موسم ہے جلسے ،جلوسوں، تحریکوں،
ریلیوں اور دھرنوں کا، بھارت کے انا ہزارے کا دھرنا،لال کرشن ایڈوانی کی
رتھ یاترا، وال سٹریٹ پر قبضہ کرو،سڈنی پر قبضہ کرو،واشنگٹن ڈی سی پر قبضہ
کرو ،مشرق وسطیٰ کے ممالک میں ” عرب سپرنگ “ کی لہر کے ساتھ ساتھ پاکستان
میں ابرار الحق کی ریلی ،شہباز شریف کے ساتھ ساتھ ایم کیو ایم کی ریلی اور
عمران خان کا جلسہ ، یہاں نفس مضمون بین الاقوامی نہیں بلکہ ملکی ہے ۔یوں
محسوس ہوتا ہے کہ ملک کے سیاست دان ایک بار پھر نوے کی دہائی میں واپس چلے
گئے ہیں حالانکہ جنرل مشرف کے مارشل لاءمیں شیر و شکر ہونے والی مسلم لیگ ن
اور پیپلز پارٹی کی قیادت میڈیا پر بلند و بانگ دعویٰ کرتے رہی کہ ہم نے
ماضی سے بہت کچھ سیکھ لیا ،ہماری سیاست اب اصولوں پر ہو گی پاکستان کی ترقی
اب صرف جمہوریت سے ہی مشروط ہے ،جمہوریت ہی تمام مسائل کا حل ہے ۔2006 میں
مذکرہ جماعتوں نے لندن میں میثاق جمہوریت ( چارٹر آف ڈیمو کریسی) پر دستخط
کئے ،عوام کو بھی یقین آ گیا کہ اب معاملات میں کچھ بہتری آ ئے گی لیکن وہ
سب خواب تاحال ادھورے ہیں، گزشتہ سا ڑھے تین سالوں پراگر طائرانہ نظر ڈالیں
تو شرمندگی ، ما یوسی اور افسوس کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ زیادہ دور جانے
کی ضرورت نہیں صرف28 اکتوبر کی ریلی کے ذریعے 2011کی سیاسی دیگ سے ہم بخوبی
اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کیا اس کے ذائقہ میں پندرہ سال قبل کے ذائقے سے کچھ
فرق آیا ہے؟
مسلم لیگ ن نے 28 اکتوبر کو لاہور کے ناصر باغ سے بھاٹی چوک تک ریلی کے لئے
جتنا خرچ کیا اور قانون کی جتنی دھجیاں اڑائیں اس پر کچھ کہنے کی ضرورت
نہیں کہ لاہور ہائی کورٹ نے خود پنجاب حکومت کو سرکاری وسائل کے استعمال سے
روک دیا تھا لیکن اس کے باوجود حکومت نے وہی کچھ کیا جس کا اسے کوئی ڈر
نہیں تھا شہر کی مصرف ترین شاہراہ پر کئی ہفتوں سے مختلف سیا سی جماعتوں کے
بینرز اور ہورڈنگز لگے ہوئے ہیں لیکن کوئی متعلقہ محکمہ اس پابندی کے خلاف
ورزی کرنے والوں پر ہاتھ نہیں ڈالتا کہ یہ پنجاب حکومت کی رٹ کا معاملہ ہے۔
جمعہ کے دن بھاٹی چوک اور اس سے ملحقہ رابطوں سڑکوں پر ٹریفک کی بندش سے
عوام کو جن مسائل کا سا منا کرنا پڑا وہ بھی عوام کے لئے اب کوئی غیر
معمولی بات نہیں رہی اور سب سے بڑھ کر خادم اعلیٰ کہلوانے والے وزیر اعلیٰ
پنجاب شہبا ز شریف نے جو زبا ن استعمال کی وہ ”پاپولر پالیٹکس “کے لئے تو
ٹھیک ہے لیکن جو چیز وہ کر نہیں سکتے یا کرنے کے وہ مجاز نہیں اس کے وہ
اعلانات کیوں کرتے پھرتے ہیں،۔ وزیر اعلیٰ کے پاس ایسے موقعوں کے لئے چند
ایک جملوں اور حبیب جالب کے نظم صبح بے نور کے سوا کچھ نہیں ہوتا ، میاں
شہباز شریف جذباتی شخص ہیں اور ہر جگہ جذبات کا استعمال کرتے ہیں ریکارڈ
اٹھا کر دیکھ لیں کہ ان کے کتنے جلسوں ریلیوں اور خطابات میں الٹا لٹکانے
کی باتیں ہوئیں اور اب تک وہ کتنے لوگوں کو الٹا لٹکا چکے ہیں وہ بادشاہ
ہیں ا ور نہ آمر لیکن ان کے فرامین بادشاہوں اور بیانات آمروں جیسے لگتے
ہوتے ہیں ایک جانب وہ اگر جمہورت کی بات کرتے ہیں تو دوسری جانب عدلیہ کو
بھی پس پشت ڈال کر پھانسی دینے کی بات کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
وزیرا علیٰ شہباز شریف کو اگر تمام برائیوں کی جڑ صدر زرداری لگتے ہیں تو
ان کے خلاف پارلیمنٹ میں مواخذہ کی تحریک لائیں اور اگرکوئی ثبوت ہیں تو
پیش کریں ایک صوبے کے چیف ایگزیکٹیو ہونے کے ناتے انہیں کیا حق پہنچتا ہے
کہ وہ صدر مملکت کے خلاف بھرے مجمع میں کوئی نازیبا الفاظ استعمال کریں یہ
کہ وہ صدر زرادی کو صدر نہیں مانتے وہ زراری نہیں مداری ہیں۔ کیا اس طرح کی
باتوں سے وہ جمہورت کی خدمت کر رہے ہیںَ؟۔ کیا وہ اور ان کے ہم رکاب اب بھی
نہیں سدھریں گے۔
28 اکتوبر کی سیا ست کا دوسرا رخ پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کے وہ بیانات ہیں
جو انہوں نے شہباز شریف کی ریلی کے فوری بعد دینے شرع کئے اس کے باوجود کہ
نصرت بھٹو کا تو ابھی کفن بھی میلا نہیں ہوا اور ان کے انتقال پر قوم 10
روزہ اور پیپلز پارٹی 40 روزہ سوگ منا رہی ہے جبکہ پیپلز پارٹی کی لیڈرشپ
نے اس تمام عرصہ میں کسی قسم کا سیاسی بیان دینے سے بھی رہنماؤں کو منع کر
دیا تھا لیکن یہ اعلان بھی محض اعلان تھا ۔وزیراعظم جہاں پرتھ میں دولت
مشترکہ کے اجلاس کے بعد یہ کہتے سنے گئے کہ شریف برادران نے جیل اور
جلاوطنی سے کچھ نہیں سیکھا ،وہیں بابر اعوان نے ن لیگ کی ریلی کو شریف
برادران کی سری پائے ریلی قرار دیا اور انہیں شر برادران کے ساتھ جو منہ
میں آیا کہتے گئے اور اس سے اگلے روز لاہور پریس کلب میں پیپلز پارٹی کے
سیکرٹری جنرل جہانگیر بدر اور پی پی پی پنجاب کے صدر امتیاز صفدر وڑائچ بھی
ن لیگ کی قیادت پر برس پڑے ۔ دوسری جانب ایم کیو ایم کی سیاست کو بھی دیکھ
لیں کہ جن کے لئے سندھ حکومت نے کراچی میں دو روز کے لئے دفعہ 144اٹھا لی
کہ وہ صدر زرداری کے حق اور میاں شہباز شریف کے خلاف ریلی نکال سکیں کے ایک
رہنما وسیم اختر ماضی قریب میں ہی شریف برادران کو گنجے کہہ چکے ہیں تو کیا
یہ نازیبا الفاظ نہیں تھے انہی کے قائد الطاف حسین نے 29اکتوبر کے براہ
راست خطاب میں کہا کہ لیگی قیادت اپنی زبان کو لگام دے ورنہ انہیں ٹیڑ ھی
انگلیوں سے گھی نکالنا بھی آتا ہے۔ یہ ہے ہماری دو دن کی سیاست جس کےلئے
ہمارے سیاسی رہنما ملک سے باہر گئے تھے اور میثاق جمہو ریت کے نام پر اکٹھے
ہو کر آج پھر منافقانہ سیاست کر رہے ہیں۔ اللہ ان کو ہدایت دے اور قوم پر
رحم کرے۔ |