بلوچستان عالمی سازشوں کا مرکز کیوں؟

بلوچستان میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات جس منظم انداز سے کئے جارہے ہیں اس سے اس بات کی تصدیق ہوجاتی ہے کہ بلوچستان میں اٹھنے والی ”شورش“ مقامی نہیں بلکہ اس کے ڈانڈے غیرملکی عناصر سے جا ملتے ہیں۔ یہ عناصر جو مقامی کرداروں کے ذریعے یہاں دہشت گردی کو ہوادینے میں مصروف ہیں۔یہ قوتیں ہرگز نہیں چاہتیں کہ پاکستان کے اس اہم ترین صوبے میں امن قائم ہو۔ وہ اس خطے کوحقوق کے چکر میں” آزاد“ کرانے کی ریشہ دوانیوں میں مصروف ہیں۔ یہ عناصردراصل بلوچستان میں ایک نام نہاد شورش برپا کرکے پاکستان کی معاشی اور تجارتی خوشحالی پر چھری پھیرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔مقامی کٹھ پتلی سرداروں کے ذریعے صوبے کے عوام میں احساس محرومی جیسے جذبات پیدا کرکے انہیں وفاق کے خلاف بڑھکانے کی کوششوں کے ساتھ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف پراپیگنڈہ کیا جارہا ہے۔ بلوچستان کی اسٹریٹجک اہمیت کی وجہ سے یہاں نو ممالک کی خفیہ ایجنسیاں منفی سرگرمیوں میں ملوث پائی گئی ہیں ۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ بلوچستان کے وہ لوگ جو وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں اقتدار کے مزے لوٹ چکے ہیں اور متعدد مرتبہ بلوچی عوام کے لئے مختص خطیر رقوم کو ہضم کرچکے ہیں، ان ریشہ دوانیوں میں مرکزی کردار ادا کررہے ہیں۔صوبہ بلوچستان میں حقوق کے نام سے شروع کی جانے والی تخریب کاری میں شدت اس وقت دیکھی گئی جب ایک معاہدے کے تحت چین نے گوادر کے ساحل پر بندرگاہ کی تعمیر کا آغاز کیا۔ قدرتی گہرے سمندر کے ساحل پر بندرگاہ کی تعمیریوں تو عالمی طاقتوں کے لئے ناقابل قبول تھی مگر بھارت نے اس کی تعمیر کو رکوانے کی لئے فوری طور پر ریشہ دوانیوں کا لامتناہی سلسلہ شروع کردیا۔حتیٰ کہ مئی2008ءکوبھارتی پارلیمنٹ میںایک قرارداد پاس کی گئی جس میں گوادر کو بھارت کی سلامتی کیلئے خطرناک قرار دیتے ہوئے اس کے تدارک کا فیصلہ کیا گیا۔یہ تدارک مختلف طرح کے حملوں کی صورت میں تھا۔ مثلاً بلوچستان میں مسلح مداخلت آباد کاروں کا قتل‘ علیحدگی پسندوں کی طرف سے اہم سرکاری و دفاعی تنصیبات پر حملے‘ صوبہ سرحد و قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کی عسکری و مالی مدد اور پاکستان کے طول و عرض میں دھماکوں‘ خودکش حملوں کو فروغ دیا گیا۔ اسی طرح امریکہ کی بھی خواہش تھی کہ چین کی معاشی و دفاعی ’لائف لائن“ گوادر تک دراز نہ ہوسکے۔ذیل میں بلوچستان کی ان خوبیوں کا ذکرکیا جارہا ہے جن کی بدولت پاکستان کا یہ صوبہ عالمی سازشوں کا مرکز بن چکا ہے۔

بلوچستان کواس کے محل وقوع، گوادر پورٹ کو مستقبل میں تجارتی سرگرمیوں کے بڑے مرکزہونے، ایران گیس لائن منصوبے اوروہاں موجود معدنیات اور قدرتی وسائل کے خزانوں کی بدولت ایک خاص اسٹریٹجک مقام حاصل ہے اور مستقبل میں پاکستان کی ترقی اور خوشحالی گوادر پورٹ کے راستے یہاں ہونے والی معاشی و تجارتی سرگرمیوں سے وابستہ ہوگی۔ بلوچستان کے محل وقوع کی ایک اور اہم بات یہ ہے کہ اس کی سرحدیں پاکستان کے باقی تمام صوبوں سے بھی ملتی ہیں جبکہ بین الاقومی لحاظ سے مغرب میں اس کی سرحد ایران سے خلیج فارس کے عین سامنے اور شمال میں اس کی سرحد جنوبی افغانستان سے ملتی ہے۔ اگر قدرتی وسائل اور معدنیات کے لحاظ سے دیکھا جائے تو صوبہ بلوچستان پاکستان کا سب سے امیر ترین صوبہ ہے۔ یہاں گیس ، لوہے، سونے، کاپر اور کوئلے کے بہت بڑے ذخائر موجود ہیں لیکن بدقسمتی سے مختلف قسم کی رکاوٹوں اور وجوہات کی بدولت ان تک مکمل رسائی ممکن نہیں ہورہی۔ان رکاوٹوں میں غیرملکی ایجنسیوں کی تخریب کاری، عدم تحفظ اور غیریقینی صورتحال قابل ذکر ہیں۔ پاکستان کی زیادہ تر ساحلی پٹی بھی بلوچستان میں ہے جس کی سمندر کے ساتھ گہرائی ایک ہزار میٹر سے تین ہزار میٹر تک ہے اور اس طرح یہ نہ صرف بڑے تجارتی بحری جہازوں بلکہ ہنگامی حالات میں پاک بحریہ کے جہازوں کی نقل و حمل کے لئے بھی سود مند ہے۔ اس طرح دفاعی لحاظ سے بھی اس کی اہمیت کسی طور کم نہیں۔یہاں بیک وقت 26جہاز لنگر اندازہوسکیں گے۔ گوادر پورٹ کی تعمیر کے بارے میں پاک چین اشتراک دنیا بھر کی آنکھوں میں کھٹک رہا ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ گوادر پورٹ کی تعمیر میں چین نے بھرپور تعاون کیا ہے اور اس کا فائدہ بھی دونوں ممالک کو پہنچے گا۔چین کی بڑی تجارتی سرگرمیاں اس کی مشرقی ساحلی پٹی کے ساتھ ہورہی ہیں۔ صوبہ سنکیانگ جس کی سرحدیں پاکستان اوروسط ایشیائی ریاستوں سے ملتی ہیں،اس کے دارالحکومت ارومکی میں چین نے قزاقستان سے تیل کی پائپ لائن بچھانے کے ساتھ ساتھ وہاں نیشنل آئل ریفائنری لگائی ہے۔گزشتہ پندرہ سال یہاں کی تجارتی سرگرمیوں میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ چونکہ اورمکی چین کی مشرقی بندرگاہوںاور گوادر سے تقریبا یکساں فاصلے پر واقع ہے۔ تاہم چین کی یہ مشرقی بندرگاہیں چونکہ بحر الکاہل کے ذریعے براہ راست امریکہ، یورپ اور مشرق وسطیٰ کے ممالک تک رسائی حاصل کرتی ہیں لیکن یہاں سے چینی جہازوں کو خلیج عدن تک پہنچنے کے لئے بحر ہند کے ساتھ ساتھ اسٹریٹس آف ملاکہ کے راستے جانا پڑتا ہے۔ جہاں پہنچنے کے لئے انہیںتقریبا پانچ ہزار میل کا طویل سفر طے کرنا پڑتا ہے۔ مگر گوادر سے خلیج عدن صرف گیارہ سو میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ چین ، قزاقستان سے بذریعہ ریل بھی جڑا ہے۔یہ ریلوے لنک بھی چین کے صوبہ سینکیانگ کے دار الحکومت ارومکی سے قزاقستان کے سابق دارالحکومت الماتے کے درمیان ہے۔ جس کی سرحد کرغستان سے بھی ملتی ہیں۔ اس طرح چین اور پاکستان کے درمیان شاہراہ قراقرم کے ساتھ ساتھ حویلیاں تک ریلوے لائن بچھانے کے ایک منصوبے پر بھی دستخط ہوچکے ہیں۔ یہاں سے گوادر تک براہ راست ریلوے لائن بچھانے کا منصوبہ بھی بنایا گیا ہے۔ اس طرح مستقبل میں چین کی تجارت اس کے مغربی حصے میں ہوگی اور وہاں سے گوادر کے ذریعے اس کے سامان کی ترسیل ہوگی۔ وسط ایشیائی ممالک بھی گوادر کے راستے کا بھرپور فائدہ اٹھا سکیں گے۔ بلوچستان میں ایکوڈیک ضلع چاغی کا پسماندہ ترین علاقہ ہے۔ ایک سروے کے مطابق دنیا کے دوسرے بڑے ذخائر پاکستان کے ان دور دراز اور پسماندہ ترین علاقوں میں موجود ہیں جہاں سے سونا نکالنے کا کام 2006ءسے جاری ہے۔ دنیا کے سب سے بڑے سونے اور تانبے کے ذخائر پاکستان میں موجود ہیں۔

ان قدرتی وسائل ، محل وقوع کی بناءپر یہ خطے میں اسٹریٹجک اہمیت کا حامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی طاقتیں یہاں آگ اور خون کا کھیل کھیل رہی ہیں۔ بدامنی کے حالیہ واقعات میں تو انتہاءہوگئی جب عام لوگوں کو بسوں سے باہر لائن میں گولیوں سے چھلنی کردیا گیا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت پاکستان بلوچستان میں اٹھنے والی شورش کے پس پردہ قوتوں کے بے نقاب کرے اور جو مقامی افراد وہاں فوج یا ایف سی کو ہٹانے کا مطالبہ کررہے ہیں ان کے اصل مقاصد کاتعین کرے۔ بلوچستان کے حالات کو مزید ابتری سے بچانے کے لئے گورنر راج نافذ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ قانون نافذ کرنے والے ادارے مسلح گروپوں کو نیوٹرل کرکے صوبے کو غیرملکی ایجنسیوں کی سرد جنگ کے خاتمے سے نجات دلا سکیں۔
Muhammad Amjad Ch
About the Author: Muhammad Amjad Ch Read More Articles by Muhammad Amjad Ch: 94 Articles with 69457 views Columnist/Journalist.. View More