سیلاب ۔۔۔ قدرت کی آزمائش یا انسانی غفلت کا نتیجہ؟
(Prof Masood Akhtar Hazarvi, London)
پروفیسر مسعود اختر ہزاروی کا یہ کالم پاکستان کے حالیہ سیلاب پر سوال اٹھاتا ہے کہ کیا یہ صرف قدرتی آفت ہے یا بدانتظامی اور غفلت کا نتیجہ؟ یہ ماضی کی غلطیوں سے سبق حاصل کرنے اور مستقبل کو محفوظ بنانے کی دعوت دیتا ہے۔ ہر پاکستانی کے لیے یہ ایک فکری پیغام ہے کہ ذمہ داری قبول کریں اور تبدیلی کے لیے آگے بڑھیں۔ |
|
|
عنوان: سیلاب ۔۔۔ قدرت کی آزمائش یا انسانی غفلت کا نتیجہ؟ تحریر: پروفیسر مسعوداختر ہزاروی
قدرتی آفات انسانی تاریخ کا اٹل حصہ رہی ہیں۔ کبھی زلزلے نے بستیاں اجاڑیں، کبھی طوفانوں نے آبادیاں بہا دیں اور کبھی سیلاب نے سر سبز و شاداب کھیت کھلیانوں کو کھنڈر میں بدل ڈالا۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ آفات محض قدرتی ہیں یا انسان کی نااہلی، بدانتظامی اور خودغرضی بھی ان کے تباہ کن اثرات میں شریکِ کار ہے؟ پاکستان خصوصاً سیلاب کے حوالے سے ایک ایسی سرزمین ہے جسے بار بار ان امتحانات سے گزرنا پڑا ہے، مگر ہر سانحہ ہمیں سبق دینے کے بجائے کئی نئے زخم چھوڑ جاتا ہے۔ پاکستان کی جغرافیائی اور موسمی صورتحال اسے سیلاب کے خطرات کے قریب لے آتی ہے۔ برفانی گلیشیئر، مون سون کی بارشیں، دریائے سندھ کا وسیع ڈیلٹا (مثلث نما زمین) اور کچے کے علاقے بارہا بتا چکے ہیں کہ یہاں سیلاب کسی اچانک حادثے کا نام نہیں، بلکہ ایک متوقع حقیقت ہے۔ لیکن ہماری المیہ یہ ہے کہ ہم ہر بار سیلاب کو حادثہ سمجھ کر رو دیتے ہیں، مگر اس کے تدارک اور مستقل حل کی طرف توجہ نہیں دیتے۔ سیلاب کے اثرات محض گھروں کے بہہ جانے یا کھیتوں کی بربادی تک محدود نہیں رہتے۔ یہ لاکھوں خاندانوں کو بے گھر کرتا ہے، بچوں کو تعلیم سے محروم کرتا ہے، غریب کو مزید غربت میں دھکیل دیتا ہے اور معیشت کو ایسے زخم دیتا ہے جو برسوں میں بھر نہیں پاتے۔ زرعی ملک ہونے کے باوجود پاکستان میں کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں غیرمعمولی اضافہ سیلاب کے براہ راست اثرات میں شامل ہے۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریاں ایک طرف قدرتی آفات کی وجہ سے اور دوسرا حکمرانوں کی نااہلی اور بدانتظامی کی وجہ سے سے بپا ہوتی ہیں۔ غیرقانونی تعمیرات، دریاؤں کے کناروں پر ہاؤسنگ سوسائٹیز، ندی نالوں کی بندش، نکاسیٔ آب کے ناقص نظام اور بدعنوانی سے بھرے منصوبے، سب مل کر قدرتی آفت کو انسانی المیے میں بدل دیتے ہیں۔ اگر ہم نے ڈیمز کی بروقت تعمیر کی ہوتی، بارش کے پانی کو محفوظ کرنے کے منصوبے بنائے ہوتے اور دریاؤں کی صفائی کا انتظام کیا ہوتا تو شاید آج سیلاب کی شدت بہت کم رہ جاتی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان محض وقتی ریلیف کے بجائے ایک جامع حکمت عملی اپنائے۔ سیلاب سے بچاؤ کے لیے جدید ڈیمز بنائے جائیں، نکاسیٔ آب کے بہتر نظام کیے جائیں اسی طرح ندی نالوں کی صفائی، شجر کاری اور ماحولیاتی منصوبے بھی وقت کی اہم ضرورت ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومتی اداروں کی جواب دہی اور شفافیت کے بغیر کوئی حکمت عملی پائیدار ثابت نہیں ہو سکتی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ قدرتی آفات کو روکا نہیں جا سکتا، مگر ان کے اثرات کو کم ضرور کیا جا سکتا ہے۔ اگر آج ہم نے سنجیدگی سے اقدامات نہ کیے تو آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی اور تاریخ ارباب اختیار کو اس زمرے میں شمار کرے گی جنہوں نے قوم کو مصیبتوں میں مبتلا کیا اور خود عیاشیوں میں مگن رہے۔ بارش آسمان سے برستی ہے مگر سیلاب زمین کی بدانتظامی سے اٹھتا ہے۔ خیبرپختونخواہ کی وادیوں میں مون سون کی موسلا دھار بارشیں قدرت کا ایک فطری عمل ہیں، لیکن جب یہ بارشیں بستیاں اجاڑ دیں، سڑکیں توڑ ڈالیں، پل بہا لے جائیں اور سیکڑوں جانیں نگل لیں تو سوال جنم لیتا ہے کہ یہ قدرت کا قہر ہے یا ہماری اجتماعی غفلت اور حکمرانوں کی نااہلی کا نتیجہ؟ قومی آفات انتظامیہ (NDMA) کے مطابق 26 جون سے 20 اگست 2025 کے دوران پاکستان بھر میں بارش و سیلابی واقعات سے سات سو سے زائد افراد جاں بحق ہوئے۔ سب سے زیادہ زخم خیبرپختونخواہ نے کھائے جہاں تین سو پچاس سے زیادہ لوگ لقمۂ اجل بنے۔ بونیر اور سوات جیسے اضلاع میں پانی نے لمحوں میں بستیاں ملیا میٹ کر دیں۔ بارش تو رحمت ہے، لیکن جب دریائی راہ داریوں پر قبضہ کر کے سیلابی میدانوں کو کمرشل اور رہائشی تعمیرات کے حوالے کر دیا جائے، پھر پانی نے تو اپنی راہ لینی تھی، سو اس نے گھروں کو توڑ کر اپنا راستہ بنا لیا۔ اور پھر جنگلات کی بے دریغ کٹائی کر دی گئی۔ وہ درخت جو زمین کو باندھتے تھے، کٹ گئے؛ نتیجتاً لینڈ سلائیڈنگ اور مٹی کے تودے گاؤں پر جا گرے۔ایک انتظامی نااہلی یہ بھی ہے کہ قبل از وقت آگاہی کا نظام موجود تھا، مگر دیہات تک پیغام نہ پہنچ سکا۔ گاؤں سوئے رہے اور رات کے اندھیرے میں پانی نے انہیں ملیا میٹ کردیا۔ ہمارا قومی بیانیہ یہی ہے: “بارش زیادہ ہو گئی تھی”، “بادل پھٹ گیا”، “یہ اللہ کی آزمائش ہے”۔ بے شک، یہ سب قدرتی عوامل ہیں، مگر دنیا کے دیگر پہاڑی علاقے بھی انہی خطروں سے دوچار ہیں۔ فرق یہ ہے کہ وہاں خطراتی نقشہ بندی، فلڈ زونز پر پابندی، مقامی رضاکار، بروقت انخلاء کی مشقیں اور مضبوط انفراسٹرکچر موجود ہے۔ جب ہم یہ سب کچھ نہیں کرتے تو نقصان قدرت کا نہیں، ہماری غفلت کا شمار ہوتا ہے۔ اسلام ہمیں محض دعا کا حکم نہیں دیتا، بلکہ اجتماعی نظم کے قیام اور زمین کے حقوق کی پاسداری کا تقاضا کرتا ہے۔ ارشاد ربانی ہے: “زمین میں فساد نہ پھیلاؤ” (سورۃ الاعراف: 56)۔ اور فرمایا: “لوگوں کو ان کی چیزیں کم نہ دو” (سورۃ الاعراف: 85)۔ جب کمیشن زدہ ٹھیکوں کے نتیجے میں پل اور سڑکیں پہلی بارش میں بہہ جائیں تو یہ صرف بدانتظامی نہیں، بلکہ ایک اجتماعی خیانت ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں سیلاب ہر بار ہمیں نیا سبق دیتا ہے، مگر ہم وہی پرانے جملے دہراتے ہیں۔ 1950ء، 1973ء، 1992ء اور پھر 2010ء کا سیلاب۔ یہ سب ہماری اجتماعی ناکامی کی داستان ہیں۔ دنیا نے انہی تجربات سے سبق سیکھا اور اپنے دیہات، قصبوں اور شہروں کو محفوظ بنایا، مگر ہم نے ہر سانحے کے بعد کچھ ارب روپے کے فنڈ بانٹے، چند ٹینٹ لگائے اور پھر خاموش ہو گئے۔ یہ طرزِ عمل صرف عوام کے ساتھ نہیں بلکہ آنے والی نسلوں کے ساتھ بھی ظلم ہے۔ اگر جاپان زلزلوں کے باوجود کھڑا رہ سکتا ہے، ہالینڈ سمندر کے بیچ اپنی زمین محفوظ کر سکتا ہے اور ترکی جدید شہروں کے ذریعے قدرتی آفات کا مقابلہ کر سکتا ہے، تو ہم کیوں نہیں؟ اب آگے کا راستہ کیا ہے اور مستقبل میں ایسے حادثات سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟ اس کیلئے فوری منصوبہ بندی کی اشد ضرورت ہے۔ قانونی طور پر سیلابی علاقوں میں آبادیوں کو ممنوع قرار دیا جائے۔ دریاؤں کے کناروں پر تعمیر پر مکمل پابندی عائد کی جائے۔ سرکاری اہلکار گاؤں گاؤں جا کر سیلابی نقشے بنائیں اور لوگوں کو انخلاء کی مشقیں کروائیں تاکہ کسی ہنگامی صورتحال میں وہ اپنا بچاؤ اپنی مدد آپ کے تحت کر سکیں۔ جی ایل او ایف (گلیشیال لیک آؤٹ برسٹ فلڈ) وارننگ سسٹم ایک ایسا نظام ہے جو گلیشیائی جھیلوں کے پھٹنے سے آنے والے سیلاب سے حفاظتی تدابیر اختیار کرنے میں مدد دیتا ہے۔ اس کیلئے جدید سینسرز اور مقامی زبان میں فوری پیغام رسانی کا مؤثر نظام قائم کیا جائے۔ اگر ہم نے آج اصلاح کا فیصلہ نہ کیا، تو آنے والی نسلیں ہم سے سوال کریں گی: “جب سب کچھ معلوم تھا تو تم نے کیا کیا؟” |