پنجاب ڈوب رہا ہے!

پنجاب یعنی پانچ دلیر دریاؤں کی وسیع القلب سرزمین ۔۔۔ بہادر سپوتوں کی سرسبز و شاداب سرزمین جس کے پکی ہوئی فصلوں سے لہلہاتے میدان دریا برد ہو کر آج کسی سمندر کا منظر پیش کر رہے ہیں۔ آہ۔۔میرا پنجاب ڈوب رہا ہے!

ہمارے دیس میں عجیب صورتحال ہے ۔ کہ ہم صرف "ڈھنگ ٹپاؤ" پالیسی پہ چلتے ہیں۔ پہلے سے نہ کوئی تیاری کی جاتی ہے۔ نہ ہی کوئی لائحہ عمل تیار کیا جاتا ہے۔ اور جب پانی سر سے گزرنے لگتا ہے۔ تو بھاگ ڈور شروع ہو جاتی ہے۔
دنیا میں اس وقت تیزی سے موسمیاتی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ پاکستان تیزی سے موسمیاتی تبدیلیوں کے شکار ممالک کی فہرست میں اول درجہ بندی میں شامل ہے۔ امسال بھی پاکستان میں ریکارڈ ساز گرم ترین خشک موسم ء گرما رہا۔ اور جب مون سون کا سیزن شروع ہوا ہے۔ تو پچھلے تمام رکارڈ توڑ رہا ہے۔ PDMA کی اب تک کی رپورٹ کے مطابق پنجاب میں سال2025ء میں پچھلے سال کی نسبت 73٪ زیادہ مون سون کی بارشیں ہوئیں ہیں۔ جس سے پیاسے دریا یکدم بپھر گئے۔ اور پنجاب کو شدید ترین جانی و مالی نقصان کا سامنا ہے۔ پنجاب کو 39 سال بعد ایسی شدید ترین سیلابی صورتحال کا سامنا ہے۔ اب تک کی رپورٹ کے مطابق پنجاب کے قریباً 1800 سے زائد دیہات زیر آب ہیں۔ اور 15 لاکھ افراد متاثر و بے گھر ہو چکے ہیں۔ جو زرعی املاک و لائیو سٹاک کو نقصان پہنچا ہے ۔ اس کا تو ابھی کوئی اندازہ ہی نہیں لگایا جا سکتا۔ کھڑی فصلیں بہہ چکی ہیں۔ کسانوں کی محنت و جمع پونجی سیلاب کی نظر ہو چکی ہے۔ اور صورتحال مزید بدترین ہو رہی ہے۔ دریائے راوی ، ستلج اور چناب نے لاہور سے ملتان تک پورے پنجاب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔اب صورتحال یہ ہے۔ کہ شہری علاقوں کو بچانے کے لئیے دریاؤں کے پل اور بند اڑائے جا رہے ہیں۔ جھنگ شہر کو بچانے کے لئیے دریائے چناب کا ریلوے بند اڑایا جا چکا ہے۔ چناب پہ ہی قادر آباد ہیڈ ورکس پل اور ریواز پل کو پانی کا دباؤ کم کرنے کے لئیے کنٹرولڈ بموں سے توڑا گیا ہے۔ ہر آبی گزرگاہ و دریا میں گنجائش سے زائد پانی نے تباہی مچا رکھی ہے۔ 1939 میں بنائے گئے تریموں میں 8 لاکھ کیوسک پانی کے ریلے کی گنجائش ہے۔ جبکہ 9 لاکھ کیوسک سے اوپر کا ریلہ متوقع ہے۔

پہلے کے۔پی۔کے میں یکدم سیلابی صورتحال، اب پنجاب میں سیلاب کی تباہی مچی ہوئی ہے۔ اور اس کے بعد سندھ میں بھی خطرہ بڑھتا جا رہا ہے۔ حالیہ رپورٹس کے مطابق سندھ میں سیلاب سے 50 ہزار سے زائد خاندان متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے۔ کہ آخر ایسا کیوں ہے۔ کہ جب زرعی پیداوار کے لئیے پانی کی ضرورت ہوتی ہے ۔ تو خشک سالی کی کیفیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اور جب بارشیں ہوتی ہیں۔ تو سیلاب سب بہا لے جاتا ہے۔ ہر سال یہی پانی، سیلاب کی صورت تباہی مچا کر سمندر کی نذر ہو جاتا ہے۔ جبکہ درست حکمت ء عملی سے اسے زرعی و توانائی کی پیداوار کے لئیے استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔

مانا کہ آفات قدرتی ہوتی ہیں۔ مگر اپنے عمل کو بھی مدنظر رکھنا لازم ہے۔ یہاں اگر یہ کہا جائے کہ بھارت نے پانی جان بوجھ کے چھوڑا ۔ تو یہ ایک بے جا منطق ہو گی۔ کیونکہ دریاؤں کے قدرتی راستے ہوتے ہیں۔ انہی راستوں سے گزر کے اضافی پانی سمندر برد ہوتا ہے۔پنجاب میں سیلابی تباہی کی ایک بڑی وجہ آبی گزرگاہوں پہ تجاوزات بھی بنی ہیں۔ جو عام لوگوں نے نہیں بلکہ بڑے نام اس عمل میں شریک نظر آتے ہیں۔ سب سے پہلے تو دریاؤں کے کناروں پہ موجود جنگلات کو ختم کیا گیا۔ پھر دریائی کی زمین پہ ہی قبضہ کر کے بیچ دی گئی۔ دریا چند سال خشک کیا ہوئے۔ انہوں نے سمجھ لیا کہ بس اب یہ چھوٹے موٹے چھپڑ (جوہر) بن جائیں گے۔ سو اس کی زمین دل فریب ناموں کے ساتھ رہائشی سوسائٹیاں بنا کر اندھا دھن فروخت کرنی شروع کر دی ۔ یہاں تک کہ دریائی گزرگاہوں پہ باقاعدہ رہائشی آبادیاں بنا کر ایک طرح سے کنکریٹ کی دیواریں کھڑی کر دیں ۔ اس کی واضح مثال لاہور میں راوی کی زمین پہ بنائی گئی کالونیاں ہیں۔ مقام ء افسوس تو یہ ہے ۔ کہ ان سوسائٹیوں کے مالکان میں کئی سیاستدان اور حکومتی نام آتے ہیں۔ کوئی بھی حکومت اس عمل سے لاعلم نہ تھی، نہ ہے۔ چونکہ نام اپنے ہی نکلتے ہیں ۔ تو ہر حکومت خاموش ہے۔
یہ لوگ یہ اصول بھول گئے ۔ کہ دریا اپنا راستہ نہیں بھولا کرتا۔ وہ واپس پلٹتا ہے۔ اور ایسا ہی ہوا۔ دریاوں نے اپنا حق واپس لے لیا۔ اور اب ان رہائشی سوسائٹیوں کے مالکان غائب ہیں۔ یا پھر ان سوسائٹیوں کو بچانے کے لئیے پانی کا رخ موڑا جا رہا ہے جس سے اس پاس کے گاؤں تباہ ہو رہے ہیں۔

ناقص پالیسیوں کا المیہ یہ ہے ۔کہ ایک طرف ہر سال سیلاب کی تباہ کاریوں کا سامنا ہے ۔ تو دوسری طرف پاکستان کو پانی کی قلت کا شدید ترین خطرہ لاحق ہے ۔ یہاں تک کہ پاکستان کو 2030ء تک پانی کی قلت کا شکار ملک (واٹر اسیکئر اسٹیٹ) قرار دیئے جانے کا امکان ہے۔ ضرورت کے مطابق ڈیمز نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان اپنی بارش کا صرف 10٪ حصہ محفوظ کر سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق اس وقت پاکستان میں پانی محفوظ کرنے کی گنجائش قریباً 30 دن ہے۔ جبکہ عالمی قوانین کے مطابق کسی ملک کے پاس کم از کم 120 دن کا پانی ذخیرہ ہونا چاہئیے۔
پاکستان میں ذخیرہ شدہ پانی سالانہ دریا کے بہاؤ کا صرف 15% ہے، جو کہ عالمی اوسط 40% کے بالکل برعکس ہے۔ ماہرین کے مطابق اس وقت پاکستان کو 10 ڈیمز کی فوری ضرورت ہے۔ اگر یہ ڈیمز موجود ہوں۔ تو دریائی پانی کو بھی محفوظ کیا جا سکتا ہے۔ جسے زرعی و بجلی بنانے کے مقاصد میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اور سیلابی تباہی سے بھی بچا جا سکتا ہے۔
اس وقت 5 ڈیمز زیر ء تعمیر ہیں۔ نئے ڈیمز کی تعمیر میں تمام صوبوں کو پانی کی منصفانہ تقسیم پہ اعتماد میں لے کے فوری کام شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ نیز دریا کی زمین پہ قائم تجاوزات کو ختم کیا جائے۔ اور جو اس ناجائز کام میں ملوث ہے ۔ اس کو کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے۔یہ وقت سیاست اور مصلحت کا نہیں بلکہ عملی قدم اٹھانے کا ہے۔ اگر آج پانی بچانے اور سیلابی تباہی کو روکنے کے لئیے فیصلہ کن اقدام نہ اٹھائے۔ تو ملک خشک سالی میں پیاسا اور بارش میں ڈوبتا رہے گا۔ صورتحال کوئی بھی ہو پس غریب طبقہ جاتا ہے۔
؂
محسن غریب لوگ بھی تنکوں کا ڈھیر ہیں
ملبے میں دب گئے، کبھی پانی میں بہہ گئے!!

اللہ رب العزت میرے وطن کے ہر باسی کی حفاظت فرمائے۔
آمین.
°°°°°°°°°

 

Syeda Sadia Amber Jilani
About the Author: Syeda Sadia Amber Jilani Read More Articles by Syeda Sadia Amber Jilani: 29 Articles with 25117 views Poetess and Writer of Urdu, Punjabi and English. Columnist, motivational speaker, Thinker, Educationist and Economist... View More