ہڑتال سے پڑتال تک

کوئی بھی شخص اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا کہ وطن عزیز کے سیاسی،معاشی،معاشرتی اور ملکی سلامتی کے حالات بد سے بد تر ہوتے چلے جا رہے ہیں ۔بھوک،افلاس،کسمپرسی،محرومی،جہالت صحن وطن میں ناچ رہی ہے۔اور حالات کی سنگینی سے بے پروا اہل اقتدار سردار،زردار،سرمایا دار،جاگیردار،اپنی رنگیں دنیا میں مگن ہیں ۔ گذشتہ ساڑھے تین سالوں سے ملک میں ہڑتالوں کا دوردورہ ہے ۔کہیں عوام ہڑتال پر ہے تو کہیں سرکار ۔سمجھ نہیں آتی یہ آخر ہو کیا رہا ہے؟

کچھ عرصہ قبل سندھ میں سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے خلاف سرکاری سرپرستی میں ہڑتال کی گئی۔وزیر تعلیم نے خود اعلان کیا کہ تعلیمی ادارے بند رہیں گے۔لہذا سندھ بھر میں اس روز تعلیمی اور دیگر ادارے بند رہے۔ ہنگامے ہوتے رہے اور سپریم کورٹ کے خلاف نعرے لگتے رہے ۔ ریلیاں نکالیں گئیں۔اور وزیر اعظم چپ چاپ یہ تماشہ دیکھتے رہے۔ پھر جب لوگ ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے خلاف عوام ھڑتال کر رہے تھے تو یہی وزیر اعظم فرما رہے ہیں کہ یہ عدالت کا فیصلہ ہے اس کا احترام کیا جانا چاہئے۔ہڑتال کا کوئی جواز نہیں بنتا ۔ انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ پھر سندھ میں عدالتی فیصلے پر سرکاری ہڑتال کا جواز کیا تھا ؟تب وزیر اعظم کو عدالتی احترام یاد نہ آیا؟ ۔ یہ دوغلی سے بھی اگلی پالیسی گیلانی صاحب کو زیب نہیں دیتی۔جب حکومت خود ہڑتال کرے تو سب ٹھیک اور جب عوام اپنے مطالبات منوانے کے لیئے ہڑتال کریں تو وحشیانہ تشدد کا حکم ۔یہ بے شرمی نہیں تو اور کیا ہے؟ یہاں تک کہ اسانذہ پر ڈنڈے برسانے کا حکم دیا جاتا ہے !کیا ملک کے اساتذہ ڈنڈے کھانے کے اہل ہی ہیں ؟اگر تنخواہوں میں اضافے کا یا کوئی اور مطالبہ کر رہے ہیں تو غلط کیا ہے؟ کیا انہیں پرسکوں زندگی گذارنے کا حق نہیں ؟حکمران طبقہ اپنی عیاشی کے لئے تو خزانے کا منہ کھولے ہی رکھتا ہے۔ کوئی ان سے یہ تو پوچھے کہ ارکان اسمبلی کی تنخواہیں کیا ہیں؟ ان کی اہلیت کیا ہے ؟ اور یہ کام کیا کرتے ہیں ؟ سوائے اسمبلیوں میں بیٹھ کر دھنگا فساد کرنے۔کرسیاں چلانے۔لوٹے بننے اور لوٹے لہرانے کے۔ان کی تنخواہوں میں کتنا اور کتنی بار اضافہ ہوتا ہے؟ ان کے الاؤنسس کیا ہیں ؟اور انہیں کون کون سی سہولتیں میسر ہیں ؟اور یہ قوم کو ماہانہ کتنے میں پڑتے ہیں ؟

پنجاب میں ڈاکٹر کئی دن تک ڈاکٹرز ہڑتال پر رہے ۔ پی سی ایس افسرا ن ہڑتال پر رہے ۔مگر حکومت کوان ہڑتالوں کی کوئی پرواہ ہی نہیں ۔عوام کے لئے صحت کی سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں اور ڈاکٹر تھوک کے حساب سے ملک سے باہر جا رہے ہیں ۔کچھ عرصہ میں میرے جاننے والے انتہائی قابل چار ڈاکٹر ملک چھوڑ گئے۔ڈاکٹر طارق، ڈاکٹر ارشد بدر سعودی عرب چلے گئے اور ڈاکٹر طہرین قیصر اور ڈکٹر ندیم دوبئی چلے گئے ۔خود حکمرانوں کو ذرا سی تکلیف ہو تو لندن بھاگ جاتے ہیں ۔ یہ لندن جیسے ہسپتال یہاں کیوں نہیں بنواتے؟صرف جالب کی نظمیں پڑھنے اور جئے بھٹو کے نعرے لگانے سے تو انقلاب نہیں آتے ۔ کچھ عملی اقدامات بھی تو ضروری ہیں ورنہ سب خواب ہیں ۔ سب عذاب ہیں۔فیصل آباد میں پاور لومز کو خام مال فراہم کرنے والے بھی ہڑتال پر تھے۔ملکی معیشت پہلے ہی آخری سانسیں لے رہی ہے اور مزدور سسک سسک کر دم توڑ رہا ہے۔

پنجاب میں لیڈی ہیلتھ ورکرز کو کئی ماہ سے تنخواہیں نہیں ملیں وہ بھی ہڑتال پر ہیں اور ڈنڈے کھا رہی ہیں ۔ سرکاری ملازمین کی تخواہیں روکنا سنگین جرم ہے، کیا کبھی وزیروں مشیروں کی تنخواہیں بھی رکی ہیں ؟ ۔ متعلقہ حکومت کو چاہئے کہ ان کے مطالبات پربھی غور کرے کہ ان غریبوں کے پاس تو تنخواہ کے علاوہ کئچھ ہے بھی نہیں ۔اساتذہ نے بھی ہڑتال اور احتجاج کا اعلان کر دیا ہے۔ ان کے تنخواہوں اور پے سکیل کا مسئلہ مستقل طور پہ حل کیوں نہیں کیا جاتا ؟ پی آئی اے کے پاس بھی اگلے مہینے کی تنخواہیں دینے کے پیسے نہیں ہیں۔ اس کا حال بھی ریلوے جیسا ہونے کو ہے۔

ریلوے کے ریٹارڈ ملازمین پینشن کے حصول کے لیئے دھکے کھا رہے ہیں ۔ایک بوڑھا تو اپنی جان کی بازی ہار گیا ۔ پینشن تو نہ ملی موت مل گئی۔اس عمر میں ان پینشنرز کو بارہ بارہ گنٹھے لائن میں کھڑا کرکے ذلیل کیوں کیا جاتا ہے ؟ کیا پینشن دینے کا کوئی با عزت طریقہ نہیں ہے ؟مگر طریقہ نکالنا ہو تو پھر ہے نا پینشنرز کی اسی اسی سال کی بوڑھی بیوگان سے کہا جاتا ہے کہ وہ اشٹام پیپر پر حلف نانہ جمع کروائیں کہ اب نئی شادی نہیں کریں گی! لعنت ہے ایسے نظام پر اور ایسی طرز حکومت پر ۔ اب صدر صاحب نے بوڑھے پینشنر کی ہلاکت کا نوٹس لے لیا ! یہ نوٹس کیا بلا ہے ؟ پہلے جو نوٹس صدر نے لئے تھے ان کا کیا ہوا ؟ یہ صدر، وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کسی کی موت کے بعد ہی کیوں نوٹس لیتے ہیں ؟ یعنی ان کے نوٹس کو بھی اک انسان کی جان درکار ہوتی ہے ۔قدرت جانے اس قماش کے حکمرانوں کا کب نوٹس لے گی؟ وزیر ریلوے کو بھی جاگ آ گئی ہے اس نے بھی اب مرنے والے کے لواحقین کے لئے پانچ لاکھ روپے امداد کا اعلان کر دیا ہے ۔ کیا بلور صاحب اس کی زندگی واپس لا سکتے ہیں؟ ۔ ہم تو سمجھتے ہیں اس بزرگ کی موت کا پرچہ وزیر ریلوے، سیکرٹری ریلوے اور دیگر ذمہ داران کے خلاف درج ہونا چاہئے اور انہیں قرار واقع سزا ملنی چاہئے ۔ انہوں نے تو لوگوں کی زندگی کو اک تماشہ بنا دیا ہے! اسفند یار کی پارٹی میں بلور صاحب سے زیادہ قابل شائد کوئی فرد ہے ہی نہیں ۔ اسفند یار اس ملک بھی یار بنیں صرف اپنے لوگوں سے یاریاں نہ نبھائیں۔

پنجاب میں انٹر میڈیٹ طلباءبھی ہڑتالوں پر ہیں۔تعلیمی بورڈز نے طلبا کا مستقبل داﺅ پر لاگا دیا ہے اور اکثریت کا سال بھی ضائع کر دیا ہے(اس کے لئے ایک الگ کالم درکار ہے ) ۔رزلٹ میں سنگین نوعیت کی غلطیاں ہیں ۔جنہوں نے آرٹس کے پیپرز دئے تھے وہ ایف ایس سی میں پاس ہو گئے ہیں ۔ آن لائن رزلٹ کچھ اور ہے اور گزٹ پہ کچھ اور ۔ ایک طالب علم نے تو خود کو فیل دیکھ کر خود کشی کر لی بعد میں جب رزلٹ ری چیک کیا گیا تو پتہ چلا کہ وہ پاس تھا ۔ اس کی موت کا ذمہ دار کون ہے؟پولیس طلبا ءپر تو ڈنڈے برسا رہی ہے اور ان کے خلاف مقدمات بھی درج کر رہی ہے مگر جو ان غلط نتائج کے ذمہ دار ہیں انہیں تو پوچھا تک نہیں جا رہا۔ شرم اور جرم کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔وزیر تعلیم کہاں ہے ؟ جس کو یہ بھی معلوم نہیں کہ پیپرز کی ری مارکنگ قانون کے مطابق ہو ہی نہیں سکتی،یہ خادمِ اعلیٰ کہاں ہیں؟ کوئی ان کو یہ ہی بتا دے کہ یا تو خادم بنیں یا اعلیٰ۔خادم تو خادم ہوتے ہیں اور اعلیٰ اعلیٰ ہوتے ہیں ۔ مجددِ دوراں جناب علامہ اقبا ل نے کہا تھا ۔
دو رنگی چھوڑ دے یک رنگ ہو جا
سراسر موم یا پھر سنگ ہو جا

اہل اقتدار سے گزارش ہے کہ ہر ہڑتال کا نوٹس لے اور اپنی پالیسیوں کی پڑتال کریں۔جس جس کے بھی جائز مطالبات ہیں فی الفور پورے کیے جائیں۔اساتذہ ،ڈاکٹرز ، مزدوروں اور غریب پینشنروں کو معاشی فکروں سے آزاد کیا جائے طلباءکے مسائل حل کئے جائیں۔انہیں معاشرے میں معزز مقام دیا جائے تاکہ وہ ایک تعلیم یافتہ، صحت منداور پر امن معاشرے کی تشکیل میں دل و جاں سے شریک ہوں۔اور اگر آپ نے ان سنجیدہ معاملات اور حالات سے صرف نظر کیا تو یاد رکھیں کہ قدرت اور فطرت کے اپنے قوانین ہیں اور جب وہ حرکت میں آتے ہیں تو پھر کسی کا بس نہیں چلتا۔پھر تخت گرائے جاتے ہیں ۔ پھر تاج اچھالے جاتے ہیں ۔
ٹھہرو اور اک نظر وقت کی تحریر پڑھو
ریگِ سا حل پہ رمِ موج نے لکھا کیا ہے؟
Shahzad Ch
About the Author: Shahzad Ch Read More Articles by Shahzad Ch: 28 Articles with 30682 views I was born in District Faisalabad.I passed matriculation and intermediate from Board of intermediate Faisalabad.Then graduated from Punjab University.. View More