیم اپنے دوسرے چچا اور نانا کے گھر پہنچے ۔
ملیح آباد ۔ ۔ جوش ملیح آبادی کا شہر۔۔۔ سرپھرے ، غصہ ور باسیوں کی بستی!
نانا کے گھر کے اطراف میں رات کو گیدڑ چلایا کرتے اور جگنو چمکا کرتے تھے۔ کراچی کے باسی مسافر کے لیے جگنو ایک نئی چیز تھا، مبہوت ہو کر دیکھا کیے۔ بڑی نانی نوے برس کی تھیں لیکن سوئی میں دھاگا بنا کسی کی مدد کے ڈالتی تھیں۔ نانا کے گھر میں عتیق صدیقی کی اکثر فرمائش بیسن کی روٹی ہوا کرتی تھی اور ان کی نانی اپنی نند (چھوٹی نانی)سے کہتیں : ” شکر کرو مریم! اللہ نے سستا مہمان بھیجا ہے۔ کہیں مرغ مسلم ، پلاؤ متنجن کی فرمائش کرنے والا ہوتا تو پتہ چل جاتا۔“

نانا کے گھر ایک معصوم سی غلطی بھی عتیق صدیقی سے سرزد ہوئی۔انہوں نے اپنے نانا کو تحفے میں ’پروفیسی ‘ خوشبو کی دو عدد بوتلیں دیں جو انہوں نے کراچی صدر کے علاقے سے پندرہ ر وپے فی بوتل کے حساب سے سرحد (اب خیبر پختونخوا) کے ایک پٹھان سے خریدی تھیں، جواب میں ان کے نانا ان کو دو سو روپے پکڑا دیتے ہیں ۔ سرحد کے پٹھان سے خریدی ہوئی چیز ملیح آباد کے پٹھان تک جاپہنچی ۔ بتیس برس پرانی اس ناجائز ’منافع خوری ‘پر عتیق صدیقی آج تک شرمندہ ہیں!

ملیح آباد میں عتیق صدیقی کو فلم جنون کی فلم بندی کے دوران پیش آنے والا واقعہ سنایا گیا، ستر کی دہائی کے آخر میں جنون کی فلم بندی ہورہی تھی، ملیح آباد کے کچھ پٹھان بھی وہاں موجود تھے، ہیرو (ششی کپور)نے اپنا کام مکمل کروایا اور اپنی قیام گاہ کی طرف جانے کو مڑا، خان صاحبان سے کہہ بیٹھا کہ بھائی ذرا راستہ دے دیجیے ۔اس کے بھائی کہنے پر خان صاحبان کو سخت غصہ آگیا اور انہوں نے ہیرو کی پٹائی کردی۔

” سالے نچنئے،، تیری ایسی کی تیسی، ہمیں بھائی کہتا ہے “۔ ہیرو کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں ، بڑی مشکل سے علاقے کے بڑوں نے درمیان میں پڑ کر اس کی گلو خلاصی کروائی۔

ملیح آباد کے اسی مزاج کی ایک مثال اس وقت سامنے آتی ہے جب مصنف اپنے خالو سے مرگھٹ پر کسی مردے کو نذر آتش کیے جانے کا منظر دیکھنے کی خواہش ظاہر کرتے ہیں۔ ان کے خالو جواب میں کہتے ہیں:
” اماں لاحول بھیجو! وہ بھی کوئی دیکھنے کی چیز ہے۔ اچھا ٹھیک ہے، مرنے تو دو کسی کو۔ یا جلدی ہے تو بولو، مار دیں کسی کو ؟ “

عتیق صدیقی ملیح آباد اور لکھنو کے درمیان آتے جاتے رہے۔ دن کا آغاز مریم نانی کے ہاتھ کے پرتکلف ناشتے سے ہوتا تھا اور دن بھر رشتہ داروں کے ساتھ گھومتے پھرتے گزر جاتا تھا۔ دن گزرتے گئے اور ان کے تیس روزہ ویزے کی مدت ختم ہونے کو آئی۔ ان کا دل کرتا تھا کہ وہ چند دن مزید اپنے آباءکی سرزمین پر اپنے پیاروں کے درمیان گزار لیں ، سو ویزے کی میعاد مزید بیس روز کے لیے بڑھوا لی گئی۔ نانا کے گھر ایک روز ان کے دوست آفاقی صاحب آگئے، محفل جم گئی ۔ آفاقی صاحب باغ و بہار شخصیت کے مالک تھے، اپنی جوانی کا ایک قصہ سنانے لگے۔ تقسیم ہند کا زمانہ تھا، آفاقی صاحب علی گڑھ یونیورسٹی میں پڑھتے تھے ۔اسی اثناءمیں گاندھی جی قتل کردیے گئے، یونیورسٹی میں چھٹیاں ہوگئیں، وہ اپنے چار دوستوں کے ساتھ دہلی کی سیر کو روانہ ہوگئے، وہاں پہنچ کر ایک دوست کے گھر میں ڈیرے ڈالے۔ چند ہی روز میں پیسے ختم ہوگئے، ان کے دوست کے معاشی حالات بھی اچھے نہ تھے، آفاقی صاحب اور ان کے دوستوں نے اس کو مزید زیر بار کرنا مناسب نہ سمجھا ، ادھر بس کا واپسی کا کرایہ بھی پلے نہ تھا۔ ایک روز تمام دوست مایوسی کے عالم میں بیٹھے تھے کہ ایک نے نعرہ مستانہ بلند کیا اور کہا کہ ایک ترکیب ذہن میں آئی ہے، چلو میرے ساتھ، عیش کرواؤں گا۔ چار کے ٹولے نے اپنے اپنے حلیے درست کیے، لباس درست کیے اور بالوں میں کنگھی کرکے دہلی کے ہندو کمشنر کے پاس پہنچ گئے ۔ کمشنر کے سامنے ترکیبی دوست نے عاجزانہ لیکن پراعتماد لہجے میں کہا کہ صاحب! گاندھی جی کا قتل انسانیت کا قتل ہے اور ہم مسلمان ہونے کے ناتے اس سوگ میں برابر کے شریک ہیں اور ان کی آتما کی شانتی کے لیے ان کا ’تیجا ‘ (سوئم) کرنا چاہتے ہیں ، ہم گھروں سے دور ہیں اور اکثر ہمارا ہاتھ تنگ ہی رہتا ہے، براہ کرم اس کار خیر کے لیے آپ ہمیں رقم عنایت کردیں ۔ کمشنر بہت متاثر ہوااور اس نے اپنا صوابدیدی اختیار استعمال کرتے ہوئے چار سو روپے کی خطیر (اس زمانے میں) رقم انہیں دے دی۔ یاروں کا ٹولہ خوش خوش دہلی کے کمشنرکے دفتر سے باہر نکلا ۔ ان روپوں سے تمام دوستوں نے دہلی میں بقیہ چھٹیاں ٹھاٹھ سے گزاریں۔

ہندو معاشرے میں گائے کو ماں کا درجہ دیا جاتا ہے۔ ماں کے نام پر اکثر فساد بھی ہوتے رہتے ہیں۔ یہ گاؤ ماتائیں بازاروں میں گھومتی پھرتی ہیں ، جہاں جی چاہا، بلاتکلف منہ مار دیا، یہ الگ بات ہے کہ دکاندار اگر ہندو ہے تو زبان سے تو کچھ نہیں کہتا لیکن اپنا دل تھام کر بیٹھ جاتا ہے۔ عتیق صدیقی نے اس سے متعلق کتاب میں ایک مزیدار واقعہ درج کیا ہے ۔ ایک روز بس میں سوار ہوکر وہ لکھنو جارہے تھے کہ رستے میں ایک جلوس کی وجہ سے بس رک گئی، عتیق صدیقی بس سے اتر گئے۔کچھ فاصلے پر ایک بوڑھا سبزیوں سے بھری ٹوکری لیے بیٹھا تھا ۔ اسی وقت ایک آوارہ گائے ادھر آ نکلی ۔سجی سجائی ’ڈش ‘ دیکھ کر اس کے قدموں میں تیزی آگئی تھی۔بوڑھے کی پشت اس کی جانب تھی، اس لیے وہ نہ دیکھ سکا، گائے نے سبزی پر منہ مارا تو اسے علم ہوا، تیزی سے ٹوکری اپنی جانب کھینچنا چاہی، گائے نے جارحانہ انداز میں سر کو حرکت دی تو وہ بوکھلا کر پیچھے کی جانب الٹ گیا مگر فوراً ہی سنبھلا اور ہاتھ جوڑ کر خوشامدی انداز میں ’ہے ماتا ۔ ہے ماتا‘ کرنے لگا۔ مگر ماتا یہ تر مال چھوڑنے کو آمادہ نہ تھیں اوراس وقت تک ڈھائی تین کلو سبزی چٹ فرما چکی تھیں۔ بوڑھے کی برداشت جواب دے گئی۔ دانت کچکچاتے ہوئے بولا:
” اچھا ۔ ۔ہم ماتا ماتا کرت ہیں پن ان کے دماگ ہے نئیں ملتے ۔ ۔تنی تھمو تو ۔۔۔ “
اس نے قریب پڑی ہوئی لاٹھی اٹھائی اور دونوں ہاتھوں میں تھام کر سر سے بلند کرکے ماتا جی کی کمر پر رسید کی۔وار بھرپور اور ریڑھ کی ہڈی پر پڑا تھا۔ ماتا جی نے ایک بھیانک آواز نکالی اور ادبدا کر بھاگیں۔ سامنے ہی جلوس تھا ، اس میں جاگھسیں، کئی لوگ اس کی زد میں آکر گرے، کچھ بھگدڑ میں ایک دوسرے سے ٹکرائے۔ کچھ دوسروں کے قدموں تلے آئے۔ایسی چیخ پکار پڑی کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔

’سفر گزشت ‘میں کئی ایسے جملے ہیں جن کو پڑھ کر قاری مصنف کے شگفتہ انداز تحریر سے لطف اندوز ہوتا ہے، چند مثالیں پیش خدمت ہیں:
۔سائیکل رکشے والا کتوں کو دھتکارتا رہا اور ساتھ ہی ایسے رکیک جملے بھی ادا کیے کہ اگر کتے سمجھنے کے قابل ہوتے اور ان میں تھوڑی سی بھی غیرت ہوتی تو اس کی تکا بوٹی کرڈالتے۔
۔ چچی نے آگے بڑھ کر سر پہ ہاتھ رکھا ، دعائیں دیں، اماں باوا کی خیریت پوچھی اور چونک کر بولیں ’ ’لو میں بھی دوانی ہوئی ہوں، باوا تو خیر سے کب کے گزر گئے۔“ ۔۔ بعد میں معلوم ہوا کہ ’خیر سے‘ ان کا تکیہ کلام ہے۔
۔بوگی میں ایک چھوٹے قد کے منحنی سے سردار سوار ہوئے، قلی سے اپنا سامان پھرتی سے لیا، وہ ہر کام نہایت تیزی سے کرنے کے عادی معلوم ہوتے تھے،ہم نے اتنا ’مختصر مگر جامع‘ سردار پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔
۔پہلے تو خاتون نے سردار جی کے جثے کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ اگر وہ حرام کھا کھا کر دنبہ نہ ہوگئے ہوتے تو خاتون کے ٹرنک سے سردار جی کی پتلون پر کھرونچا پڑنے کا یہ حادثہ پیش ہی نہ آیا ہوتا۔

لکھنو میں پچاس روز گزر چکے تھے اور اب واپسی کی تیاری تھی۔ کون پڑھنے والا عتیق صدیقی کی اپنے رشہ داروں خاص کر نانا اور چھوٹی و بڑی نانی سے الوداعی ملاقات کے بیان پر متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے گا، ان کے یہ تقریباً تمام ہی رشتہ دار اب اللہ کو پیارے ہوچکے ہیں ۔ایسے منظر تقسیم ہند کے بعدپاک و ہند میں اس وقت تک دیکھے جاتے رہیں گے جب تک دونوں ملکوں کے درمیان ویزے کی شرائط میں نرمی نہیں کی جائے گی۔ لوٹ کر جانے والے کی واپسی کا یقین ہو تو دل کو ایک ڈھارس بندھی رہتی ہے۔ آئیے ہم بھی اس الوداعی منظر میں شریک ہوجاتے ہیں:
مریم نانی ، پھوپھی جان سے لپٹی زار و قطار رو رہی تھیں۔اچانک انہوں نے پھوپھی جان کو دیر سے انتظار میں کھڑی بڑی نانی کے حوالے کیا اور ادھر ادھر نظریں دوڑاتی ہوئی بولیں:
” ارے میرا بچہ (عتیق صدیقی) کہاں ہے ۔ ۔ میری بٹیا کی نشانی ۔ ۔آخری دفعہ جی بھر کر دیکھ لوں“
ہمارے قریب کھڑے نانا نے کہنی سے ٹہوکا دے کر ہمیں ان کے قریب جانے کا اشارہ کیا۔ اسی وقت نانی نے بھی ہمیں دیکھ لیا اور دونوں بازو پھیلائے ہماری طرف جھپٹیں:
” ہائے میرا لعل۔۔۔کیسا ہماری محبت میں کوسوں دوڑا چلا آیا۔۔۔کس دل سے رخصت کروں۔“
وہ ہم سے لپٹ کر آنسو بہانے لگیں ۔ہماری آنکھوں کے گوشے بھی نم ہوگئے
”اب کب دیکھ پائیں گے یہ صورت“ انہوں نے دونوں ہاتھوں کے کٹورے میں ہمارا چہرہ لے کر پوچھا۔”آئے تھے تم تو بہت خوشی تھی۔اب جانے کا غم نہیں سہا جارہا۔اللہ ملائے تو اور بات، ورنہ اب یقین نہیں کہ مل سکیں گے“وہ ہچکیوں کے درمیان کہہ رہی تھیں!

عتیق صدیقی کے سفرنامے سے متعلق چند باتوں کی نشان دہی ضروری ہے ۔ ایک تو یہ کہ اس میں پیش لفظ موجود نہیں جس کی وجہ سے اس سفرکے اغراض و مقاصد سے قاری بے خبر رہتا ہے۔دوسرے یہ کہ کتاب میں مصنف کا تفصیلی تعارف نہیں دیا گیاجس کے بغیر یہ کتاب کچھ ادھوری سی محسوس ہوتی ہے۔ ہم یہاں اپنے پڑھنے والوں کو آگاہ کرتے چلیں کہ عتیق صدیقی کراچی سے نکلنے والے روزنامہ اسلام کے چیف نیوز ایڈیٹر ہیں ۔ 400 صفحات پر مشتمل یہ سفرنامہ آدم جی نگر کراچی میں واقع ایم آئی ایس پبلکیشنز کے دفتر سے حاصل کیا جاسکتاہے۔ ناشر کا رابطہ نمبر اور پتہ یہ ہے:
92-21-34931044 523-C, Block Z, AdamJi Nagar, Karachi
اس کے علاوہ دارالا اشاعت ، اردو بازار ، کراچی اور اردو بازار کی کئی کتب خانوں پر بھی دستیاب ہے۔
Rashid Ashraf
About the Author: Rashid Ashraf Read More Articles by Rashid Ashraf: 107 Articles with 300442 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.