پشاور: قافلوں کا شہر سے ٹک ٹاک کا اکھاڑا
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
کبھی پشاور قافلوں کا شہر کہلاتا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب یہاں سے سِلک روڈ گزرتا، تاجر قافلے کے ساتھ مصالحے، کپڑا، سونا اور کہانیاں لاتے۔ پھر یہی پشاور "پھولوں کا شہر" مشہور ہوا۔ خوشبو ایسی کہ شاعر نہ بھی ہو تو دو مصرعے گھڑ ہی لیتا۔ لیکن آج کا پشاور۔۔۔ یوں لگتا ہے جیسے کوئی پرانی داستان اچانک کسی مزاحیہ خاکے میں بدل گئی ہو۔
اب یہاں فٹ پاتھ بیچنے کا رواج ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ فٹ پاتھ پر شاعر بیٹھ کر غزلیں سناتے، آج کل ٹھیلے والا حکم دیتا ہے: "بھائی، ایک کلو چنے لو ورنہ آگے بڑھو۔" سڑکیں بھی نیلام عام ہیں۔ کبھی ٹیکسی سٹینڈ کے نام پر، کبھی پلازہ کے لیے۔ اگر یہی رفتار رہی تو جلد اعلان ہوگا: "چمکنی کا آسمان، نیلام عام۔"
صفائی کے نظام کا حال یہ ہے کہ ڈمپنگ سائٹس ہر محلے کا زیور بن گئی ہیں۔ مچھر اتنے ہیں کہ اقوام متحدہ چاہے تو یہاں سے عالمی سطح پر "قدرتی ویکسین" لانچ کر سکتی ہے۔ اور اوپر سے چائے کا حال دیکھیے۔ کالے چنے اب باقاعدہ چائے کی جگہ بیچے جا رہے ہیں۔ غالب زندہ ہوتے تو شاید یہ مصرعہ لکھتے: "پیتے ہیں خون کہ چائے نصیب نہیں ہوتی۔"
پھر شہر کی "ریسٹ روم پالیسی" ہے۔ آفیسر ریسٹ روم کا بورڈ لگایا جاتا ہے لیکن اندر کا حال دیکھ کر سقراط بھی فلسفہ چھوڑ کر ماسک لگا لیتا۔
بازاروں میں عام لوگوں کا گزرنا ایسے ہی ہے جیسے آپ اولمپکس کی کشتی میں بغیر تیاری کے کود پڑیں۔ ہر طرف شور، رش اور دھکم پیل۔ شاید اسی لیے شاعر اب غزلیں کمرے میں لکھتے ہیں، بازار میں جانا موت کو دعوت دینا ہے۔
اور ٹک ٹاک۔۔۔ اس نے پشاور کو بالکل بدل ڈالا۔ پہلے یہاں مشاعرے ہوتے تھے، لوگ شاعر کو داد دیتے تھے۔ اب "ہائے میری جان" پر لائکس بٹتے ہیں۔ خواتین، مرد اور خواجہ سرا سبھی ہیرو ہیں۔ پرانی کتابوں کی جگہ اب فلٹرز اور ٹرینڈز نے لے لی ہے۔
ہیروئنچی اور آئس مار بھی شہر کی نئی حقیقت ہیں۔ یہ تعداد اتنی بڑھ گئی ہے کہ کھیلوں کے میدان خالی اور نشے کے اڈے آباد ہیں۔ کبھی یہی شہر پہلوانوں اور کھلاڑیوں کے نام سے پہچانا جاتا تھا، آج کے نوجوان "وائرس فری نیٹ پیکیج" اور "لائکس" کی دوڑ میں ہیں۔
تاریخ میں پشاور پر بڑے بڑے فاتح گزرے۔ سکندر اعظم، مغل، احمد شاہ ابدالی۔ لیکن آج کا اصل فاتح ٹریفک کانسٹیبل ہے، جو سیٹی بجا کر تانگے سے لیکر لینڈ کروزر تک سب کو ایک ہی قطار میں کھڑا کرتا ہے۔
یہی ہے میرا پشاور۔ جو کبھی پھولوں کا شہر تھا اور آج بدبو کی ڈمپنگ سائٹس کا۔ جو کبھی قافلوں کا شہر تھا اور آج ٹک ٹاکرز کا۔ جو کبھی علم و ادب کا گڑھ تھا اور آج کالے چنے کی چائے کا۔ لیکن طنز کے ساتھ ساتھ محبت اب بھی باقی ہے۔ کیونکہ پشاور کی پہچان صرف اس کی بدحالی نہیں بلکہ اس کی وہ پرانی خوشبو بھی ہے جو اب بھی یادوں میں بسی ہوئی ہے۔
|